بچوں کا ادب، ایک خوش آئند قدم

رفیع اللہ میاں  اتوار 18 جون 2017

بچپن کی اس عمر میں جب ہم رنگین کتاب ہاتھ میں لے کر اسے پڑھنے کی خواہش کے ساتھ الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں، ہم میں سے اکثر، بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں کے ساتھ پہلی بار متعارف ہونے لگتے ہیں۔ معلوم نہیں، ہم میں سے کتنوں کو ایسا محسوس ہوتا ہوگا کہ بچپن کی کہانیاں ہمارے آنے والی ذمے داریوں سے بھری زندگی میں ہماری اپنی اساطیر کا روپ دھار کر قلب و ذہن کے ساتھ ساتھ رہنے لگتی ہیں۔

یہ کہانیاں یا عرف عام میں بچوں کا ادب ہمارے اندر پڑھنے کی عادت ڈالتا ہے اور پڑھنے کی خواہش کی تسکین کرتا ہے اور ہمارے لیے آئندہ برسوں میں بھی کتاب سے جوڑے رہنے کا سبب بنتا ہے۔ بچوں کا ادب ہمیں ایک اڑن طشتری پر بٹھاکر زندگی کی سنجیدہ شاہراہ پر دوڑنے کے لیے لاکر چھوڑ دیتا ہے۔

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں لوریاں سنانے اور اجنبی دنیاؤں کی سیر کرانے والا بچوں کا ادب بڑی عمر میں ہماری طرف خاموشی سے دیکھ دیکھ کر مسکراتا ہے اور کہتا کچھ نہیں ہے۔ اس کی مسکراہٹ بتاتی ہے کہ زندگی کا موجودہ سفر زندگی کے گزشتہ سفر کے ساتھ اٹوٹ رشتے میں بندھا ہوا ہے، اسے ذہن سے محو کرکے مت جیو۔ جیتے تو ہم ہر حال میں ہیں، کچھ اہم ترین چیزیں ذہن سے محو نہ کرکے جئیں تو گزشتہ اور موجودہ کے درمیان ایک پل بن جاتا ہے، جس پر نئی نسل، ہمارے بچے چلنا سیکھنے لگتے ہیں۔

یہ قصہ ہے ادبیات اطفال کا، جو بچوں کا ایک سہ ماہی مجلہ ہے اور جسے اکادمی ادبیات پاکستان نے باقاعدگی کے ارادے کے ساتھ جاری کیا ہے۔ ادارہ ادب کے سلسلے میں خاصی سرگرمی دکھاتا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں مختلف شہروں میں ادبی کانفرنسوں کے بعد بچوں کے لیے باقاعدگی کے ساتھ میگزین کا اجرا ایک نہایت مستحسن قدم ہے۔ کچھ عرصہ قبل سہ ماہی ادبیات کا خصوصی شمارہ ’بچوں کا ادب نمبر‘ بھی شایع کیا گیا تھا جو تین ضخیم جلدوں پر مشتمل تھا۔ ان میں ایک بڑی تعداد میں مقامی اور غیر ملکی کہانیاں اور نظمیں یکجا کی گئی تھیں۔

بلاشبہ ایک قابل قدر کام تھا لیکن ایک بات کانٹے کی طرح چھبتی ہے کہ یہ ضخیم جلدیں عام لوگوں کی دسترس سے دور ہی رہیں۔ یہ ادیبوں کے اپنی ذاتی ریکارڈ کا ایک منصوبہ نظر آیا۔ سرکاری ادارے ایسے منصوبے عوام کے زیادہ سے زیادہ استفادے کی سوچ کے ساتھ روبہ عمل لائیں تو بہتری کے زیادہ امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ادبیات اطفال کے مدیر اختر رضا سلیمی سے پہلی ملاقات اسلام آباد میں کوئی اٹھارہ انیس برس قبل ریاض عادل کے توسط سے ہوئی تھی اور میں نے اپنا پہلا ادبی مضمون بھی سلیمی کے غزلیہ مجموعے پر لکھا تھا جو مقامی اخبار کے ادبی صفحے پر شایع ہوا تھا۔

سلیمی سہ ماہی ادبیات کے مدیر بھی ہیں اور وہ نہایت خوبی سے اپنا فریضہ انجام دیتے آرہے ہیں۔ وہ ایک خوش اخلاق انسان ہیں اور اچھے شاعر ہی نہیں ایک ناول نگار بھی ہیں، جن کے ناول ’جاگے ہیں خواب میں‘ کی ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی ہوئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سلیمی نے لکھنے کا آغاز بھی بچوں کی کہانیوں سے کیا تھا۔ رسالے کے معاون مدیر ریاض عادل پنجاب کے شعری حلقوں میں ایک غزل گو شاعر کے طور پر پہچان رکھتے ہیں لیکن انھوں نے بچوں کے ادب سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا تھا اور بچوں کے لیے کہانی لکھا کرتے تھے، پھر خوبصورت نظمیں تخلیق کرنے لگے اور اب اکیڈمی کے بچوں کے پرچے کی ذمے داری سنبھال لی ہے۔

ادبیات اطفال کا پہلا شمارہ اپنے دیدہ زیب ٹائٹل سے لے کر مشمولات تک قابل ذکر ہے۔ ایک سو چھیاسٹھ صفحات کا یہ پرچا اگرچہ مہنگے کاغذ پر چھاپا گیا ہے لیکن اس کی قیمت سو روپے محل نظر ہے، کیوں کہ پھول اور تعلیم و تربیت جیسے رنگین، دیدہ زیب اور پرانے پرچوں کی قیمتیں بھی تیس روپے سے زائد نہیں ہیں۔ بچوں کے پرچوں کو سرکولیشن کا مسئلہ رہا ہے، سوائے ان کے جو مختلف اداروں کے تحت شایع ہوتے رہے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ تو ان کی سرکولیشن میں بھی کمی آئی ہے، ایسے میں اکیڈمی کے تحت شایع ہونے والے بچوں کے رسالے کی قیمت سو روپے مقرر کرنا اسے محض نمائشی حد تک محدود رکھ سکتا ہے۔

مشمولات پر نگاہ ڈالی جائے تو اس میں ادبی پرچوں کی تقلید کرتے ہوئے سب سے پہلے حمد و نعت کا حصہ رکھا گیا ہے اور پھر یاد رفتگاں کے طور پر مولوی عبدالحق اور منٹو کی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ لیکن حمد و نعت کے سلسلے کو پڑھتے ہوئے یہ سوچ ذہن پر سوار رہتی ہے کہ کیا سوچ کر بچوں کے پرچے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا ہے اور یہ بہت اہم سوال ہے کہ پرچے کے تمام مشمولات کس عمر کے بچوں کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھ کر منتخب کیے گئے ہیں؟

افتخار کھوکھر، رضوانہ سید، مجیب ظفر، حاطب صدیقی اور اختر عباس، ان سب کی لکھی کہانی نما تحریریں کیا سوچ کر شامل کی گئی ہیں۔ نہ ان کی زبان بچوں کی ہے، نہ ان کا کنٹینٹ بچوں کے لیے ہے، بالخصوص اختر عباس نے تو اپنا افسانہ بچوں کی کہانی کے نام سے شامل کروادیا ہے جس کے آخر میں چند مشکل الفاظ کے معنی دے کر اس تاثر کو زائل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔

احمد حاطب صدیقی اپنی کہانی نما ’ایک مزے دار مشاعرہ‘ کتنی مرتبہ اور کب تک بچوں کے پرچوں میں چھپواتے رہیں گے جو بچوں کے لیے ہے بھی نہیں۔ ایک تو مزاح اوپر سے شاعری اور پھر بچوں کے لیے، یہ تین مشکلیں مل کر ایک بہت بڑی مشکل کو جنم دیتی ہیں جسے وہ خاطر میں نہیں لائے ہیں۔

دیگر کہانیاں بھی اس سوال کی زد پر ہیں کہ آخر کوئی تو حدبندی ہونی چاہیے جس سے معلوم ہو کہ کس عمر کے بچوں کو ہدف بنایا جارہا ہے، تاہم یہ کہانیاں ان سینئرز سے کسی حد تک بہتر ہیں لیکن برسوں سے بچوں کے لیے لکھتے آرہے ان ادیبوں کی کہانیاں پڑھتے ہوئے یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ ابھی تک انھیں بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا نہیں آیا۔

اس رسالے کے تحریری مواد کی بہتری کے لیے مزید کوشش کی جاسکتی ہے، اسے رنگین اور باتصویر بنایا جاسکتا ہے، خصوصاً یہ کہ ادارہ ایک کرائٹیریا ترتیب دے اور بچوں کی ذہنی سطح کی کسی ایک یا دو کیٹیگریز کے تحت ادیبوں سے کہانیاں لکھوائے۔ بچوں کے ادیبوں کو بھی ادبیات اطفال میں اپنی اچھی، معیاری کہانیاں اور نظمیں بھیجنی چاہئیں اور انھیں یہ معلوم ہوناچاہیے کہ اکیڈمی ہر کہانی پر دو ہزار اور نظم پر ڈیڑھ ہزار روپے معاوضہ بھی دے رہی ہے جو ہمیشہ سے بچوں کے ادیبوں کی بنیادی اور جائز شکایت رہی ہے۔ اتنا معاوضہ آج تک بچوں کے کسی بھی رسالے نے اپنے قلمی معاونین کو نہیں دیا۔

دوسری طرف اکیڈمی جو ایک سرکاری ادارہ ہے اور وسائل رکھتا ہے، بچوں کے ادب کے سلسلے میں مزید کام کرتے ہوئے ادارے کے اندر بچوں کے ادب کا خصوصی شعبہ تشکیل دے جس کی شدید ضرورت ہے۔ تاکہ اس کے تحت بچوں کے لیے کہانیوں کی کتابیں تواتر سے چھاپی جاسکیں، کتابوں اور ادیبوں کے لیے سالانہ ایوارڈز کا اجرا ہوسکے، اور اکیڈمی جس طرح معمار سیریز کے تحت اہم ادیبوں پر کتابیں شایع کررہی ہے اسی طرح بچوں کے اہم ادیبوں پر بھی کتابیں شایع کی جاسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔