ریوڑ کی نگہبانی

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 17 جون 2017

نجانے کتنا عرصہ بیت گیا ہے لیکن میں اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ ہم بھیڑہیں یا بھیڑیے ہیں جتنا سوچتا گیا، اتنا ہی بھٹکتا گیا پھر ایک روز اپنے آپ سے گم ہوگیا اورآج تک دوبارہ اپنے آپ سے مل نہیں پایا اور سوال ہے کہ قہقہے لگانا بند نہیں کررہا ہے۔

ایسا کرتے ہیں، اس سوال کا جواب جرمن ماہر نفسیات، ماہرتحلیل نفسی، فلسفی اور جمہوریت پسند سوشلسٹ ایر ک فرام کی باتوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے ’’ بہت سے افراد کا خیال ہے کہ انسان بھیڑکی مانند ہیں یعنی سیدھااور بھولا جب کہ دیگر بہت سے افرادکا ماننا ہے کہ انسان بھیڑیا ہے یعنی چالاک اورخونخوار۔ ان دونوں متضاد اور مختلف الخیال گروہوں کے پاس اپنے دعوؤں کے لیے شافی دلائل بھی موجود ہیں جس گروہ کا خیال ہے کہ انسان بھیڑکی طرح ہے وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان بہت آسانی سے دوسروں کی باتوں میں آجاتا ہے اور اسے جس طرح کہا جاتا ہے وہ کرنے لگ جاتا ہے وہ اپنے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے احکامات پر عمل پیرا ہوتا ہے، وہ جوش کے ساتھ کہی گئی کسی بھی یاوا گوئی ،جسے قوت کی بنیاد بھی میسر ہو۔ اس پر ایمان لے آتا ہے چاہے وہ پادری کے دلٓاویز نصائح ہوں یا پھر کسی راغب کرنے والے کا کلام نرم ونازک ہو ایسا لگتا ہے کہ انسانوں کی اکثریت سریع المتاثر ہوتی ہے بالکل اس نیم خوابیدہ بچے کی طرح جسے آپ کوئی بھی کام کرنے کوکہیں چاہے وہ تحکمانہ انداز میں ہو یا پھر دھیمی آواز سے ، وہ اسے بلاچوں وچراں بجا لاتا ہے کیونکہ اس وقت وہ آپ کے زیر تسلط ہوتا ہے۔

انسانوں کو اس بھیڑ صفت ہونے کے پیش نظر آمروں اورکلیسائی عدالتوں کے تفتیش کاروں نے اپنے اداروں کی بنیاد رکھی اور اس پر مزید یہ اس خیال کو فروغ دیا گیا کہ انسان بھیڑ ہیں اور اس ریوڑ کی نگہبانی اور رہنمائی کے لیے انھیں رہنماؤں کی ضرورت پڑتی ہے جو ان کے لیے فیصلے کرسکیں۔ انھیں درست راہ پر گامزن رکھ سکیں لیکن اگر واقعی انسانوں کی اکثریت بھیڑ صفات ہیں تو پھر ان کی زندگی بھیڑ سے اس قدر مختلف کیوں ہے؟ اس کی پوری تاریخ خون آشام ہے یہ مسلسل تشدد کی ایک داستان ہے ، کیا ترکی میں لاکھوں آرمینیائی افراد کے قتل میں طلعت پاشا تنہا تھا؟ کیا ہٹلر نے فرد واحد کی حیثیت سے لاکھوں یہودیوں کو سلگتی بھٹیوں میں جھونک کر انھیں راکھ میں تبدیل کیا؟ کیا اسٹالن نے تنہا ہی لاکھوں سیاسی دشمنوں کو صفحہ ارض سے ختم کیا ؟ یقیناً نہیں ان میں کوئی بھی یہ کام تنہا نہیں کرسکتا تھا، انھیں تمام جرائم میں دیگر ہزاروں افراد کی معاونت حاصل تھی جو ان کے کہنے پر دیگر انسانوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ، انھیں موت کی نیند سلاتے اور وہ یہ سب کچھ نہ صرف خوشی سے کرتے بلکہ ان میں سے اکثریت اس ہلاک انگیزی سے نشاط بھی اٹھاتے۔ یہ ہی وہ حقائق وشواہد ہیں جن کی بنیاد پر تھامس ہوبز نے کہا تھا ’’کہ انسان دیگر انسانوں کے لیے بھیڑیا ہے‘‘ کیا ہم یہ مانیں اس کا آسان جواب یہ ہوسکتا ہے کہ بھیڑوں کی اکثریت کے درمیان کہیں چند بھیڑیے در آئے ہیں اور جو ان کے درمیان زندگی بسرکررہے ہیں۔

بھیڑیے زندگی لینا چاہتے ہیں اور بھیڑ بھی ان کی تقلید کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بھیڑیے ان ہی بھیڑوں کے ذریعے قتل کراتے ہیں مظالم کراتے ہیں اور بھیڑ کو اس سارے عمل سے کوئی کیف وسرور حاصل نہیں ہوتا وہ تو محض تقلید کے خوگر ہوتے ہیں ،’’خدا کا شکر ہے کہ ایرک فرام کی کہی گئی باتوں کی روشنی میں آج میں اس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں کہ ہم سب بھیڑ ہیں اورکافی سارے بھیڑیے ہم میں گھس گئے ہیں جو ہمارے درمیان زندگی گذار رہے ہیں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وہ سب اعلیٰ عہدوں پر سالوں سے قابض ہیں سب کے سب انتہائی طاقتور، بااختیار ہوچکے ہیں اور ہم سب ان کی تقلید میں اتنے مصروف ہیں کہ ہمیں اپنا بھی ہوش نہیں ہے۔

اگر آپ کو میری بات کی سچائی پر کوئی شک ہے تو آپ برائے کرم اپنا ذہنی اور فکری سفر ماضی کی طرف موڑ لیں اور اپنے سفرکا آغاز 1947 سے شروع کردیں۔ اس سفر میں آپ اپنی ملکی تاریخ کا باریک بینی کے ساتھ جائز ہ لیجیے گا پھر اپنے سفر کے اختتام پر آپ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہوں گے، لیکن اگر کچھ صاحبان میری بات سے اختلاف کریں تو میں ان سے چند سوالات کرنے کی جرأت کروں گا کیا غلام محمد نے ساری بدمعاشیاں اکیلے کی تھیں ؟کیا غلام محمد بھیڑ تھا ؟کیا اسکندر مرزا اکیلا تھا یا ہم ہی اس کے ہاتھوں استعمال ہوئے تھے؟ کیا کسی آمر نے جوگل کھلائے اور آج کی ساری برائیاں اورخرابیاں جن کا وہ خالق ہے وہ تنہا یہ سب کچھ کرسکتا تھا؟ کیا 70سالوں سے ملک میں جاری کرپشن، لوٹ مار، غنڈہ گردی، بدمعاشی،کمیشن خوری ہماری تعاون کے بغیرممکن تھیں ؟کیا ساری طاقت، اختیار،آزادی ، اقتدار جو چند بھیڑیوں کے پاس ہے ہماری اجازت کے بغیرکیا یہ سب کچھ ممکن ہو سکتا تھا ؟ کیا کوئی ہماری مرضی کے خلاف ہمیں ذلیل وخوارکرسکتا ہے ؟ کیا چند سوکرپٹ ، لٹیرے کروڑوں انسانوں کی مرضی کے خلاف ملک پر قابض ہوسکتے ہیں؟

کیا کوئی ہماری مرضی، منشا اور تعاون کے بغیر بیس بیس گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرنے کی جرأت کرسکتا ہے؟کیا کوئی پانی اور گیس کی بندش کرسکتا ہے؟ کیا مشرقی پاکستان کے لوگوں کی محرومیوں کے عمل میں اور ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں ہمارا خود کا کردار شامل نہیں ہے؟ کیا ہم نے اپنی مرضی سے اپنے سارے اختیارات ، حقوق ،آزادی ،خوشحالی بھیڑیوں کے حوالے نہیں کردی ہیں ؟ کیا ہم نے مذہبی انتہاپسندی روکنے کے لیے کبھی اپنا کردار ادا کیا ہے ؟ کیا ملک کے ادارے تباہ ہوتے دیکھتے ہوئے بھی ہم سب خاموش نہیں رہے ہیں؟ کیا خودکش بمباروں کی فیکٹریاں ہماری اجازت کے بغیر کھل سکتی تھیں؟ یاد رکھیں ہمارے ملک میں ساری برائیاں اور خرابیاں ایک رات میں نہ تو پیدا ہوئی ہیں اور نہ ہی پھیلی ہیں اور نہ ہی انھیں کسی دشمن ملک نے ہمارے ملک میں پھینکا ہے۔ ساری خرابیاںاور برائیاں ہماری اپنی مرضی، منشا اوراجازت سے ملک اور اداروں پر قابض ہوئی ہیں اس لیے رونا ،چلانا اور دہائیاں دینا بندکردو کیونکہ یہ سب کچھ آپ کی اپنی مرضی ، منشا اور اجازت سے ہو رہاہے قصور وار اور مجرم بھیڑیے نہیں بلکہ آپ خود ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔