مسئلہ کشمیر اور قومی اتحاد

شکیل فاروقی  منگل 20 جون 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بی جے پی کے حلقوں میں آج کل کانگریس پارٹی کے لیڈر سندیپ ڈکشت کے بیان پر ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انھوں نے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کو ’’سڑک کا غنڈہ‘‘ کہہ دیا ہے جوکہ بالکل سچ ہے۔ گویا:

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی

بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

یہ کڑوا سچ انھیں بڑا مہنگا پڑا ہے۔ انھیں اس بات کی کڑی سزا بھگتنا پڑے گی۔ انھوں نے یہ بات مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے حوالے سے کہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب سے جنرل راوت نے بھارتی فوج کی کمان سنبھالی ہے تب سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار مزید گرم ہوگیا ہے۔ دریں اثنا بھارت کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ اگر کشمیرکا مسئلہ حل نہ کیا تو جنوبی ایشیا میں خطرناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے جہاں پر کوئی پابندی یا قید نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں عوام پر ظلم کرنا اور زبردستی ان کا حق چھیننا غیر قانونی عمل ہے۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ بھارت کے ایوانوں میں بعض مخصوص گروپوں کا قبضہ ہے جو بھارت کو جوڑنے کے لیے نہیں بلکہ توڑنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

بھارت پاکستان کا ازلی دشمن اور سارے فساد کی جڑ ہے۔آئے دن کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کرنا اور نہتے عوام کو شہید کرنا بھارت کا معمول ہے۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے چلی جارہی ہے۔ وہ ظلم کا کوئی موقعہ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔آزادی کے متوالے کشمیری جب احتجاج کے لیے نکلتے ہیں تو ان پر پیلٹ برسائے جاتے ہیں اور اندھا دھندگولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال پر دوبارہ پابندی لگا دی گئی ہے۔ تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ بھارتی فورسز کی جانب سے شدید کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔

سارے مقبوضہ کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بھارتی فوج کافی عرصے سے کشمیری تنظیموں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششیں کررہی ہے، لیکن تمام تر وسائل استعمال کرنے کے باوجود مودی سرکار اپنی سازش میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بھارتی جنرلز اور دانشور اب کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ جو کل تک یہ کہتے تھے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر کسی بھی صورت مذاکرات نہیں کریں گے۔ اب یہ کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کے ڈرامے میں ناکامی اور برہان وانی کے جانشیں کمانڈر سبزار احمد بٹ کی شہادت کے بعد پورے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی ایک نئی لہر پیدا ہونے پر غیر مشروط مذاکرات کی بات بھارت کی ایک نئی چال ہے۔

بھارت کا ماضی گواہ ہے کہ اس نے مذاکرات کا ڈرامہ ہمیشہ مقبوضہ کشمیر پر اپنا فوجی قبضہ مستحکم کرنے اور صرف وقت گزاری کے لیے رچایا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ نے مذاکرات کی بات اچانک یوں ہی نہیں کردی۔ اس کے پیچھے خاموش سفارت کاری کار فرما ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس کے ڈانڈے گزشتہ دنوں مری میں بھارتی تاجر جندال کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے ملتے ہیں۔ اس نازک مرحلے پر ہمیں کمزور پالیسی اختیار کرنے کے بجائے ڈٹ کرکشمیریوں کے موقف کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس فیصلہ کن موڑ پر ہمیں کشمیریوں کی عظیم قربانیوں کا پورا خیال رکھنا ہوگا ورنہ کشمیریوں اور پاکستانی قوم کے جذبات مجروح ہوں گے۔

ہمیں قائد اعظم کی قومی کشمیر پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مظلوم کشمیری عوام کی حمایت اور مدد کرنا چاہیے تاکہ تاریخ ہمارے کردار کا اچھے الفاظ میں ذکر کرے۔وزیر اعظم نواز شریف خود کوکشمیری کہتے ہیں تو پھر انھیں حقیقی معنوں میں کشمیری قوم کا حامی اور پاسبان بننا چاہیے۔ مظلوم کشمیری پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستانی پرچم بلند کرکے اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں اور اپنے شہیدوں کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کر رہے ہیں۔ بے قصور کشمیری نوجوانوں پر طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگا کر حراستی مراکز میں بند کردیا جاتا ہے اور پھر ان پر وحشیانہ ظلم و تشدد کرکے شہید کردیا جاتا ہے۔ بھارتی درندے کشمیری نوجوانوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ ان کی نوجوان نسل ختم ہوجائے۔ ستم تو یہ ہے کہ  دیناخاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جس میں عالمی امن کے دعوے دار بھی شامل ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ٹیموں کی رسائی بند کر رکھی ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو کی وجہ سے شدید غذا کی قلت پیدا ہوچکی ہے اور بچوں کے لیے دودھ بھی میسر نہیں ہے۔ حالات سے گھبرا کر ہزاروں سیاح اپنی بکنگ کینسل کروا کر وادی سے واپس جا رہے ہیں۔ سری نگر میں ہوٹل خالی پڑے ہیں اور تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان کو اس صورتحال سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے اور پوری دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم سے آگاہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کو واضح طور پر کہنا چاہیے کہ بھارت کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کریں۔

بھارت نے اس وقت کنٹرول لائن پر غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ دوسری جانب وہ افغانستان کی سرزمین میں سے دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیاں کروا رہا ہے۔ ادھر اس کی یہ بھی کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کے ساتھ پڑوسی برادر ملک ایران کے تعلقات بھی خراب کیے جائیں۔ اس کے علاوہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں پر غیر قانونی ڈیم تعمیر کرکے وطن عزیز کی طرف آنے والے پانی کی ایک ایک بوند روکنے کی باتیں بھی کر رہا ہے۔ حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ متحد ہوکر بھارت کی تمام چالوں کو ناکام بنایا جائے۔ قومی اتحاد اس وقت وطن عزیز کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔