بھارت میں صف ِماتم

اسلم خان  جمعرات 31 جنوری 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

نئی دہلی میں ماتم برپا ہے اور ہمیں خبر تک نہیں۔ خبر ہو بھی کیسے، ہم تو حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کا جشن منا رہے ہیں، فوٹو سیشن کرا رہے ہیں، نگران سیٹ اپ کے معاملات کو سلجھا اور اُلجھا رہے ہیں۔ بوڑھے مگر جواں ہمت چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی کے پیچھے پڑے ہیں کہ سدا کا یہ ’’جذباتی بابا‘‘ مشتعل ہو کر بھاگ جائے۔ رُوم جل رہا ہے اور ایک نہیں۔۔۔ ہمارے بے شمار نیرو اپنی اپنی بانسریاں بجا ئے جا رہے ہیں۔

خیر ذکر ہو رہا تھا نئی دہلی کا۔ بھارت میں ماتم بپا ہو اور اس کا تعلق پاکستان سے نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔اب کی بار بڑا دلچسپ معاملہ آن پڑا ہے، مہان بھارت کے شہ دماغ نئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے تقرر پر آہ و زاری کر رہے ہیں، انھیں پاکستان کا سب سے بڑا دوست قرار دیا جا رہا ہے۔ جس پر ’’واشنگٹن میں اسلام آباد کا آدمی‘‘ کے عنوان سے کسی معمولی اخبار نہیں،موقر و معتبر ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے مضمون شایع کیا ہے۔ یہ مضمون کسی انتہا پسند جذباتی نوجوان قوم پرست اخبار نویس نے نہیں، پروفیسر ہرش وی پنت (Harsh V. Pant) نے لکھا ہے جو کوئی ایسے ویسے خود ساختہ پروفیسر نہیں۔ عالمی شہر ت یافتہ کنگز کالج لندن میں بین الاقوامی اور دفاعی اُمور کے اُستاد اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ پروفیسر پنت جان کیری کے تقرر پر اپنی ناراضی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جان کیری اسلام آباد کے فوجی جہادی کمپلیکس کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ یہ نجانے کون سا فوجی جہاد ی کمپلیکس ہے جس کا ہمیں پتہ نہیں۔ گذشتہ دس سال سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم اپنے ہزاروں جوان اور افسر شہیدکرا چکے ہیں جن کی تعداد پاک بھارت جنگوں میں شہید ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

بھارتی حکمت کاروں نے جان کیری کے ’’جرائم‘‘ کی طویل فہرست مرتب کی جس کے مطابق جان کیری کا موقف رہا ہے کہ ایبٹ آباد میں شیخ اُسامہ بن لادن کی شہادت کے حوالے سے پاکستان کے کردار کا امریکی انتظامیہ نے خاطر خواہ طریقے سے اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی اسے مناسب انداز میں سراہا ہے۔ان کا ایک جرم یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی حکومت پر پاکستان سے تعلقات خوشگوار رکھنے کے لیے دبائو ڈالتے رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کی پسپائی کے لیے پاکستان کا زمینی راستہ ناگزیر ہے۔

ویتنام کی جنگ کے ہیرو سینیٹر جان کیری میدان جنگ اور اس کی ہلاکت آفرینی کا ذاتی تجربہ رکھتے ہیں، اس لیے وہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کو کارِ لا حاصل قرار دے کر فوری انخلا پر زور دیتے رہے ہیں۔یہ بھی جان کیری تھے جنہوں نے تین بے گناہ نہتے پاکستانی نوجوانوں کے قاتل، دہشت گرد، جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے بنیادی کردار ادا کیا تھا، اگر چہ جان کیری نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ریمنڈ ڈیوس پر امریکا میں قتل کا مقدمہ چلا یا جائے گا جو ممکن نہیں ہوا کہ ایسے وعدے ایفا کرنے کے لیے نہیں صرف وقت گزارنے کے لیے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والے آپریشن کے دوران حادثے کا شکار ہونے والے جدید ترین ریڈار پر دکھائی نہ دینے والے ہیلی کاپٹر کا ملبہ بھی جان کیری کی کوششوں سے امریکا کو واپس دیا گیا تھا۔

اس پس منظر میں پاکستان کے خلاف طوفان کھڑا کرنے کے لیے تاک میں رہنے والے بھارتی ذرایع ابلاغ نے روایتی لڑاکا عورتوں کی طرح واویلا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کے لیے 2009ء میں امداد کا کیری لوگر بل بھی ان کا ناقابل تلافی جرم ہے جس کے تحت 7.5 ارب ڈالر کا امدادی پیکیج منظور کیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے شدید تحفظات کے بعد اس امداد کو قبول کیا تھا۔ اس وجہ سے بھارتی حکمت کار اور دانشور جان کیری کو بھارت کا دشمن اور پاکستان کا دوست سمجھتے ہیں۔

ادھر واشنگٹن میں پاکستان کی سفیر شیری رحمٰن نے جان کیری کی نامزدگی کا خیر مقدم کرتے ہوئے انھیں جنوبی ایشیاء کی نزاکتیں سمجھنے والا، پاکستان کا بے لوث دوست قرار دیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔بھارتی دفاعی حکمت کاروں کا سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد خطے میں اپنے دم توڑتے اثر و رسوخ نے پیدا کیا ہے۔ جان کیری افغانستان میں امریکی جنگ کو بہت پہلے ہی ’’کار لاحاصل‘‘ قرار دے کر فوری انخلاء کی وکالت کرتے رہے ہیں جس کے بعد بھارت کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا اثر و نفوذ دوبارہ فیصلہ کن صورت اختیار کر جائے گا۔

امریکی شہری ڈیوڈ ہیڈلے کی تحویل کے لیے بھارت کی درخواست کو امریکی انتظامیہ نے مسترد کر دیا تھا جسے پاکستان کے حق میں بہت بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل سلیم گیلانی کے بڑے صاحبزادے دائود گیلانی کا امریکی نام ڈیوڈ ہیڈلے ہے جس کو سلیم گیلانی کی امریکی اہلیہ نے پروان چڑھا یا تھا۔ جناب سلیم گیلانی موذن رسول ؐحضرت بلال ؓکی سوانح لکھ کر اَمر ہو چکے ہیں۔

طالبان کے امریکیوں سے مذاکرات اور پاکستان میں قید طالبان رہنمائوں کی رہائی نے بھی بھارتی نیتائوں کو ہراساں کر رکھا ہے وہ تو حامد کرزئی کی مدد سے افغانستان میں پاکستان کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے لیکن بدلتے ہوئے علاقائی منظر میں بھارت کا سیاسی اور سفارتی کردار معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجہ میں جنوبی ایشیاء میں پاکستان کا کردار مزید مستحکم ہو جائے گا جو کسی طور پر بھی بھارتی قیادت کو منظور نہیں ہے۔ممبئی حملے کے بعد پاکستان پر دبائو میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔

خاص طور پر امریکی وزیر خاجہ ہیلری کلنٹن نے بھی پاکستان پر مقامی شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے دبائو بڑھا دیا تھا لیکن جان کیری کی آمد کے بعد پاکستان پر یہ امریکی دبائو بھی شائد ختم ہو جائے گا۔ گذشتہ برس امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے جنوبی ایشیاء میں بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور قرار دیا تھا۔ اسی طرح صدر اوبامہ نے بھی مشرقی بعید کے ممالک کی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو بتایا تھا کہ انھوں نے اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران بھارت کے لیے بڑے عظیم الشان منصوبے تیار کر رکھے ہیں لیکن جان کیری کی وزارت خارجہ میں بھارت کو اپنے خواب ناتمام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

سینیٹر جان کیری 1994-2013ء گذشتہ 19سال سے مسلسل سینیٹ کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ وہ روایتی سفارت کاروں کے برعکس کھلے ڈُلے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں مختلف خطوں اور اقوام میں بے پناہ پذیرائی ملتی رہی ہے۔ امریکی انتظامیہ انھیں مرد بحران قرار دیتی ہے وہ اُلجھے ہوئے پیچیدہ مسائل سلجھانے کی مہارت رکھتے ہیں۔کٹر یہودی جریدہ ڈیوڈ ہرٹز میگزین انھیں ’’واشنگٹن میں بشار الاسد کا دوست‘‘ قرار دیتا ہے کیونکہ جان کیری برملا کہتے ہیں کہ اسلام پسندوں کے بجائے اسد حکومت خطے میں امریکی پالیسیوں کے لیے بڑی معاون رہی ہے۔

امریکا کے معتبر جریدے ’’فارن پالیسی میگزین‘‘ نے کیری کو ’’ہوانا میں ہمارا آدمی‘‘ کا خطاب دیا تھا کیونکہ جان کیری گذشتہ کئی دہائیوں سے کیوبا پر عائد اقتصادی پابندیوں کے شدید ناقد رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ان اقتصادی پابندیوں سے حاصل حصول کچھ نہیں ہوا لیکن جنوبی امریکا کے ممالک میں امریکا کے خلاف نفرت میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح 2009ء میں ’’نیویارک ٹائمز میگزین‘‘ نے انھیں ’’کابل میں ہمارا ‘‘ آدمی قرار دیا تھا کیونکہ ویت نام کی جنگ کے ہیرو جان کیری نے افغان جنگ کی طوالت کو کارِ لاحاصل کہا تھا۔ اسی طرح 2004ء میں جان کیری کے سوانح نگار نے انھیں ’’پیرس میں مرد امریکا‘‘ کہا تھا کہ روانی سے فرانسیسی بولنے والے جان کیری کے متعدد رشتے دار فرانس میں رہتے ہیں۔

صدر اوبامہ نے جان کیری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا وہ عالمی سطح پر امریکی قیادت کی شناخت رہے ہیں، اب وہ کئی دہائیوں پر محیط اپنے تجربات سے خارجہ اُمور میں امریکی قوم کی رہنمائی کریں گے۔ جان کیری تو سر تا پا امریکی مفادات کے لیے مختلف خطوں اور علاقوں میں گذشتہ کئی دہائیوں سے بروئے کار ہیں، اُن کی کوئی ذاتی پسند نا پسند نہیں پھر بھی نجانے کیوں نئی دہلی میں ماتم برپا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔