آزاد عدلیہ

جاوید قاضی  ہفتہ 17 جون 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

میاں صاحب کا پیش ہونا، تقریباً ڈھائی گھنٹے مسلسل سوالوں کے جواب دینا، ان افسران کے سامنے جو رتبے کے اعتبار سے میاں صاحب کے عہدے کی بہ نسبت بہت چھوٹے تھے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ وزیراعظم حاضر ہوئے اور قانون کے منطقی اعتبار سے، جب وہ JIT کی حدود میں داخل ہوئے تو عام شہری تھے اور عام شہری ہی کی طرح ان کے ساتھ سلوک روا رکھا گیا، عام شہری ہی کی طرح یعنی بغیر کسی پروٹوکول کے وہ حاضر ہوئے۔ نہ انھوں نے کورٹ پر احسان کیا نہ کورٹ نے ان پر احسان کیا۔ ایک خبر آئی تھی کہ موصوف بائیکاٹ کریں گے اور اس بات پر گمان اس لیے ہوا کہ نہال ہاشمی بڑی طرم خانی دکھا رہے تھے، مگر جو نہال ہاشمی کے ساتھ ہوا، اس پر اس گمان کا نہ ہونا مقصود تھا مگر جو شعلہ بیانیاں طلال اور دانیال دکھا رہے تھے اور جو بھڑکیاں رانا دے رہے تھے ان بھبھکیوں میں اضافہ پھر کرمانی کی صورت میں بھی ہوا تو دوچار اور اہلِ درباری صفت بھی شامل ہوئے۔

یوں کہیے کہ وہ عام آدمی کی حیثیت سے عدالت میں خود نہ آئے تھے، ان کو آنا تھا اور اگر نہ آتے تو توہین عدالت کے زمرے میں آتے۔ یعنی ایک اور دفتر لگتا، کیس کھلتا اور ثابت ہوتا تو یہ بھی یوسف رضا گیلانی کی طرح نااہل قرار پاتے۔ لیکن اب جو بازگشت چل رہی ہے، جو ان کی ترجمانی  مختلف جگہوں پر مائیک اور ڈائس لگا کر کہی جا  رہی ہے کہ جو بھی عدالت کا فیصلہ ہوگا قبول ہوگا، مگر آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔

یعنی اگر فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق نہ ہوگا تو قابل قبول نہیں ہے، مگر یہ فیصلہ اب کون کرے گا کہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے بھی یا نہیں؟ تو پھر کیا اس کے لیے اب ایک اور عدالت لگانی پڑے گی؟ میں نے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے ایک ٹاک شو میں ان کے کمنٹس سنے تھے، وہ قابلِ احترام ہیں مگر جو کچھ وہ کہہ رہے تھے کہ کورٹ قانون اور آئین کے مطابق کچھ نہیں کر رہی ہے۔ وہ یہ کہہ رہے تھے JIT کا بننا، اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کو ملی ہوئی جیورسڈکشن میں کبھی ایسا ہوا ہو۔ ہم وکیل بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں، جس طرح کسی پارٹی کا کوئی ورکر ہوتا ہے، کچھ وکیل آئین و قانون کی تشریح، مانی ہوئی قانون کی تشریح کی DOCTRINE “Literal” انداز میں کرتے ہیں، یعنی زیر و زبر و نقطہ حاشیہ بالکل جوں کا توں، جس طرح لکھا ہوا ہے اسی طرح سے پڑھتے ہیں۔ مگر آئین و قانون کی تشریح کی کچھ اور بھی Doctrines یا سندیں ہیں، ان میں سے مثال کے طور پر دو تو یہاں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:

ایک ہے  “Purposive”اور دوسری ہے “Contextual” یعنی آئین و قانون کی تشریح کرتے وقت مخصوص Context اور Circumstances  میں دیکھنا ہوتا ہے اور پھر اس طرح سے کبھی قانون و آئین کی تشریح کرتے وقت Construe wide بھی کیا جاتا ہے تو کبھی Construe Narrow بھی کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے اگر دیکھا جائے تو قانون و آئین میں موجود الفاظ کی لغت اتنی معنی نہیں رکھتی جتنی کہ ان الفاظ میں موجود مغز کی ہوتی ہے، اور آئین کو بنانے والے اور قانون ساز مجلس کا ان مخصوص حالات میں تحریر کرنا معنی رکھتا ہے۔ اگر عرفان قادر کے کہنے کے مطابق دنیا میں کورٹ چلتی تو پھر ان ماڈرن آئین کی Basic Srtructure theoryکبھی جنم نہ لیتی۔

اور اس طرح نہ پھر کبھی عدلیہ آزاد ہوتی۔ کیونکہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے بارے میں تحریری طور پر کچھ بھی آئین میں رقم نہیں ہوتا۔ قصہ مختصر کہ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح میں مونوپولی حاصل ہے۔ وہ چاہے تو آئین و قانون کی تشریح Literal انداز میں کرے یا Purposive انداز میں کرے یا Contextual انداز میں کرے۔

اور چاہے تو غلط بھی کرے یا صحیح کرے، وہی ہے جوکرے کوئی اور نہیں، اور آپ جو تنقید چاہیں ان فیصلوں پر کریں، کیونکہ فیصلے آنے کے بعد تاریخ کا حصہ ہوجاتے ہیں، مگر جو Doctrine of Percedents ہے اس کے تحت سپریم کورٹ کا فیصلہ آگے چیلنج نہیں ہوسکتا۔ اور اگر کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانا گیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نہ آئین کو مانتے ہیں، نہ آئین کی بالادستی کو مانتے ہیں۔

اب آتے ہیں کہ کن حالات میں JIT  بنی، جب FIA کام نہیں کر رہی تھی ۔ جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ خاندانوں کی اجارہ داری ہوگئی ہے، عوام کا شعوری ارتقا ہو نہیں رہا۔ یہ بیچارے پختون ہی ہیں جو ہر پانچ سال بعد نئے لوگ متعارف کرواتے ہیں مگر جمہوریت فقط بیلٹ باکس کا نام نہیں ہے، اداروںکی بالادستی کا نام ہے۔ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ اور اگر نہیں ہوں گے، تو رائے ونڈ میں محلات ہوں گے، لندن اور دبئی میں اربوں کی جائیداد ہوگی، عرب شہزادوں سے ذاتی دوستیاں ہوں گی اور شکارگاہیں ہوں گی اور ملک کی ستر فیصد آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہوگی۔

یہ کیا ہے کہ امریکا کا صدر اوباما متوسط طبقے سے تھا اور بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص اور اس امیر ترین شخص کی ایک میرٹ ہے، وہ یہ کہ اس نے اپنی ایجادات سے دولت بنائی۔ اور یہاں کیا معاملہ ہے کہ جو اقتدار میں ہے وہ ہی ملک کا امیر ترین شخص ہے۔

’’کچھ تو ہے جس سے ہوتی جاتی ہے چلمن رنگین‘‘

کوئی بھی ادارہ صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہا۔ یہاں کے حکمراں اقتدار سے امیر ہوتے ہیں اور امریکا میں لوگ ایجادات سے امیر ہوتے ہیں۔

مختصر یہ کہ آج جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ ایک نئے پاکستان کو وجود میں لارہا ہے۔ آپ شوق سے چاہیں سپریم کورٹ کو کہیے، کیونکہ اس تناظر میں JIT بھی سپریم کورٹ ہے۔ اور آپ نے وہ ہی کچھ کیا ہے جتنا کہ آپ کا بس چلا ہے، آئین جامد و ساکت نہیں ہوتا۔ آئین Organic ہوتا ہے، آئین میں جو تحریر ہوتا ہے اور وہ اسمبلی جس نے آئین کو فریم کیا ہوتا ہے، اور وہ تاریخ اور پسِ منظر جس میں وہ ابھر کر آتا ہے اور آئین پر کی ہوئی کورٹ کی تشریح، یہ سب آئین کے پہلو ہیں اور ان تمام سے مکمل ہوتا ہے آئین۔ اگر اس طرح نہ ہوتا یا اس کی Literal کی تشریح نہ کی جاتی، نہ ہی تو سوا دو سو سال گزرنے کے بعد امریکا کا آئین آج بھی اتنا Relevent  ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔