پارلیمانی اداروں پر فتح؟

کشور زہرا  منگل 20 جون 2017

نادیدہ قوتوں کی پارلیمانی اداروں پر بالادستی کی ہوتی ہوئی کامیاب کوششیں کہیں کسی بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ تو نہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں پارلیمارنی حکومتیں قائم ہیں، وہاں وہاں طاقت کا سرچشمہ عوام کے بعد ان کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو ہی سمجھا اور تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن دنیا کے بعض ممالک میں حیرت انگیز طور پر دیکھتے ہیں کہ پارلیمارنی سطح پر کچھ غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں اور اس کا تسلسل جاری ہے، مثلاً امریکا کے انتخابات میں ہلیری کلنٹن کے مقابلے میں ٹرمپ کی پارٹی کا غیر متوقع طور پر جیت جانا اور برطانیہ میں ایک معلق پارلیمنٹ کا وجود میں آنا ایسے کاریگروں کی کارکردگی پر گمان کو یقین میں تبدیل کرتا جارہا ہے، کیونکہ برطانیہ کا جمہوری نظام بہت مضبوط اور پرانا ہے لیکن نادیدہ قوتوں کی طاقت بھی آخر کوئی چیز ہوتی ہے۔ یقیناً مورخ ضرور اس پر تاریخ رقم کرے گا۔

پاکستان بھی کچھ دہائیوں سے ایسی ہی نادیدہ قوتوں کے زیر اثر آگیا ہے جہاں عوام کے منتخب ایوانوں کی جگہ بننے والی قائمہ کمیٹیوں کے بدلے نئے ناموں کی اختراعی کمیٹیوں نے لے لی ہے جو اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہیں، مثلاً صوبہ سندھ میں امن و امان کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی کا وجود عمل میں لایا گیا، جس میں بے اثر عوامی نمایندوں کے نام جن کی میٹنگ میں شمولیت لازمی بھی نہیں، جب کہ دوسری جانب نوکر شاہی کی شرکت لازم۔ اس میں اعلیٰ ترین بیوروکریٹ کی کثیر تعداد اور ایک یا دو سیاستدانوں کے علاوہ سب نوکرشاہی کے رکن شامل ہوتے تھے۔

صوبائی کابینہ کی حیثیت اس کمیٹی کے آگے ایسی ہی محسوس ہورہی تھی جیسے قومی اسمبلی کے مقابلے میں یونین کونسل ہو۔ اس کمیٹی کا اجلاس جب بھی منعقد ہوتا ٹی وی چینلز کی اسکرین، بریکنگ نیوز اور کرنٹ افیئر کے پروگراموں میں لذت کی داغ بیل ڈالی جاتی رہی۔ اخبارات کی بڑی بڑی سرخیاں عوام کی توجہ کا مرکز بنانے کی کوشش کی گئی۔ لہٰذا حکمت عملی کا یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ آئینی و پارلیمانی اداروں کی مسلمہ حیثیت کو ثانوی کرنے کا طریقہ رائج کرلیا جائے۔

الیکشن کمیشن جو صرف انتخابات کے اعلان کے بعد ہی متحرک ہوا کرتا تھا اب باقاعدگی سے خبروں کی زینت بنا رہتا ہے۔ برق رفتاری سے سیاستدانوں کے بیانات اور ٹی وی و اخبارات کی رپورٹنگ پر نوٹس لے کر بھرپور کارکردگی دکھا رہا ہے۔ کابینہ کا وزیر ہو یا ممبر پارلیمنٹ، اس کے نام کی جگہ لفظ ’’ذرایع‘‘ کا استعمال اس منتخب عوامی نمایندے کی بے توقیری کے مترادف ہے۔ عوام کے دیے ہوئے مینڈیٹ کی بازاری مہم بھی ایوانوں کی سطح کو کمتر بنانے کی منظم کوشش کا طریقہ معلوم ہوتی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس نے 90 کی دہائی میں سوموٹو نوٹس کا سلسلہ شروع کیا تھا، تاہم اس کے بعد کبھی کبھار ہی ایسی خبریں منظرعام پر آتی تھیں، لیکن پھر ایک اور معزز سابق چیف جسٹس نے اس سلسلے کو بڑھایا، سوموٹو پر زیادہ ایکشن لیے۔ سو اب یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ آج تک جاری ہے، جو یقیناً ایک اچھے اقدام میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

لیکن دوسرا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ عوام نے اپنے آئینی و قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے جمہوری طریقے سے جس پارلیمنٹ کو منتخب کیا ہے اور اس پارلیمنٹ نے کابینہ تشکیل دی، اس میں نمایندگی کرنے والے جو عوام کے منتخب نمایندے ہیں، ان کی اہمیت کو زک پہنچانے کے لیے گرم ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ اس کو بھی یہاں سرکش قوتوں کی بہترین کاریگری کا نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے ذریعے منتخب نمایندہ، ملک و بیرون ملک بدنام ہو، یوں ریاستی نظام پر غیر منتخب لوگوں کی گرفت مضبوط ہوسکے۔

اب ایک اور نقطہ نظر پر غور کیجیے، آئینی و جمہوری و پارلیمانی اداروں میں منتخب ہوکر آنے والے ممبران اسمبلی کو آئینی طور پر عزت کا جو مقام دیا جاتا ہے اس کو ملحوظ رکھے بغیر احتساب کے عمل میں بنا جرم ثابت ہوئے مجرم کی حیثیت سے غیر منتخب اداروں کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بیک وقت وہ ملزم بھی، مجرم بھی اور محب وطن معزز عوامی نمایندہ بھی۔ لیکن نوکرشاہی کے وہ نمایندے جو بڑے بڑے عہدوں پر براجمان کردیے گئے، ان کے ماضی کی چھان بین کے بغیر وہ ہی احتساب کے عمل پر سزا اور جزا کے فیصلوں پر مامور کیے جاتے رہے ہیں، جب کہ کبھی کبھی کہیں کہیں ان کے دامنوں کی پاکیزگی بھی مشکوک نظر آتی ہے۔

یہ حکمت عملی بھی بالادست پراسرار قوتوں کا ایک عطیہ کردہ کلیہ ہے۔ اسی طرح سے ماضی اور حال دونوں ہی ادوار میں آرڈیننس کے ذریعے پارلیمانی قانون سازی کو زک پہنچتی رہی ہے، جو کھلے جمہوری رویے کے عین مخالف ہے۔ لیکن ان طبقات میں بھی دو طرح کے لوگ براجمان نظر آتے ہیں، وہ بھی جنھوں نے کرپشن کے تاج پہنے ہوئے ہیں اور دوسرے وہ جو اس پراگندہ ماحول کو ختم کرنے کی سعی میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور یوں گنجلک معاشرہ ظہور میں آچکا ہے، لہٰذا دونوں کے درمیان کی صحبت عوام کے ذہنوں کو مصروف رکھے ہوئے ہے، جب کہ بیرونی اثرات کے علاوہ سرحدوں کی صورتحال اور خلیجی ممالک کی طرف سے بھی خبریں کچھ اچھی نہیں آرہی ہیں، لیکن عوام کو ان حالات سے بالکل الگ تھلگ کرکے رکھ دیا گیا ہے، جب کہ ہماری بدنصیبی یہ بھی ہے کہ ماضی میں ہماری ہی کمزوریوں کے باعث دوسرے ممالک کے آپس کے تنازعات ہماری سرزمین پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں، جس میں سعودی عرب، ایران اور عراق کے نام نمایاں رہے ہیں۔ ان تمام اندرونی اور بیرونی چپقلش کے باعث ترقی کا عمل سست روی کا شکار ہوتا رہا۔ ایک بہتر دانشمند اور درد دل کے جذبے سے سرشار قیادت ہی عوام کے دلوں میں زندہ رہتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کرپشن کلچر کی ہمارے معاشرے میں باقاعدہ پرورش ہوئی ہے، جس سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے اور معیشت کے نقصان کے معنی کہ لوگ غربت کی نہ صرف دلدل میں پھنستے جارہے ہیں بلکہ انتہائی غربت میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ جرائم کو بھی جنم دیا، ہماری معاشرتی قدریں بھی زوال پذیر ہوئی ہیں۔ قانونی ڈھانچے سے لے کر اداروں تک کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی، انھی عوامل نے زمینی حقائق کو اتھل پتھل کرکے رکھ دیا، جس سے افراتفری اور بے یقینی نے قدم جمائے۔ کرپشن کلچر نے اتنی ترقی پائی کہ ایمانی فکر نشیب میں رہ گئی اور ہر کوئی ایک دوسرے پر کرپشن کا الزام لگارہا ہے۔

اہل سیاست ہوں، بیورو کریسی ہو یا کاروباری حضرات، ایماندار، فرض شناس اور ذہین شخصیات کی کمی نہیں ہے۔ ان سعی کرنے والوں میں بھی درپردہ ایسے لوگ موجود ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے ری کنسیلیشن معاہدات کے تحت تمام معاملات یعنی سیاسی، معاشی اور انتظامی کو از سر نو ترتیب دیا جائے تاکہ ملکی معیشت اور اہل سیاست نئے جذبے کے ساتھ ترقی کی منزل پر رواں ہوں، جس سے عوام میں خوشحالی اور ملی یکجہتی کو فروغ حاصل ہوسکے۔ پیدا ہونے والی کثافتوں کو ختم کرنا وقت کا تقاضا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔