قطر، سعودیہ بحران

آصف زیدی  اتوار 18 جون 2017
قطر اور سعودی حکم رانوں کی جانب سے شروع محاذ آرائی کا حل نکالنا ضروری ہے۔ فوٹو : فائل

قطر اور سعودی حکم رانوں کی جانب سے شروع محاذ آرائی کا حل نکالنا ضروری ہے۔ فوٹو : فائل

مسلم دنیا طویل عرصے سے مختلف بحرانوں کے نرغے میں ہے، کہیں مخالف قوتوں کی سازشیں غیر قانونی قبضے کی صورت میں سامنے آتی ہیں تو کہیں مفادات کی جنگ مسلم ممالک کو آمنے سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔ کہیں مختلف معاملات پر اختلاف رائے سیاسی کشیدگی کی آگ بھڑکاتا ہے تو کہیں خود کو سب سے بہتر سمجھنے کی کوشش برادر ممالک کو میدان جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیتی ہے۔

ایک طرف مقبوضہ کشمیر کے عوام مسلسل بھارتی تسلط سے آزاد ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں تو دوسری جانب فلسطینی ہیں جو اسرائیلی تسلط سے نجات کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ شام، یمن، افغانستان، عراق میں مسلسل خون اور بارود کی بارش ہو رہی ہے جب کہ دہشت گردی کے واقعات سیاسی کشیدگی کے علاوہ ہیں، اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان صرف اور صرف مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔

اب سعودی عرب اور قطر کی سیاسی کشیدگی نے ایک بار پھر مسلم امہ کو ایک ایسے کمرۂ امتحان میں لاکھڑا کیا ہے جہاں سوالات اور ان کے جوابات سب مسلم دنیا کے ہی پاس ہیں لیکن سوالات کو حل کرنے کی کوشش کرنے والے کم ہیں۔ ماہ رمضان میں سعودی عرب اور قطر کی کشیدگی سے عالم اسلام میں جو بڑا بحران پیدا ہوا ہے اس سے اسلام دشمنوں کی عید ہوگئی ہے۔ بظاہر مغرب سیاسی تنازع کو حل کرنے اور کرانے کے لیے کوشش کر رہا ہے، بیانات بھی دیے جا رہے ہیں لیکن اندرون خانہ سب مسلمانوں کے اتحاد پر لگنے والی ایک اور چوٹ سے بہت خوش ہیں کیوںکہ ان کی تو ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی بھی معاملے پر مسلم دنیا متحد نہ ہو اور اسلام دشمن کافی حد تک اپنے مقاصد میں کام یاب بھی ہوجاتے ہیں۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، یمن اور لیبیا نے قطر پر دہشت گردوں کی پشت پناہی اور انھیں معاونت فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے اور فوری طور پر قطر سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ سعودی عرب نے قطر پر ایرانی حمایت یافتہ شدت پسند گروپوں کے ساتھ مشرقی علاقوں قطیف اور بحرین میں تعاون کرنے کا الزام بھی لگایا۔

سعودی حکام کہتے ہیں کہ اس اہم فیصلے کی وجہ قطر کی جانب سے القاعدہ، اخوان المسلمین اور داعش جیسی تنظیموں اور باغی ملیشیاؤں کی حمایت ہے، قطر کے ان اقدامات سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب قطر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے تمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ ہم کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔

اس اعلان سے دنیا بھر میں بالخصوص عرب دنیا میں تہلکہ مچ گیا، کیوںکہ سعودی عرب، قطر، یو اے ای اور دیگر ممالک کے آپس میں بڑے تجارتی روابط ہیں، لوگوں کا ایک دوسرے کے ملکوں میں جانا عام ہے، اب اچانک سیاسی اختلافات کی آگ بھڑکی تو اس کی تپش دور دور تک محسوس کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب نے قطر کے تمام باشندوں کو فوری طور پر سعودی عرب سے نکل جانے کا حکم دیا تو یو اے ای، یمن اور دیگر ممالک نے بھی ایسا ہی کیا، قطری فضائی سروس کے بھی سعودی سرزمین سے گزرنے پر پابندی لگادی گئی جس کی وجہ سے صورت حال مزید سنگین ہوگئی۔

دنیا بھر کے میڈیا نے قطر اور سعودیہ عرب کی سیاسی کشیدگی سے پیدا ہونے والے بحران کو ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے طور پر کوریج دی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، کیوںکہ ایسا لگتا ہے کہ قطر پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات سے شروع ہونے والے تنازعے کو حل کرنے اور معاملات کو سلجھانے میں کافی عرصہ لگے گا، فریقین کو قابل قبول حل تک لانے کے لیے کافی کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ عالم اسلام کو مزید دھچکوں سے بچایا جاسکے۔

اس کشیدہ صورت حال میں پاکستان نے اب تک غیرجانب دارانہ موقف اختیار کر رکھا ہے کہ ہم اسلامی دنیا کے اتحاد کے حامی ہیں اور تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

تاحال حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور سعودی عرب اور قطر دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب عالمی سطح پر تنازعے کو حل کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں، بہت سے ملک ثالثی کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں، قطر کے وزیرخارجہ محمد بن عبدالرحمن ثانی نے اس سارے معاملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس سارے تنازعے کی حقیقی وجوہ کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس سارے معاملے میں اپنے بیان سے امریکی پالیسی کا اظہار کردیا ہے، انھوں نے کہا کہ قطر کی عالمی تنہائی دہشت گردی کے خاتمے کا آغاز ہے، امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف متحد ہیں، اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ہم معاملے میں ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ ان حالات نے قطر میں ہنگامی صورتحال پیدا کردی ہے، لوگوں میں بے یقینی اور خوف پایا گیا پھر سعودی پابندیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور لوگ انتہائی بے یقینی کا شکار ہوگئے ہیں اور یہ صورتحال تاحال جاری ہے۔

ان حالات میں ہر کسی کے ذہن میں جنگ کا بھی خیال آرہا تھا کہ کہیں خلیج میں ایک اور جنگ شروع نہ ہوجائے۔ دہشت گردی ایک بہت بڑا عفریت اور مرض ہے جس کے خاتمے کے لیے ہر کوئی متحد ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا بھر سے دہشت گردی ختم ہو لیکن اس سوال کا جواب حاصل کرنا بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی کی جڑوں تک کون پہنچے گا؟ اور دہشت گرد بنانے کے عوامل کا تدارک کیسے ہوگا؟

عرب ملکوں سمیت تمام اسلامی دنیا میں معدنی وسائل کی بہتات بھی مسلم دنیا میں پیدا ہونے والے بحران کا ایک سبب ہے۔ وہ اس طرح کہ مغرب خاص طور پر اسلام دشمن قوتیں تیل و گیس اور دیگر وسائل کو مسلمانوں کی دسترس سے نکال کر اپنے قبضے میں لینا چاہتی ہیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ان کی بھرپور کوشش ہے کہ مسلمان ملکوں کو مختلف تنازعات اور معاملات کے بہانے لڑایا جائے اور پھر امن کے داعی بن کر ان علاقوں میں موجود وسائل پر ہاتھ صاف کیے جائیں۔ قطر کی معیشت میں قدرتی گیس اور پیٹرول کا اہم کردار ہے، قطر دنیا بھر کے مختلف ملکوں کو تیل و گیس سپلائی بھی کرتا ہے، موجودہ کشیدگی سے قبل قطر اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی تعلقات بھی بہت مضبوط رہے ہیں، لوگوں کا ایک دوسرے کے ملکوں میں کاروبار اور روزگار ریکارڈ پر ہے، لیکن اب حالات فی الحال تبدیل ہوگئے ہیں۔

بہت سارے سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ قطر کا بحران ایک دن میں شروع نہیں ہوا، اس کے پیچھے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی کوشش اور خطے میں اپنی بالادستی کے خواب کو تعبیر دینے کے عوامل بھی کارفرما ہیں۔

یاد رہے کہ آئندہ فٹبال کا عالمی ورلڈ کپ بھی قطر میں ہونا طے ہے، یہ سب قطر کی مضبوط معیشت، شان دار انفرااسٹرکچر اور سیکیوریٹی کے فول پروف انتظامات کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ورنہ عالمی سطح پر کھیلا جانے والا اتنا بڑا ایونٹ قطر میں منعقد ہونا آسان بات نہیں تھی۔

ادھر ٹرمپ کی جانب سے قطر کے خلاف بیان کہ قطر کو ’’دہشت گردی کی معاونت ختم کرنا ہوگی‘‘ قطر مخالف ملکوں میں بہت مقبول ہو رہا ہے۔ سعودی عرب، بحرین، یو اے ای نے ٹرمپ کے اس فرمان کا بہت خوشی سے خیرمقدم کیا ہے، لیبیا بھی اس وقت بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ موجودہ تنازعے میں امریکا کا ساتھ دے ۔ اس وقت مسلم دنیا کے لیے قطر سعودی بحران بہت سنگین صورت حال اختیار کرگیا ہے، سعودی عرب سمیت تمام بڑے اسلامی ملکوں کو اس صورت حال میں بہت ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ ہر ملک اپنے قومی مفادات کے بجائے مسلم دنیا کے اجتماعی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرے اور پالیسیاں ترتیب دے ورنہ دونوں صورتوں میں نقصان صرف اور صرف مسلم دنیا کا ہوگا۔

ایک اہم بات قطر سعودیہ بحران کے حوالے سے پاکستان کا سنجیدہ کردار ہے، خلیجی ملکوں پر بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب چلے گئے ہیں جہاں وہ سعودی حکام سے موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کریں گے، اپنی تجاویز پیش کریں گے اور حتی الامکان کوشش کی جائے گی کہ سعودی حکم رانوں کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ مسلم امہ کے اتحاد کو بچانے کے لیے کسی اور محاذ آرائی سے بچا جائے۔

وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے دورہ قطر کا بھی امکان ہے جہاں وہ قطری حکم رانوں کو بھی اس بات پر قائل کرنے کی کوش کریں گے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے خدشات و تحفظات دور کیے جائیں۔ قارئین جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت کے دورے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ مثبت پیشرفت سامنے آچکی ہوگی۔

قطر اور سعودی حکم رانوں کی جانب سے شروع محاذ آرائی کا حل نکالنا ضروری ہے کیوںکہ اس ساری صورت حال کا فائدہ صرف مسلمان دشمنوں کو پہنچ رہا ہے اور پہنچے گا۔ امت مسلمہ کو ویسے بھی بہت سی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے ایسے میں خلیجی ملکوں میں نیا تنازعہ مسلمانوں کے اتحاد کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

خلیجی ملکوں میں آپس کی چپقلش ایک دوسرے پر بالادستی ثابت کرنا اور سب سے زیادہ خود کو مختلف معاملات میں مرکزی حیثیت دینا کوئی نئی بات نہیں لیکن دہشت گردی جیسے معاملے کو سیاسی بالادستی کے لیے استعمال کرنا یا دہشت گردی ختم کرنے کے مقصد کو سامنے رکھ کر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا کہیں بھی صحیح اقدام نہیں۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ مسائل اور معاملات کو مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے ورنہ بعد میں صرف پچھتاوا ہی رہ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔