ہیضہ ہماری آنتوں کا محافظ

ویب ڈیسک  اتوار 18 جون 2017
اگر ہیضے میں الٹی اور دست جیسی کیفیات نہ ہوتیں تو یہ بیماری آج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتی۔ (فوٹو: فائل)

اگر ہیضے میں الٹی اور دست جیسی کیفیات نہ ہوتیں تو یہ بیماری آج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتی۔ (فوٹو: فائل)

بوسٹن: ہیضہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر سال دنیا بھر میں دو ارب سے زیادہ افراد کو متاثر کرتی اور لاکھوں انسانی موت کا باعث بنتی ہے لیکن اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ہیضہ ایک انسان دوست بیماری ہے جو دراصل ہماری آنتوں کو جرثوموں کے شدید حملوں سے بچانے کا کام کرتی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اگر ہیضہ حملہ آور نہ ہو تو خطرناک بیکٹیریا اندر ہی اندر انسانی آنتوں کو کمزور بناتے ہوئے بالآخر انہیں پھاڑ ڈالیں گے اور اس کا یقینی نتیجہ موت کی شکل ہی میں ظاہر ہو گا۔

طبّی ماہرین میں صدیوں سے یہ بحث جاری ہے کہ ہیضہ صرف ہلاکت خیز نہیں بلکہ اس کا کچھ نہ کچھ مثبت اور مفید پہلو بھی ہے جس کا مقصد شاید انسانی جسم کو کسی بڑی تباہی اور بڑے نقصان سے بچانا ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں ہو پا رہا تھا کہ آخر ہیضے سے وابستہ حفاظتی نظام کس طرح عمل میں آتا ہے اور کیسے کام کرتا ہے۔ ماضی میں اس حوالے سے کی گئی متعدد تحقیقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی تھیں۔

ان تمام باتوں کے پیشِ نظر برگہام اینڈ ویمنز ہاسپٹل، بوسٹن کے طبّی ماہرین نے چوہوں پر تفصیلی تجربات کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اگلے مرحلے پر انسانی تجربات کی راہ ہموار ہوسکے۔ ان تجربات کے دوران چوہوں کے ایک گروپ کو اُن جرثوموں سے متاثر کیا گیا جو چوہوں میں ہیضے کا باعث بنتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں پہلے ’’انٹرلیوکن 22‘‘ نامی ایک پروٹین کی زیادہ مقدار بننے لگی جو چوہوں کی آنتوں پر اندرونی جھلی کی طرف جمع ہونے لگی اور ان خلیوں کو ایک اور پروٹین ’’کلاڈین 2‘‘ کی اضافی مقدار تیار کرنے پر مجبور کرنے لگی۔

کلاڈین 2 پروٹین، آنت کی جھلی میں موجود خلیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور معمول کے مقابلے میں ان سے کم وقت میں زیادہ پانی خارج کرنے کا باعث بنتا ہے۔ یعنی دراصل یہی وہ پروٹین بھی ہے جو ہیضے میں الٹی اور دست کی بڑی وجہ بنتا ہے۔ البتہ اسی کے ساتھ انہوں نے ایک اور اہم بات بھی دریافت کی۔

انہیں معلوم ہوا کہ ہیضے کی حالت میں الٹی اور دست کی صورت میں جسم سے پانی کی بڑی مقدار کے ساتھ ساتھ ہیضے کی وجہ بننے اور آنتوں کو نقصان پہنچانے والے جرثوموں کو بھی بڑی مقدار جسم سے باہر نکل جاتی ہے۔

اگر یہ بیکٹیریا زیادہ عرصے تک جسم میں موجود رہ جائیں تو آنتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کے باعث ہیضے کا مرض ختم ہونے میں مہینے بھر سے بھی زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے؛ اور اگر ان جرثوموں کی سرگرمیاں قابو سے باہر ہوجائیں تو یہ آنتوں کی اندرونی جھلی تباہ کرکے انہیں پھاڑ سکتے ہیں اور متاثرہ فرد کو موت کے گھاٹ بھی اتار سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہیضے میں انٹرلیوکن 22 اور کلاڈین 2 پروٹین کا نظام موجود نہ ہوتا تو شاید ہیضے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی آج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی۔ اب وہ اگلے مرحلے میں یہی تحقیق انسانوں کے لیے کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں اور انہیں امید ہے کہ امریکی ادارہ برائے غذا و دوا (ایف ڈی اے) جلد ہی اس کی اجازت بھی دیدے گا۔

برگہام اینڈ ویمنز ہاسپٹل، بوسٹن میں کیے گئے اس تحقیقی مطالعے کے نتائج ریسرچ جرنل ’’سیل ہوسٹ اینڈ مائیکروب‘‘ میں شائع ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔