تفہیم المسائل

مفتی منیب الرحمن  جمعرات 31 جنوری 2013
کسی شخص کا مسجد میں اپنے لیے کوئی جگہ خاص کر لینا کہ وہیں نماز پڑھے، مکروہ ہے۔   فوٹو: رائٹرز

کسی شخص کا مسجد میں اپنے لیے کوئی جگہ خاص کر لینا کہ وہیں نماز پڑھے، مکروہ ہے۔ فوٹو: رائٹرز

نابینا کی امامت
سوال: کسی نابینا قاری و حافظ ِ قرآن امام کے پیچھے پنج وقتہ نماز اور نمازِ جمعہ ادا کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ یعنی کیا نابینا کو امام بنانا جائز ہے ؟ (قاری رمضان، گجرانوالہ)
جواب: امام ابو داؤد سجستانی اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں: ترجمہ: ’’حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ( غزوۂ تبوک کے موقع پر عبداللہ) ابن أم مکتوم کو (مدینہ منورہ میں ) اپنا خلیفہ بنایا تاکہ وہ لوگوں کی امامت کریں، حالاں کہ وہ نابینا تھے۔ (سنن ابو داؤد ، رقم الحدیث : 595 )

اس کی شرح میں علامہ علی القاری الحنفیؒ لکھتے ہیں : ابن الملک نے کہا نابینا کی امامت کی کراہت تب ہے جب کہ قوم میں اس کے مقابلے میں تندرست شخص اس سے بڑا عالم یا اس کے برابر درجے کا عالم موجود ہو، ا ور ابن حجر نے کہا کہ اس میں نابینا کی امامت کا جواز ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں، اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ بینا کی امامت اولیٰ ہے یا نابینا کی (جب کہ دونوں دستیاب ہوں ) ۔ ( مرقاۃ المفاتیح، جلد:3،ص :84 )

نابینا شخص اگر احتیاط برتتا ہے یعنی کپڑوں یا بدن پر کوئی چیز لگ جائے تو کسی بینا شخص کو دکھا کر اطمینان کرلیتا ہے کہ کہیں نجاست تو نہیں لگی؟ اور اگر نجاست لگ گئی ہو تو دھو لیتا ہے، ایسے نابینا کی امامت جائز ہے، مگر مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر وہ حاضرین میں مسائل نماز کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے، تو اس کی امامت بلا کراہت جائز ہے۔

علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’نابینا اور ایسا شخص جسے رات کو نظر نہ آتا ہو، اس کی امامت مکروہ تنزیہی ہے (بحوالہ ٔ نحر) اور اگر یہ زیادہ صاحب علم ہوتو اس کی امامت بہتر ہے، (دارالمحتار علی الدرالمختار جلد:2،ص: 254, 255دار احیاء التراث العربی ، بیروت )‘‘۔

مسجد میںکپڑا رکھ کر جگہ محفوظ کرنا
سوال: ایک نمازی مسجد میں اپنا رومال، تولیہ یا کوئی کپڑا اس لیے رکھے کہ دوسرے کو وہ جگہ مل جائے اور وہ آدمی ابھی مسجد میں نہیں ہے یا اپنے لیے کسی جگہ کو مقرر کر لے کہ وہاں کوئی نہ بیٹھ سکے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ (وقاص احمد، کراچی)

جواب: نماز میں اپنے یا کسی دوسرے شخص کے لیے جگہ مخصوص کرنا مکروہ ہے، حدیث مبارکہ میں ہے: ترجمہ: ’’عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (نماز میں) تین باتوں سے منع فرمایا، کوّے کی طرح ٹھونگ مارنا، (یعنی جلدی جلدی سجدہ کرنا کہ پیشانی زمین سے ٹکرائے اور مقدارِ سنت تین تسبیحات پڑھنے سے پہلے اُٹھ جائے) درندے کی طرح پاؤں بچھا کر بیٹھنا اور مسجد میں کوئی شخص جگہ مقرر کر لے جیسے اونٹ جگہ مقرر کرلیتا ہے۔‘‘ (سنن نسائی، رقم الحدیث:1111)

علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں: ترجمہ’’ کسی شخص کا مسجد میں اپنے لیے کوئی جگہ خاص کر لینا کہ وہیں نماز پڑھے، مکروہ ہے۔‘‘ ( فتاویٰ عالم گیری، جلد: اول ، ص:108) لہٰذا مسجد میں نہ کسی کا اپنے لیے پہلے سے جگہ مختص کرنا درست ہے اور نہ دوسرے کے لیے۔ کیوں کہ مسجد ہی تو وہ مقام ہے جہاں انسانوں کے درمیان مساوات قائم ہوتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص پہلے سے مسجد میں صف میں بیٹھا ہوا ہے، اور کوئی صاحبِ علم، صاحب ورع وتقویٰ آجاتا ہے، اور وہ شخص اس کی دین داری، تقویٰ اور علم کی وجہ سے اس کے لیے جگہ خالی کردیتا ہے، بشرط یہ کہ اس صاحبِ علم وتقویٰ کے دل میں ایسی خواہش نہ ہو کہ علم کی بنا پر اس کی تکریم کی جائے یا کوئی معذور و بیمار ہے اور اسے کنارے میں ٹیک لگا کر بیٹھنا ہے تو اس بنا پر کوئی اس کی رعایت کر کے جگہ چھوڑ دے تو یہ جائز اور مستحسن امر ہے اور محاسنِ اَخلاق میں سے ہے، ہاں کسی کی دنیوی وجاہت و منصب یا دولت کی وجہ سے اسے تکریم دی جائے تو یہ شرعاً ناپسندیدہ امر ہے۔

ترکے کی تقسیم
سوال: ہمارے والد صاحب کے انتقال کو چار سال ہوگئے ہیں، ورثاء میں بیوہ، پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ والد کا ترکہ ایک مکان اور ایک دوکان ہے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد دو بھائی دوکان میں کاروبار کرتے رہے لیکن پھر کاروبار بند کر دیا۔ دوکان کا کچھ حصہ کرایہ پر دیا ہوا ہے، جس کا کرایہ والدہ صاحبہ اور تین بھائیوں کو ملتا ہے۔ والد صاحب پر کچھ کاروباری قرض تھا اور اس کے علاوہ اُن کی بیماری پر ایک بھائی نے اپنی بیوی کا زیور بیچ کر علاج میں لگایا تھا۔ دوکان کا کچھ حصہ جو کرائے پر دیا ہوا تھا اُس کا ایڈوانس والد صاحب نے لیا تھا، وہ ایڈوانس واپس کرنا ہے۔ اب یہ معلوم کرنا ہے کہ ترکے کی تقسیم کس طرح ہوگی؟۔ ایک سائل ،کراچی

جواب: شرعاً ہونا تو یہ چاہیے کہ جس قدر جلد ممکن ہو ، تمام ورثاء کے درمیان ترکہ تقسیم کر دیا جائے کیوں کہ تقسیم میں تاخیر سے پیچیدگیاں اور خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ شریعت کی رُو سے متوفی کا تر کہ تقسیم کر نے سے قبل مصارف تکفین و تدفین (2) متوفی کے ذمے اگر کسی کا قرض ہو، تو قرض کی ادائیگی (3) ا گر متوفی نے کو ئی وصیت کی ہو تو زیادہ سے زیادہ تہائی تر کے کی حد تک اس کا نفاذ، بشر ط یہ کہ یہ وصیت کسی شرعی وارث کے حق میں نہ ہو۔ یہ تین امور تقسیمِ وراثت سے مقدم ہو تے ہیں، ان کو منہا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ ورثا ء میں تقسیم ہوتا ہے۔ کل ترکہ 88 حصوں میں تقسیم ہوگا۔ بیوہ کو11 حصے، پانچوں بیٹوں کو 70حصے (فی کس14حصے) اور ایک بیٹی کو 7حصے ملیں گے۔ ترکے کی تقسیم سے قبل متوفی کے ذمے جو کاروباری قرض، دوکان کے ایڈوانس کی مَد میں لی جانے والی رقم ہے، اُس کی ادائیگی تقسیم سے پہلے متوفی کے مال سے کی جائے گی۔ دوکان سے حاصل ہونے والا کرایہ بھی تمام ورثاء کے درمیان درج بالا طریقے پر تقسیم ہوگا۔ آپ کے والد صاحب نے دکان کی جو ایڈوانس رقم لی ہوئی تھی، وہ ترکے میں سے بطور قرض وضع کی جائے گی۔ آپ کی بھابھی سے اگر زیور قرض کے طور پر لیا گیا تھا، تو وہ بھی ترکے سے منہا ہوگا۔ اگر اس سے اتنی مقدار کے طلائی زیورات کا وعدہ ہوا تھا تو اس کے مطابق ادائیگی ہوگی۔ آپ کی والدہ اور بھائی جو کرایہ لیتے رہے، وہ اگر آپ لوگوں کی رضا سے تھا، تو آپ لوگوں کی طرف سے احسان شمار ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔