خاموش فلموں سے بولتی فلموں تک

مختار احمد  منگل 20 جون 2017
ایک وقت تھا جب سینما گھروں کی چھتیں تک نہیں ہوتی تھیں، مگر اِس کے باوجود فلم دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سینماؤں کا رُخ کیا کرتی تھی۔

ایک وقت تھا جب سینما گھروں کی چھتیں تک نہیں ہوتی تھیں، مگر اِس کے باوجود فلم دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سینماؤں کا رُخ کیا کرتی تھی۔

اگر ماضی کے کراچی کو کھیل کے میدانوں، کلبوں، تھیٹروں اور باغات کا مرکز قرار دیا جائے تو یہ ہرگز غلط نہ ہوگا کیونکہ کراچی میں تھیٹر، کلب، باغات اور کھیل کے میدانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی، جہاں تھکے ماندہ لوگ دن بھر کی تھکاوٹ کو مٹانے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

اب جہاں تک کراچی میں تھیٹر کے آغاز کا تعلق ہے تو اِس کا آغاز شہر کے قدیم پارسی باشندوں نے کیا تھا۔ اُن کے قائم کئے جانے والے تھیٹروں میں بمبئی سے فنکار آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور داد و تحسین وصول کرکے دوبارہ اپنے شہروں کو لوٹ جاتے تھے۔ ابتداء میں ڈی جے کالج میں سب سے پہلی ڈرامیٹک سوسائٹی قائم ہوئی جس کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ شہر کراچی میں ایمیچر کے نام سے ایک ڈرامیٹک سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا جو کہ اصلاحی، ادبی اور مزاحیہ ڈرامے پیش کیا کرتے تھے۔

ابتداء میں اِن ڈراموں کو پیش کرنے کے لئے کوئی باقاعدہ تھیٹر قائم نہیں تھا مگر جب لوگوں کی تھیٹروں میں دلچسپی بڑھی تو سب سے پہلے نیپئر روڈ راکسی سینما کی جگہ راحیل تھیٹر بنایا گیا اور پھر کمہار سینما جو کہ نیپئر روڈ پر ہی واقع تھا کی جگہ موتی لال تھیٹر قائم کیا گیا جس نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔

اب جہاں تک شہر کراچی میں سینما گھروں کی ابتداء کا تعلق ہے تو کیونکہ ابتداء میں خاموش فلمیں چلا کرتی تھیں اور فنکار اشاروں کی زبان میں فلم کا مقصد بیان کرتے تھے جس میں اُس وقت دلچسپی پیدا کرنے کے لئے فلم اسکرین کے ساتھ باقاعدہ طور پر طبلہ نواز اور سارنگی نواز کو بٹھایا جاتا تھا اور وہ اپنی مدھر موسیقی کے ذریعے خوشی اور غمی کی دھنیں بجا کر فلمی سین کی ترجمانی کیا کرتے تھے۔

اُس وقت تک سینما گھروں کی چھتیں نہیں ہوتی تھیں، لہذا یہ فلمیں رات کے اندھیروں میں چلائی جاتی تھیں مگر اِس کے باوجود فلم دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سینماؤں کا رُخ کیا کرتی تھی۔ اُس وقت زیادہ تر فلمیں اِنہی تھیٹروں میں چلائی گئیں۔ پھر برصغیر میں جب بولنے والی فلموں کا آغاز ہوا تو اُس کا نام انگریزی زبان ٹاک یعنی کہ بات کے نام پر، ’ٹاکیز‘ رکھا گیا۔ یہ غالباً 1927ء کا دور تھا، جب برصغیر میں با قاعدہ طور پر سینما گھروں کا آغاز کیا گیا اور پھر کراچی بھی اِس سے محفوظ نہ رہا۔

حکومت نے جب اِس سلسلے میں کراچی میں پہلے سینما گھر کی اجازت دی تو یہاں کے بسنے والے مسلمانوں کو یہ بات انتہائی ناگوار گزری اور انہوں نے اِس کیخلاف باقاعدہ طور پر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا، لیکن کیونکہ انگریز سرکار طاقتور تھی لہذا اُس نے احتجاج کرنے والوں کی آواز دبا کر سینما گھر بنانے کا سلسلہ شروع کردیا اور اِس سلسلے میں سب سے پہلے بندر روڈ کے علاقے میں پکچر ہاؤس نامی سینما قائم کیا۔

مسلمان سینما گھروں کیخلاف سراپہ احتجاج تھے لہذا سینما فلم دیکھنے والا کوئی نہ تھا جبکہ شہر میں رہنے والے دیگر اقوام کے لوگ جن میں ہندو، عیسائی، یہودی، پارسیوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی انہوں نے بھی فلم بینی سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا، جس پر لوگوں کو اِس جانب مائل کرنے کے لئے فلم شروع ہونے سے پہلے مقبول گانوں کی دھنیں بجائی جاتی تھیں جس سے لوگ سینما گھروں کا رخ کرنے لگے۔

اب جہاں تک کراچی میں دیگر سینما گھروں کے قیام کا تعلق ہے تو جب فلمی شائقین بڑھے تو لوگوں نے اِس بزنس کی جانب توجہ دینی شروع کردی اور قیامِ پاکستان سے قبل ہی کراچی میں 20 سے زائد سینما گھر قائم ہوگئے، جن میں بندر روڈ کے علاقے میں لائٹ ہاؤس پر گلوپ سینما، ایمپائر ٹاکیز، رنجیت ٹاکیز، تاج محل سینما، پلازہ سینما، رادھا سینما، صدر کے علاقے میں ریگل سینما، کیپٹل سینما، پیلس سینما، مے فیئر سینما، نیپیئر روڈ کے علاقے میں پربھات سینما، ڈرامہ ٹاکیز، جگدیش ٹاکیز، کمار ٹاکیز و دیگر سینما قائم ہوئے جن میں ابتدائی طور پر رات کے وقت ایک شو اور پھر دن مین دو شو چلائے جانے لگے۔

اب جہاں تک اُس وقت کے سینما گھروں کا تعلق تھا تو اُن میں فلم بینوں کے لئے ابتدائی طور پر چھتیں بھی نہ تھیں، ایئرکنڈیشن سےعاری ہوتے تھے اور گرمی ہو یا سردی، یا پھر برسات، لوگ بڑی دلچسپی کے ساتھ فلمیں دیکھا کرتے تھے بلکہ اُس وقت کے معروف اداکار جن میں کے ایم سہگل، کنیا لعل، رتن بائی و دیگر ادکاروں کی با قاعدہ نقالی بھی کیا کرتے تھے۔ اب جہاں تک اُس وقت کے فنکاروں کا تعلق تھا تو اسکرین فیس کے ساتھ ساتھ اچھی اداکاری اور گلوکاری کا جاننا بھی ضروری خیال کیا جاتا تھا۔ جو فنکار اداکاری کرتے تھے وہی اپنی آواز میں گانے بھی ریکارڈ کراتے تھے، یہی وجہ تھی کہ پہلے کے بڑے ایکٹر آگے چل کر معروف پلے بیک سنگر بھی بنے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جو پہلی فلم سینماؤں میں نمائش کے لئے پیش کی گئی اس کا نام ’عالم آراء‘ تھا اور اِس میں سہگل، کنہیا لعل و دیگر نے اپنے فن کے جوہر دکھائے تھے۔

اب جہاں تک موجودہ دور میں سینما گھروں کا تعلق ہے تو ایم اے جناح روڈ پر پرنس سینما، نشاط سینما، پلازہ سینما، ناز سینما، کیپری سینما، لائٹ ہاؤس سینما سمیت درجنوں سینما گھر واقع تھے، اب صرف ایک کیپری سینما گھر قائم ہے جبکہ اِسی طرح ریگل سینما، ریو سینما سمیت تقریباً تمام سینما گھر ختم ہوچکے ہیں، جبکہ صدر میں واقع ایٹریم مال میں کچھ جدید سینما گھر کام کر رہے ہیں جہاں فلموں کے اصل شائقین کے بجائے وقت گزاری کرنے والے شائقین نظر آتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔