سیکولر بھارت

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعرات 31 جنوری 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

پچھلے ہفتے بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کانگریس کے ایک اجلاس میں بیان دیا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ہندو دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں۔ بی جے پی کے نئے صدر راج ناتھ سنگھ نے اس بیان پر شندے کی برطرفی کے لیے تحریک کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اگر شندے کو ہٹایا نہیں گیا تو بی جے پی پارلیمان کا اجلاس چلنے نہیں دے گی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کا قومی تفتیشی بیورو (این آئی اے) سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد اور مالے گاؤں میں بم دھماکوں سمیت کئی معاملات کی تفتیش کر رہا ہے۔ حال ہی میں اس نے کئی دیگر معاملات میں بھی ہندو تنظیموں کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا تھا۔

بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ اور بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کا بیان حقائق کے برعکس نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک بھارت میں مسلم کش فسادات اور کارروائیوں خصوصاً گزشتہ دو دہائیوں سے جاری واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پھر بات بھارتی وزیر داخلہ کے بیان سے اور بھی آگے نکل جائے گی۔ ایک بڑا اور اہم واقعہ ممبئی کا بھی ہے کہ جس کے بارے میں پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی گئی، یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ اس واقعے میں ملوث عناصر نے پاکستانی سرزمین یا افراد سے مدد لی ہو لیکن اس واقعے کے ساتھ منظر عام پر آنے والی خبروں کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے اصل کردار بھارت میں ہی ملتے نظر آتے ہیں۔

ممبئی کے واقعے کے بعد راقم نے اپنے 25 دسمبر 2008 کے کالم میں لکھا تھا کہ اس واقعے کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے جارہے ہیں جس میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس واقعے کی ابتدا ہی میں بھارت کے سیکیورٹی سے متعلق اہم افراد کیوں ہلاک ہوئے، خاص کر اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو ابتدا ہی میں کس نے نشانے پر لے کر قتل کیا؟ واضح رہے کہ ہیمنت کرکرے نے مالے گاؤں میں ہونے والے بم دھماکوں میں انتہا پسند ہندوؤں کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کیے تھے۔

جس سے ثابت ہوتا تھا کہ ریٹائرڈ بھارتی فوجی میجر رمیش ایادھیا اور حاضر سروس فوجی کرنل پروہت ان میں ملوث ہیں۔ ہیمنت کرکرے نے انتہا پسند ہندوؤں کے نیٹ ورک کو ہی بے نقاب نہیں کیا تھا بلکہ حاضر سروس فوجی کرنل سمیت نجانے کتنے بڑے نیٹ ورک کو مزید بے نقاب کرنے والا تھا۔ یہ قیاس اس وقت مزید سچ ثابت ہونے لگا جب بھارتی حکومت نے ہیمنت کرکرے کی بیوہ کو تین کروڑ روپے جب کہ باقی دو مرنے والے افسران کو ایک ایک کروڑ روپے کی رقم دی۔ اخبار میں یہ خبریں بھی شایع ہوئیں کہ ممبئی واقعے سے چند روز قبل انتہا پسند ہندوؤں نے ہیمنت کرکرے کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔

بھارتی میڈیا اور تجزیہ کاروں کے توسط سے بھی یہ بات سامنے آئی کہ ہیمنت کرکرے ایک ایماندار اور اصول پرست افسر تھا جس نے مالے گاؤں اور حیدر آباد کی مکہ مسجد میں ہونے والے بم دھماکوں کی تفتیش میں اہم کامیابی حاصل کی اور ان دھماکوں میں ہندو رائٹ ونگ کے ملوث ہونے کو بے نقاب کیا۔ اس طرح اس تفتیش کی بنیاد پر بھارتی فوج کے کرنل سری کانت پروہت اور ایک سادھو سمیت 11 افراد کو گرفتار کیا جو انتہا پسند ہندو جماعت ابھینو بھارت کے اراکین تھے۔ اس واقعے کے بعد کرکرے کو بی جے پی اور شیو سینا سمیت دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ہیمنت کرکرے کی ممبئی واقعے میں ہلاکت جس انداز میں ہوئی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ٹارگٹ کلنگ تھی۔ 26 نومبر کی رات ممبئی میں ہیمنت کرکرے کو جس گاڑی میں قتل کیا گیا اس میں ATS کے ان کاؤنٹر اسپیشلسٹ وجے سلاسکر اور ایڈیشنل کمشنر اشوک بھی ہلاک ہوئے تاہم اس گاڑی میں موجود کانسٹیبل ارون جادھو دو گولیاں لگنے کے باوجود زندہ رہا اور اس نے ذرایع ابلاغ کو بتایا کہ ’’میں راستے میں کچھ بھی نہیں سن پایا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے لیکن جب وہ کرکرے کو مار کر گاڑی سے نکل رہے تھے تو اتنی آواز سنی کہ یہ دیکھو انھوں نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی ہے اور پھر ان پر فائرنگ کردی‘‘۔

زخمی کانسٹیبل کا یہ بیان واضح کر رہا ہے کہ ممبئی کے اس واقعے کو اسٹیج کرنے والے اس شخص کو ٹارگٹ کرکے ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو بھارت کی انتہاپسند تنظیموں اور ان کے نیٹ ورک کے لیے انتہائی خطرہ تھا اور ان کرداروں کے لیے بھی جو بھارتی فوج میں رہ کر انتہا پسند ہندو جماعت کے نیٹ ورک کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ کرکرے کے پیش کردہ ثبوت اور تفتیش یہ راز کھول چکی تھی کہ حاضر سروس بھارتی فوج کا کرنل نہ صرف مالے گاؤں دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ہے بلکہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کا بھی مرکزی کردار ہے اور اسی نے سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے کے لیے فوجی ڈپو سے حاصل کردہ دھماکا خیز مواد فراہم کیا تھا۔

کرکرے کی تفتیش سے یہ راز بھی کھلا کہ اپریل 2006 مہاراشٹر کے شہر بند میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) نامی تنظیم کی جانب سے بم بناتے ہوئے دھماکا ہوا جس میں بجرنگ دل کے دو کارکن ہلاک ہوئے، جائے وقوع سے مسلمانوں کے لباس، جعلی داڑھیاں، مسلم عمارتوں کے نقشے اور اہم مسلم رہنماؤں کے نام و پتے برآمد ہوئے۔ یوں یہ راز کھلا کہ RSS منظم طور پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اقلیتی امور کے وزیر عبدالرحمن انتولے نے کرکرے کی موت پر ایک یہ سوال بھی کیا کہ تاج ہوٹل، اوبرائے ہوٹل یا ناریمان ہاؤس جانے کے بجائے کرکرے کاما اسپتال کی گلی میں کیوں گیا؟ پھر ایک ہی گاڑی میں تین اعلیٰ پولیس افسران کیوں گئے جب کہ یہ پروٹوکول کے خلاف تھا، آخر انھیں وہاں جانے کی اجازت کس نے دی؟

ممبئی واقعے سے متعلق اس قسم کے بے شمار ایسے سوال ہے کہ جن سے یہ یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ممبئی کا واقعہ جو پاکستان یا پاکستانی دہشت گردوں کے سر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے غلط ہے بلکہ حقائق کچھ اور ہیں۔ اور یہ حقائق اب بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار کی زبانی سے باہر آچکے ہیں اگر ہیمنت کرکرے جیسے اور بھارتی وزیر داخلہ جیسے چند نڈر ذمے داران میدان عمل میں آگئے تو یقیناً ممبئی کے واقعے کا اصل پہلو سامنے آجائے گا اور بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا نیٹ ورک بھی بے نقاب ہوجائے گا۔

گو کہ بھارتی سیکریٹری داخلہ کا پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک کے جواب میں یہ کہنا کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی عوام کی حفاظت کی فکر کرے، سیاسی بیان کی حد تک تو درست ہے لیکن حقیقت کے قریب نہیں۔ بھارت میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے اس کا اندازہ تو بابری مسجد کے واقعے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جس سرزمین پر قدیم و مذہبی نوعیت کی عمارت کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا جائے وہاں کے مسلمان کی چار دیواری کی حفاظت کیا معنی رکھتی ہوگی۔

شاہ رخ خان نے کہا کہ 9/11 کے بعد بھارت میں مسلمان ہونے پر بعض مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن شاہ رخ خان کو جلد احساس ہوگیا کہ بے شک انھوں نے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہندو عورت سے شادی کی اور اپنے بچوں کا نام بھی ہندوانہ (آریان اور سوہانا) رکھے مگر بھارتی انتہا پسند اس پر بھی انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں، چنانچہ شاہ رخ خان کو وطن آکر جلد ہی پریس کانفرنس کرنا پڑی اور یہ کہنا پڑا کہ بھائیوں خفا ہونے سے قبل میرا آرٹیکل غور سے پڑھ لو! میں نے ایسی کوئی بات نہیں لکھی کہ جس پر یہ میڈیا وار چل پڑی ہے۔

غالباً شاہ ر خ خان کا حافظہ کمزور ہے ورنہ وہ ماضی کے واقعات ذہن میں رکھتے جن میں پاکستان و بھارتی مسلمان فنکاروں اور کھلاڑیوں کے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے، تو کبھی بھی ایسا آرٹیکل نہ لکھتے نہ اس پہلو پر کسی انٹرویو میں اظہار خیال کرتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔