اونٹنی کے دودھ کی اہمیت، نوعیت اور افادیت (حصہ اول)

ڈاکٹر سید صلاح الدین قادری  جمعـء 16 جون 2017
لوگوں میں یہ غلط تاثرکیوں پایا جاتا ہے کہ اونٹنی کے دودھ میں آدھے گھنٹے کے اندر کیڑے پڑجاتے ہیں؟ اِس قدر جلد اونٹنی کے دودھ کے خراب ہونے کی کوئی سائنسی حقیقت یا دلیل کسی کے پاس نہیں ہے۔

لوگوں میں یہ غلط تاثرکیوں پایا جاتا ہے کہ اونٹنی کے دودھ میں آدھے گھنٹے کے اندر کیڑے پڑجاتے ہیں؟ اِس قدر جلد اونٹنی کے دودھ کے خراب ہونے کی کوئی سائنسی حقیقت یا دلیل کسی کے پاس نہیں ہے۔

اونٹ کی ساخت اور فعلیات میں اللہ رب العزت کی نشانیاں دیکھتے ہوئے جب اونٹنی کے دودھ پر توجہ کی جاتی ہے تو یہاں بھی اونٹ کے منفرد انداز دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم اُن پر غور کرنے سے قبل ایک بار پھر چند آیاتِ ربانی ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہیں جن میں دودھ کی تشکیل اور اِس کے فوائد کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

’’اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے؛ اِن کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔‘‘ سورۃ النحل، آیت 66

 ’’اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ اِن کے پیٹوں میں جو کچھ ہے، اسی میں سے ایک چیز (یعنی دودھ) ہم تمہیں پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت سے فائدے ہیں۔‘‘ سورۃ المومن، آیت 21

ان آیات ربانی میں مویشیوں میں دودھ بننے کے عمل پر غور کرنے کا اشارہ کیا گیا ہے۔ اِس کی مزید وضاحت کچھ یوں ہے کہ مویشی کس قسم کا چارہ کھاتے ہیں کہ جو ہضم ہوکر، خون کے راستے سے پستان میں پہنچ کر دودھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مویشیوں کی غذا کے اثرات اُن کے دودھ پر بھی پڑتے ہیں اور پھر اِس دودھ میں فوائد کا بھی اشارہ دیا گیا ہے۔ غور فرمائیے کہ گائے، بھینس، اونٹ، بھیڑ اور بکری، سب کا دودھ الگ الگ ذائقوں کا ہے۔ ہر ایک کے فوائد الگ ہیں۔ یہ سب باتیں اللہ رب العزت نے انسان کے لیے کھول کر بیان کردی ہیں۔ اب ہمارا کام ہے کہ ہم اِن پر کس حد تک غور کرتے ہیں اور کس قدر فوائد حاصل کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں صرف پانچ حیوانات دودھ کی پیداوار کے حوالے سے جانے جاتے ہیں جن میں گائے، بھینس، بکری، بھیڑ اور اونٹ شامل ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 2010ء میں دودھ کی پیداوار تقریباً سوا سات کروڑ ٹن رہی جبکہ اونٹنی کے دودھ کی پیداوار ساڑھے تئیس لاکھ ٹن تھی۔ دنیا بھر میں دودھ کی پیداوار میں سے گائے کا دودھ کل پیداوار کا 83.3 فیصد، بھینس کا دودھ 13 فیصد، بکری کا دودھ 2.2 فیصد، بھیڑ کا دودھ 1.3 فیصد اور اونٹنی کا دودھ 0.2 فیصد تھا۔

اونٹنی کا دودھ عموماً تازہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ خمیر شدہ دودھ جسے ثہبت (Shubat) کہتے ہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ اونٹنی کے دودھ کا استعمال عموماً عرب ممالک یا افریقی قبائل میں زیادہ ہے جو کہ کل استعمال ہونے والے دودھ کا 13.6 فیصد ہے۔ برِصغیر میں عام افراد اونٹنی کا دودھ استعمال نہیں کرتے ہیں۔ برصغیر میں 53 فیصد بھینس کا دودھ استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں بھینس کے دودھ کی پیداوار میں دو ہی ممالک کی توجہ زیادہ ہے، بھارت میں بھینس کے دودھ کی پیداوار، کُل پیداوار کا 92 فیصد حصہ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر پاکستان ہے۔

یورپ اور امریکہ میں تو اونٹ نہیں ہوتا، اِس لیے وہاں اونٹنی کے دودھ کا استعمال نہیں، مگر حالیہ تحقیقات کی روشنی میں اونٹنی کے دودھ کی طبّی اہمیت بڑھ جانے کے باعث اب لوگ اِس جانب متوجہ ہورہے ہیں۔ اِسی حوالے سے متحدہ عرب امارات میں تجارتی بنیادوں پر اونٹنی کا دودھ جدید انداز میں بیچنا شروع کیا گیا ہے، جس کی درآمد کی اجازت برطانیہ اوردیگر یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی دے دی گئی ہے۔

اِس ضمن میں یہ حقیقت کسی تازیانۂ عبرت سے کم نہیں کہ یہودی عقیدے کے مطابق، اونٹ حرام ہے، لہٰذا یہودیوں کے یہاں اونٹنی کا دودھ بھی حرام ہے۔ یہودی عقیدے کے تحت صرف ایک صورت میں اونٹنی کا دودھ استعمال کرنے کی اجازت ہے، جب یہ کسی مرض کے علاج میں (یعنی بطور دوا) تجویز کیا گیا ہو اور اِس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لیکن اِس ممانعت کے باوجود دلچسپ امر یہ ہے کہ اونٹ پر تحقیق کرنے والے چند اہم اور بڑے سائنسدان یہودی ہی ہیں۔ اُن میں ایک بڑا نام یاگیل (Yagil) کا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اونٹ پر مصروفِ تحقیق ہیں۔ یاگیل کے خیال میں اونٹنی کے دودھ سے افریقی بچوں میں غذائی قلت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ایک اونٹنی کے دودھ سے چالیس بچے غذا حاصل کرسکتے ہیں۔ یاگیل، صحرا میں شمسی توانائی کی مدد سے اونٹنی کا دودھ محفوظ رکھنے کے تجربات کررہے ہیں، جبکہ انہوں نے اونٹنی کے دودھ کو زیادہ طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لئے اونٹنی کے دودھ کی آئسکریم بھی تیار کی ہے۔

علاوہ ازیں ہندوستان میں بھی اونٹ کے حوالے سے تحقیقاتی کام ہورہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ قازقستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور سوڈان میں بھی اونٹ کے حوالے سے تحقیقات میں پیش پیش ہیں۔ پاکستان میں بھی چند ایک لوگ اِس جانب متوجہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی اونٹنیاں، دودھ کی زیادہ پیداوار کے حوالے سے مشہور ہیں۔ کینیا میں دودھ کی زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے بطور خاص پاکستانی اونٹنیاں منگوائیں گئی ہیں۔ اگر اِس جانب توجہ دی جائے تو بلوچستان، تھر اور چولستان میں نہ صرف غذائی قلت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے بلکہ متحدہ عرب امارات کی طرز پر دودھ کی پیداوار تجارتی بنیادوں پر استوار کرکے کثیر زرمبادلہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

 

اونٹنی کا دودھ

کسی بھی حیوان کے دودھ کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے اہم نکتہ، دودھ کی مقدار کا ہوتا ہے۔ جو دودھ کی یومیہ پیداوار اور متعلقہ جانور کے دودھ دینے کے عرصے پر منحصر ہوتا ہے، اِس کے بعد دودھ کی غذائیت دیکھی جاتی ہے اور آخر میں اِس کی طبّی اہمیت کو دیکھا جاتا ہے۔ اونٹ پر غور کرتے ہوئے جہاں ہمیں اِس کے نرالے انداز دکھائی دیتے ہیں، وہیں اونٹنی کے دودھ دینے میں اور اِس کے دودھ میں بھی نرالا پن دکھائی دیتا ہے۔

اونٹ اور لاما ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر اونٹنی کے چار تھن ہوتے ہیں جبکہ لاما کے دو ہوتے ہیں۔ (اِسی لیے ایک عرصے تک ماہرین حیوانیات، لاما کو اونٹ کے بجائے بھیڑ بکری کے قریب سمجھتے رہے)۔ اونٹنی کی نسبت لاما سے دودھ کی پیداوار بھی انتہائی کم ہے۔ گائے بھینس کی طرح اونٹنی کے بھی چار تھن ہوتے ہیں۔ گائے اور بھینس میں تھن، شکم سے نیچے لٹکے ہوتے ہیں اور ان میں 95 فیصد دودھ جمع ہوتا ہے جبکہ اونٹنی کے تھن شکم سے چپکے ہوتے ہیں۔ گائے اور بھینس میں دودھ تھن میں جمع ہوتا رہتا ہے جبکہ اونٹنی کے تھن کی ساخت مختلف ہوتی ہے اور اُن میں اس قدر دودھ جمع نہیں ہوتا ہے۔

اونٹنی کا بچہ جب تھن کومنہ لگاتا ہے تو ڈیڑھ منٹ کے اندر یہ تیزی سے دودھ سے بھر جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ جہاں اِس تیزی سے دودھ جمع ہوتا ہے؛ وہیں اگر سارا دودھ بھی دوھ لیا جائے تو صرف 30 منٹ بعد ہی بچے کے منہ لگانے پر اونٹنی کے پستان ایک بار پھر دودھ سے بھر جاتے ہیں۔

دودھ دوہنے کے عمل میں عموماً اونٹنی کے بچے کو لایا جاتا ہے۔ ایک جانب سے بچہ دودھ پیتا ہے تو دوسری جانب سے دودھ دوہنا شروع کیا جاتا ہے۔ اونٹ چونکہ طویل القامت حیوان ہے اس لیے دودھ دوہنے کا عمل کھڑے ہوکر کیا جاتا ہے۔ دودھ دوہنے والا شخص ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا ہے اور دوسری ٹانگ کی مدد سے دودھ کا برتن اپنی جگہ قائم رکھتا ہے اور دونوں ہاتھوں سے تیزی کے ساتھ دودھ دوہتا ہے۔ دودھ کی زیادہ پیداوار کے لیے دو اشخاص آمنے سامنے کھڑے ہوکر تیزی سے دودھ دوہتے ہیں۔

اونٹنی کا دودھ مشینوں کے ذریعے بھی دوھنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے مگر اونٹنی کا دودھ مشینوں کے ذریعے دوھنے کے لیے پہلے انجکشن لگایا جاتا ہے۔ تاہم متحدہ عرب امارات میں مشینوں کے ذریعے جو اونٹنی کا دودھ نکالا جارہا ہے اس کے نتائج کی بنیاد پر ہاتھوں کے ذریعے دودھ دوھنے کے عمل میں پیداوار زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ مشینوں کے ذریعے دودھ نکالنے میں پہلے چار پانچ روز تو اونٹنی کو مانوس ہونے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ اونٹنی کا بچہ اگر مرجائے تو اونٹنی غم زدہ ہوجاتی ہے اور اس کی یہ کیفیت دس دن تک رہتی ہے۔ چنانچہ اگر اونٹنی کا بچہ مرجائے تو اس کی کھال میں بھوسہ بھر کر اسے اونٹنی کے سامنے لایا جاتا ہے تاکہ دودھ کی پیداوار حاصل کی جاسکے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اگر دودھ دوہنے والے شخص سے اونٹنی مانوس نہیں، تو بھی دودھ کی پیداوار میں کمی آجاتی ہے۔

اونٹنی سے دودھ کا حصول عموماً دن میں دو مرتبہ کیا جاتا ہے، ایک علی الصبح اور دوسرا شام کے وقت۔ بعض علاقوں میں یہ عمل دن میں چار سے چھ مرتبہ بھی کیا جاتا ہے۔ ایک مطالعے میں یہ بات بھی سامنے آئی کے اگر دودھ دوھنے کے عمل میں چار گھنٹے کا وقفہ ہو تو دودھ کی انتہائی پیداوار حاصل ہوتی ہے اور دودھ کا افراز بھی تیزی سے ہوتا ہے۔ صبح اور شام میں دودھ دوھنے کے عمل میں اگر سولہ گھنٹے کا فرق ہو تو دودھ کی پیداوار میں کمی دیکھی گئی ہے اِس کی نسبت اگر آٹھ سے بارہ گھنٹے کا وقفہ ہو تو دودھ کی پیداوار پر زیادہ فرق نہیں واقع ہوتا ہے۔ زیادہ دودھ دینے والی نسلیں دودھ کی زیادہ پیداوار دیتی ہیں۔

اچھی غذا اور پانی کی وافر دستیابی میں دودھ کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے جبکہ غذا اور پانی کی کمی کی صورت میں دودھ کی پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ عموماً دودھ کی کم پیداوار 6 لیٹر اور زیادہ پیداوار 20 لیٹر یومیہ تصور کی جاتی ہے۔ تاہم کم سے کم پیداوار 3 لیٹر یومیہ تک دیکھی گئی ہے جو عموماً خشک سالی کے دوران ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان حالات میں گائے بکری سے دودھ کی پیداوار حاصل ہی نہیں ہوتی ہے۔

اونٹنی میں زیادہ پیداوار 20 سے 21 لیٹر یومیہ ہے جبکہ ریکارڈ پیداوار 35 لیٹر یومیہ تک دیکھی گئی ہے۔ اِس حوالے سے بڑے جثہ کے پاکستانی اونٹ مشہور ہیں، جبکہ دودھ کی زیادہ پیداوار میں دریائی اونٹ ’’مریچھا‘‘ (Marecha) کی شہرت بہت زیادہ ہے، جو بھوری یا گہری بھوری رنگت کے ہوتے ہیں۔ اونٹنی کے دودھ دینے کا عرصہ 8 سے 18 ماہ کا ہے۔ پاکستانی اونٹنی میں یہ مدت 9 سے 18 ماہ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ عالمی ادارۂ خوراک و زراعت (ایف اے او) کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً دو کروڑ (20 ملین) اونٹ ہیں۔ صومالیہ میں اونٹوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے صومالیہ کا نمبر پہلا ہے۔ دنیا میں اونٹوں کے دودھ کی سالانہ پیداوار کا تخمینہ 5.4 ملین (54 لاکھ) ٹن ہے۔

 

دودھ کی نوعیت

اونٹنی کے دودھ کی رنگت گدلی سفید (Opeque white) ہوتی ہے۔ یہ ذائقے میں میٹھا ہوتا ہے جبکہ کبھی کبھار دودھ کا ذائقہ نمکین بھی ہوتا ہے۔ دودھ کی pH قدر 6.5 سے 6.7 تک ہوتی ہے۔ اونٹنی کے دودھ کو اگر عام درجہ حرارت پر رکھا جائے تو اُس میں لیکٹک ایسڈ (Lactic Acid) کی مقدار تیزی سے بڑھتی ہے جس کے باعث اِس کا ذائقہ ترش ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ دودھ دوھنے کے چھ گھنٹے بعد دودھ کی ترشی میں بہت معمولی سا اضافہ ہوجاتا ہے۔ 30 ڈگری سینٹی گریڈ پر آٹھ گھنٹے بعد اونٹنی کا دودھ ترش ہوجاتا ہے جبکہ گائے کے دودھ میں اِس قدر ترشی صرف تین گھنٹے بعد ہی پیدا ہوجاتی ہے۔

لوگوں میں یہ غلط تاثرکیوں پایا جاتا ہے کہ اونٹنی کے دودھ میں آدھے گھنٹے کے اندر کیڑے پڑجاتے ہیں؟ اِس قدر جلد اونٹنی کے دودھ کے خراب ہونے کی کوئی سائنسی حقیقت یا دلیل کسی کے پاس نہیں ہے۔ حقیقتاً اونٹنی کا دودھ گائے بھینس کے دودھ سے زیادہ عرصہ قابل استعمال رہتا ہے اور بہت دیر میں خراب ہوتا ہے۔

اِسی طرح اونٹنی کا دودھ بیچنا بھی ایک غلط عمل سمجھا جاتا ہے۔ اسلام میں یا کسی اور مذہب میں اِس کی کوئی ممانعت نہیں ہے، مگر افریقہ سے وسط ایشیاء تک خانہ بدوش لوگوں میں یہی رجحان ملتا ہے۔ یہ دونوں مفروضات سینہ گزٹ کے تحت اس قدر عام ہیں کہ لوگ اِن کو تو حقیقت مانتے ہیں اور سائنسی تحقیقات کو یکسر مسترد کردیتے ہیں۔ اگر اونٹنی کا دودھ پیش کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ 6 گھنٹے قبل کا ہے تو لوگ اُس میں کیڑے نہ دیکھ کر حیران ہونے کے بجائے اِس دودھ کو اونٹنی کا دودھ ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔

اونٹنی کے دودھ میں کیڑے پڑنے کی واحد وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ دودھ دوہنے کے عمل کے دوران اگر پستان گندے ہوں جن سے کیڑے دودھ دوہنے کے عمل کے دوران دودھ میں شامل ہوسکتے ہیں، لیکن اگر حفظان صحت کے اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے تو ایسا نہیں ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
ڈاکٹر سید صلاح الدین قادری

ڈاکٹر سید صلاح الدین قادری

مصنف جامعہ ملیہ کالج ملیر میں حیوانیات کے پروفیسر ہیں۔ اونٹ کے بارے میں آپ کی ایک تحقیقی کتاب اردو میں شائع ہوچکی ہے جس کے عربی اور انگریزی تراجم زیر طبع ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔