عیدکا تحفہ …آئی سی سی بھی ادھار چکائے

ایاز خان  منگل 20 جون 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

عالمی درجہ بندی میں آٹھویں نمبر کی ٹیم تیسرے نمبر کی ٹیم سے ابتدائی میچ ہاری تو پوری قوم مایوس ہو گئی۔ شکست بھی124 رنز کے بڑے مارجن سے ہوئی۔ ٹیم کے ہارنے کے ساتھ ہی تنقید کے نشتر برسنے شروع ہو گئے۔ تنقید اتنی غلط بھی نہیں تھی۔ ہم تو اپنے روایتی حریف سے جیتنا بھی بھول چکے تھے۔ ٹیم کے میدان میں اترنے سے پہلے ہی یہ یقین کیا جانے لگا کہ شکست ہمارا مقدر ہو گی۔ اور یہی ہوتا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے میچ کو تمام میچوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ اس بار البتہ صورت حال مختلف تھی۔ میچ فادرز ڈے کے موقع پر تھا اور انڈین بڑھکیں مار رہے تھے کہ وہ میدان میں بتا دیں گے کہ باپ کون ہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ پہلے میچ میں124رنز کی شکست کا بدلہ فائنل میں 180رنز کی جیت سے چکا دیا گیا۔

ہم پہلا میچ ہارے تو مجھے سابق انڈین کیپٹن سارو گنگولی کا وہ جملہ یاد ہے جس میں انھوں نے کہا تھا حیرت ہے پاکستانی ٹیم کو کیا ہو گیا۔ گنگولی کو وہ دور یاد ہے جب انڈین ٹیم پاکستان سے جیتنے کے لیے ترس جاتی تھی۔ شارجہ کا وہ دور کون بھلا سکتا ہے جب عمران خان ہر بار میدان میں اترنے سے پہلے بھارت کو چیلنج کیا کرتے تھے کہ آؤ میچ پر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کشمیر کس کا ہے۔ اتنا اعتماد ہوتا تھا کہ ہم بھارت سے ہر صورت جیتیں گے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ اس دور کی انڈین کرکٹ ٹیم خاصی کمزور ہوا کرتی تھی۔ آئی پی ایل کی وجہ سے اب بھارتی ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔

پاکستان اپنے گروپ کا پہلا میچ انڈیا سے بری طرح ہارا تو مایوسی پیدا ہونا فطری تھا۔ مجھے یاد ہے آفس میں کولیگز کے ساتھ میچ پر گفتگو ہورہی تھی تو میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اور انڈیا فائنل کھیلیں۔ انڈیا تو دفاعی چیمپئن بھی تھا اور ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے فیورٹ بھی اس سے اس کا فائنل میں آنا حیرت انگیز نہیں تھا‘ پاکستان جیسی ٹیم کا البتہ فائنل کھیلنا تقریباً نا ممکن نظر آ رہا تھا۔ اس کے بعد قریب قریب وہی صورت حال پیدا ہوئی جو25سال پہلے ورلڈ کپ میں ہوا تھا۔ 92ء کے ورلڈ کپ میں لگتا تھا پاکستان ٹورنامنٹ سے باہر ہوجائے گا۔ پھر ٹیم نے ایک بار جیتنا شروع کیا تو کپ لے کر ہی آئی۔ تب نیوزی لینڈ اپنے پول کی مضبوط ترین ٹیم تھی جو کسی سے میچ نہیں ہاری تھی۔

پاکستان نے نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں ناک آؤٹ کر دیا اور پھر فائنل میں انگلینڈ کو شکست دے کر عالمی کپ اپنے نام کر لیا۔ حالیہ چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان جب پہلا میچ ہار گیا تو پھر سیمی فائنل تک رسائی کی ایک ہی صورت تھی کہ گروپ کے باقی دونوں میچ جیتے جائیں۔ سری لنکا نے اگرچہ بھارت کو ہرا دیا تھا مگر ان کے ساتھ میچ نسبتاً آسان۔ جنوبی افریقہ ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں نمبر ون ٹیم ہے اس کے ساتھ مقابلہ مشکل لگ رہا تھا۔ لیکن ہماری ٹیم جب وننگ ٹریک پر چڑھ جاتی ہے تو پھر اسے ہرانا آسان نہیں ہوتا۔ 92ء کے عالمی کپ کی طرح اس بار انگلینڈ کی ٹیم سیمی فائنل میں ہمارے مدمقابل تھی جو گروپ میچ پر ایک بھی میچ نہیں ہاری تھی۔ پاکستان نے سیمی فائنل میں گوروں کا جھٹکا کیا اور فائنل میں پہنچ گیا‘ انڈیا بنگلہ دیش کو بچوں کی طرح مار کر فائنل میں پہنچا۔

انڈین ٹیم چونکہ پہلے میچ میں ہمیں ہرا چکی تھی اور گزشتہ سات سال میں اس کا ریکارڈ یہ ہے کہ وہ پاکستان سے صرف دو میچ ہاری ہے اس لیے بھارتیوں کا غرور اور پاکستانیوں کا خوف اپنی اپنی جگہ درست تھا۔ فائنل سے پہلے جس دوست سے بھی بات ہوتی تھی وہ یہی کہتا کہ انڈیا سے جیتنا مشکل ہے۔ انڈین ٹیم کو یہ اعتماد تو تھا کہ وہ پاکستان کو گروپ میچ میں ہرا چکی ہے مگر ساتھ ہی وہ انڈر پریشر بھی تھی کہ پاکستان سیمی فائنل میں ٹورنامنٹ کی سب سے بہترین ٹیم انگلینڈ کو بڑے آسانی کے ساتھ ہرا چکا تھا۔ اوول گراؤنڈ میں ٹاس کے لیے دونوں کپتان آئے تو قسمت نے سرفراز کی سائیڈ لینی شروع کر دی۔ سرفراز کی خوش قسمتی کہ وہ ٹاس ہار گیا۔ کوہلی نے ٹاس جیت کر وہی غلطی کی جو سرفراز نے کرنی تھی۔ پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی اور پھر جو ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ میچ شروع ہوا تو دونوں ٹیمیں نروس تھیں۔

فخر زمان اپنا صرف چوتھا میچ کھیل رہا تھا اور تین رنز پر دھونی نے اس کا کیچ بھی پکڑ لیا۔ لیکن قسمت سرفراز اینڈ کمپنی کے ساتھ تھی۔ امپائر نے بھمرا کی گیند کو ریویو میں چیک کرایا تو اس کا پاؤں کریز سے باہر پڑا تھا۔ نو بال کا اشارہ ہوا اور فخر زمان کو واپس بلا لیا گیا۔ یہ کیا نوجوان ہے، جس نے پہلے ہی میچ میں بتا دیا کہ وہ پاکستان کا مستقبل ہے۔ اس نے جنوبی افریقہ کے خلاف ڈیبیو کیا اور31رنز کی اننگز کھیلی۔ اس کے بعد سری لنکا اور سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف ففٹیاں بنا ڈالیں۔انڈیا کے خلاف پہلی بار کھیلنے کا موقع ملا اور وہ بھی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں۔ یہ نوجوان اس میں سنچری اسکور کر کے مین آف دی فائنل بھی لے گیا۔ فائنل میں بڑے بڑے پلیئرز فارغ ہو جاتے ہیں لیکن اس نوجوان کے کیا کہنے۔ انڈین بیٹسمینوں نے 338رنز کا تعاقب شروع کیا تو محمد عامر نے آتے ہی تباہی مچا دی۔ روہت شرما‘ ویرات کوہلی اور شیکھر دھون تینوں کو پولین بھجوا دیا۔ یہ تینوں فارم میں تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی30,25 اوورز تک کریز پر موجود رہتا تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ عامر نے بھارتی اننگز شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کردی۔

آخر میں چیمپئنز ٹرافی کی دریافت حسن علی اور کپتان سرفراز احمد کی پرفارمنس کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ حسن علی بھی نوجوان ہے اور اس کا بھی یہ پہلا بڑا ٹورنامنٹ تھا جس میں وہ سب سے زیادہ 13وکٹیں لے کر بہترین بولر اور مین آف ٹورنامنٹ کا اعزاز لے گیا۔ سرفراز احمد کو فائنل میں کپتانی کے جوہر زیادہ دکھانے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ بیٹسمینوں نے اسکور ہی اتنا کر دیا تھا لیکن سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف اس کی کپتانی بے مثال تھی۔ اس نے جب بولر تبدیل کیا‘ اسے وکٹ مل گئی۔ جب فیلڈرز کسی پوزیشن پر لیا اس کے پاس کیچ آ گیا۔ سرفراز ایک فائٹر ہے اور فائٹر ہی جارحانہ کپتانی کر سکتا ہے۔ آئی پی ایل نے بہترین نوجوان کرکٹ دیے ہیں۔انھیں سنبھالنا اور ٹیم کے ساتھ رکھنا ضروری ہے۔

ہوم گراؤنڈ پر انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم قومی کرکٹ ٹیم چیمپئنز کی چیمپئن بن گئی۔ کیا یہ چھوٹی بات ہے۔ سرویوین رچرڈر‘ ایان چیپل اور برائن لارا جیسے گریٹ کرکٹر بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونی چاہیے۔ چیمپئنز ٹرافی کے دوران انگلینڈ میں دہشت گردی کا واقعہ ہو سکتا ہے تو پھر بتائیں کون سی جگہ محفوظ ہے۔ فادرز ڈے پر عید کا تحفہ دینے پر ٹیم پاکستان کا شکریہ۔ آئی سی سی بھی اب پاکستان کو انٹرنیشنل کرکٹ کا تحفہ دے ڈالے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔