چین سائنسی تحقیق میں جلد امریکہ کو پیچھے چھوڑسکتا ہے، امریکی ماہرین

ویب ڈیسک  پير 19 جون 2017
چینی سائنسی ادارے اب امریکہ اور یورپ کے ممتاز طبی ماہرین کو اپنے ملک میں تحقیق کے لیے مراعات فراہم کررہے ہیں۔ فوٹو: فائل

چینی سائنسی ادارے اب امریکہ اور یورپ کے ممتاز طبی ماہرین کو اپنے ملک میں تحقیق کے لیے مراعات فراہم کررہے ہیں۔ فوٹو: فائل

مشی گن: امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ چین سائنسی تحقیق میں بہت جلد امریکہ کو پیچھے چھوڑدے گا اور امریکہ سائنسی تحقیق میں اپنی برتری برقرار نہیں رکھ سکے گا۔

یونیورسٹی آف مشی گن کے ماہرین نے گزشتہ 15 برس میں چین سے شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں کا جائزہ لینے کے بعد کہا ہے کہ بایومیڈیکل تحقیق میں امریکہ کی نمبر ایک پوزیشن خطرے میں ہے کیونکہ چینی ماہرین طبی حیاتیات میں بہت عمدہ اور بڑی تعداد میں تحقیق کرکے مقالے شائع کررہے ہیں۔

یونیورسٹی آف مشی گن میں پروفیسر آف فزیالوجی اینڈ میڈیسن بشر اوماری کہتے ہیں کہ چین نے اس شعبے میں غیرمعمولی سرمایہ کاری کی ہے اور یہی اس کی ترقی کی اہم وجہ بھی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ ’امریکہ عالمی سائنسی افق اور تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) میں آگے رہے گا لیکن بایومیڈیکل ریسرچ کے شعبے میں وفاقی سطح پر مدد میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے امریکہ یہ مقام کھو سکتا ہے۔‘

حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بایومیڈیکل تحقیق کے فنڈز میں واضح کمی کا اعلان کیا ہے جس میں غریبوں کے لیے صحت کی سہولیات، وبائی امراض پر تحقیق، بوڑھوں اور معذوروں کے معالجاتی فنڈز میں کمی، ایڈز کے بجٹ میں کٹوتی اور دیگر اقدامات شامل ہیں اور ان کا اعلان 23 مئی کو کیا گیا تھا۔ پہلے یہ فنڈنگ 32 ارب ڈالر تھی جو اب 26 ارب ڈالر کردی گئی ہے۔

دوسری جانب خود چین بھی سائنسی تحقیق کا عالمی لیڈر بننے پر شدید خواہاں ہے۔ اس کے علاوہ چینی جامعات یورپ اور امریکہ کے مشہور دماغوں کو غیرمعمولی تنخواہوں پر اپنے ملک میں کام کی ترغیب بھی دے رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔