اوول میں پاکستان زندہ باد کی گونج

سلیم خالق  پير 19 جون 2017
ایک ایسا ملک جہاں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی، اس کی ٹیم نے نئے کپتان کی زیرقیادت ٹائٹل جیت لیا جو بہت بڑی بات ہے. فوٹو/اے ایف پی/فائل

ایک ایسا ملک جہاں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی، اس کی ٹیم نے نئے کپتان کی زیرقیادت ٹائٹل جیت لیا جو بہت بڑی بات ہے. فوٹو/اے ایف پی/فائل

پاک بھارت میچ دنیا میں کہیں بھی ہوا اسٹیڈیم کے اطراف کا علاقہ انہی دونوں ممالک جیسا لگنے لگتا ہے،آج بھی ایسا ہی ہے، میں صبح 8 بجے اوول  پہنچ گیا، ٹیوب اسٹیشن سے شائقین کا جم غفیر نکلتا دکھائی دیا، اطراف کی سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، ان میں زیادہ تعداد بھارتیوں کی تھی جنھیں پہلے سے اندازہ تھا کہ ان کی ٹیم فائنل کھیلے گی لہذا ایڈوانس میں ہی ٹکٹ خرید لیے تھے۔

پاکستانیوں کو چونکہ اپنی ٹیم سے زیادہ توقعات نہیں تھیں لہذا  وہ ٹکٹ خریدنے کے معاملے میں پیچھے رہ گئے، البتہ جب گرین شرٹس نے فتوحات حاصل کرنا شروع کیں تو ٹکٹوں کیلیے بھاگ دوڑ عروج پر پہنچ گئی،50 پاؤنڈ والا ٹکٹ 600 یا اس سے بھی زائد رقم میں فروخت ہوا، کراچی سے لندن کے ہوائی سفر کا جتنا کرایہ ہے اس سے زیادہ کی میچ ٹکٹ فروخت ہوئی، اسٹیڈیم کے باہر بلیک مارکیٹ کرنے والے بھی دکھائی دیے، ان میں زیادہ تعداد گوروں کی ہی تھی جنھوں نے شاید اپنی ٹیم کے فائنل کھیلنے کے یقین پر ٹکٹیں خرید رکھی تھیں، اب وہ مالی فائدے سے اپنی فرسٹریشن کم کرنا چاہتے تھے۔

عوام کا جوش و جذبہ عروج پر تھا، سب اپنی ٹیموں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے، ایک خاتون ’’گونواز گو‘‘ کے بورڈز بھی فروخت کر رہی تھیں، اس سے حکومت کی ’’مقبولیت‘‘ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،آج بھی  یہاں شدید گرمی ہے، مجھے تو کراچی جیسا موسم محسوس ہوا البتہ یہاں  لائٹ نہیں جاتی، ایک جگہ بھارتی پرچم لپیٹے ایک صاحب پاکستانی پرچم تھامے افراد کے ساتھ گپ شپ کرتے دکھائی دیے، میں نے ان سے کہا کہ اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر تو جنگ  کا سا سماں ہے آپ لوگوں پر اس کا اثر نہیں ہوا تو جواب ملا کہ ’’ہم مل جل کر رہتے ہیں ، اپنے ملک اور ٹیم سے محبت کا مطلب دوسرے سے نفرت کرنا نہیں ہے، بس آج میچ اچھا ہو جائے تو ہم خوش ہو جائیں گے‘‘ البتہ سارے لوگوں کی ایسی سوچ نہیں تھی۔

آگے پہنچا تو وہاں موجود پاکستانی اور بھارتی آمنے سامنے کھڑے ہو کر زوردار نعرے لگا رہے تھے،اسٹیڈیم کے اندر سخت تلاشی کے بعد بھیجا جا رہا تھا، گزشتہ دنوں لندن میں جو واقعات ہوئے ان کی وجہ سے سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے، میچ شروع ہونے کے بعد بھی لوگ طویل قطاروں میں موجود تھے اس سے شائقین کی تعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا، مختلف روپ دھارے لوگ بھی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے، آئی سی سی اپنے ہر ایونٹ میں کمائی کیلیے پاک بھارت میچ ضرور رکھتی ہے۔

اس بار تو دونوں ٹیموں کا فائنل ہونے سے اس کا جیک پاٹ لگ گیا، پاکستانی ٹیم نے بھی شائقین کو مایوس نہیں کیا، پہلے ہی یہ کہا تھا کہ صلاحیت میں ہمارے کرکٹرز کسی سے کم نہیں بس نفسیاتی طور پر بھارت سے کھیلتے  ہوئے دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، آج یہ مسئلہ نظر نہیں آیا، ٹیم ایک یونٹ بن کر کھیلی اور حریف کو چت کر دیا، اس فتح کا کریڈٹ پورے اسکواڈ خصوصاً کپتان سرفراز احمد کو جاتا ہے جنھوں نے اپنے کھلاڑیوں کو اچھے انداز میں لڑایا، نئے کھلاڑیوں کو جوائے ٹرپ تک محدود رکھنے کے بجائے صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا جنھوں نے انھیں مایوس بھی نہ کیا، خصوصاً فخرالزماں نے بہترین بیٹنگ کی اور وہ حریفوں کیلیے سرپرائز پیکیج ثابت ہوئے۔

آج سینئرز اظہر علی اور محمد حفیظ نے بھی ذمہ داری نبھائی، عامر نے شاندار بولنگ کر کے حریف بیٹنگ کو تباہ کر دیا، لندن (لارڈز ) میں ہی پاکستان نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹائٹل حاصل کیا تھا اب چیمپئنز ٹرافی بھی اپنے نام کر لی، لندن میں ہی اسپاٹ فکسنگ کا کیس بھی ہوا تھا جس سے یہاں مقیم پاکستانیوں کو بہت سبکی اٹھانا پڑی تھی، آج وہ داغ دھل گیا اور وہ یہاں سر اٹھا کر چل سکتے ہیں، اس وقت یہاں موجود ہم وطنوں کی خوشیاں دیکھ کر میرا دل بھی باغ باغ ہے، ہر طرف پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج ہے، جدھر دیکھو سبز ہلالی پرچم نظر آ رہے ہیں۔

اپنی ٹیم کی جلد وکٹیں گرنے پر مایوس بھارتی شائقین واپس جانا شروع ہوگئے تھے، اسٹیڈیم میں ہر طرف پاکستانی پرچموں کی ہی بہار ہے، دل دل پاکستان نغمہ چلایا جا رہا ہے، مجھے ابھی سرفراز احمد کی پریس کانفرنس میں  جانا ہے، ٹیم کے جشن و دیگر تفصیلات کل بتاؤں گا،ہاں جاتے جاتے یہ ضرور بتا دوں کہ میں نے پاکستانیوں کی شکایات آئی سی سی تک پہنچا دی ہیں۔

کل میڈیا کے ساتھ اوول میں ایک محفل سجائی گئی تھی، وہاں کونسل کے چیف ایگزیکٹیو ڈیو رچرڈسن بھی موجود تھے، میری ان سے چند منٹ  غیر رسمی گفتگو ہوئی جس میں ان سے کہا کہ پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ آئی سی سی وہاں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کیلیے کوششیں نہیں کر رہی، جس پر انھوں نے اسے غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’غیرملکی ٹیموں کے سیکیورٹی خدشات ہم نہیں پاکستان ہی ختم کریگا،غیرجانبدار ماہر جب کلیئر رپورٹ دیں گے تو یقیناً وہاں انٹرنیشنل میچز ہونا شروع ہو جائیں گے، ہم تو مکمل تعاون کرتے ہوئے ورلڈ الیون بھی بھیجنے پربات کر رہے تھے۔

پاک بھارت سیریز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’ جس دن دونوں ممالک تیار ہو گئے ایسا ممکن ہوگا، آئی سی سی اس میں دخل نہیں دے سکتی‘‘۔ اس وقت  وہاں چیمپئنز ٹرافی بھی رکھی ہوئی تھی، میں نے اسے ہاتھوں میں تھام کر تصاویر بنوائیں،تب میرے دل میں یہی بات تھی کہ آج ایک پاکستانی نے یہ ٹرافی اٹھائی، کل یقیناً ہمارا کپتان سرفراز احمد اسے تھام کر پوز دیگا، ٹیم قومی پرچم تھامے گراؤنڈ کا چکر لگائے گی، شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی، مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں نے جو دعائیں کیں وہ رنگ لے آئیں، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد ٹیم نے ایک اور بڑا ٹائٹل جیت لیا، اس پر جتنی بھی خوشیاں منائی جائیں وہ کم ہیں۔

ایک ایسا ملک جہاں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی، بورڈ پر سفارشیوں کا قبضہ ہے، اس کی ٹیم نے نئے کپتان کی زیرقیادت ٹائٹل جیت لیا جو بہت بڑی بات ہے، ساتھ ہی فائنل میں بھارت کو ہرانے سے ہماری خوشیاں دوبالا ہو گئی ہیں، ہمیں اپنے کھلاڑیوں پر فخر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔