دیمک زدہ نظام یکدم زمین بوس ہوتا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 21 جون 2017

ایک دیمک زدہ اور کرپٹ نظام کس طرح یک د م زمین بوس ہوجاتا ہے، اس کی بہترین تعبیر اس پوسٹر سے ہوتی ہے جو ایک زمانے میں برطانوی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بے حد مقبول تھا۔ اس پوسٹر میں یہ دکھایا گیا تھا کہ بھاپ سے چلنے والا ایک انجن بے قابو ہو کر ریلوے اسٹیشن کی دیوار کو توڑ تا ہوا نیچے سٹرک پر آگرا ، اور گرا بھی اس طرح کہ انجن کا اگلا حصہ زمین بوس نظر آتا تھا اس طرح اس کی تباہی دو ہی صورتوں میں آسکتی تھی یا تو انجن میں کوئی بہت بڑی خرابی تھی یا پھر اس کا ڈرائیور خواب غفلت میں ڈوبا ہوا تھا جس کے بعد انجن بے قابو ہوکر تباہی کے دہانے تک پہنچا۔ آج ہم سب اپنے اسی انجام کے ہونے سے لرز رہے ہیں اس لیے کہ ایک تو یہ ہمارے ملک چلانے کے انجن میں بہت بڑی خرابی پیدا ہوچکی ہے اور دوسرا یہ کہ ہمار ے ڈرائیور خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

یاد رہے جب ایک دیمک زدہ اورکرپٹ نظام میں معاملات بگڑتے ہیں تو پھر انتشارکی وسعت کا اندازہ کرنا ناممکن ہو جاتاہے یعنی جنگل میں لگنے والی آگ کو آپ معمولی اور متوسط آگ قرار نہیں دے سکتے، جنگل کی آگ جب پھیلتی ہے تو پھیلتی جاتی ہے یا جب آگ کسی جنگل کی سمت بڑھ رہی ہوتو پھر گویا وہ تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے تاہم اس تباہی کی وسعت نامعلوم ہوتی ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے نظام میں کوئی بہت معمولی سا دھچکا بھی غیر متناسب اور بعض اوقات مہلک انتشار کا سبب بن جاتاہے۔ نسیم نکولس طالب نے اس کی مثال بجلی کے تار سے دی ہے ان کا کہنا ہے کہ جس طرح بہت زیادہ زیر استعمال رہنے سے بجلی کا تار خطرے کی علامت بن جا تا ہے کیونکہ وہ کبھی بھی ٹو ٹ سکتا ہے۔

عظیم برطانوی مورخ نیال فرگوسن اپنے مضمون ’’عظیم طاقتیں انتشار کے دہانے پر‘‘ میں لکھتے ہیں ۔’’ہڈسن ریورآرٹ اسکول کے بانی تھامس کو ل (Thomals Cole) نے سلطنت اور استعماریت کے دور حیات کو جس طرح رنگوں کی مدد سے پیش کیا ہے شاید اس سے بہتر اس کی مثال نہیں مل سکتی ۔ یہ تصاویر نیویارک ہسٹوریکل سوسائٹی میں آویزاں ہیں۔ تھامس کول کا شمار امریکی لینڈ اسکیپ مصوری کے بانیوں میں ہوتا ہے اور اپنے پانچ تصویری سلسلے میں جس کانام انھوں نے ’’ سلطنتوں کی روش ‘‘(The Course of Empires) رکھا ہے۔ اس میں انھوں نے راج دھانیوں کے عروج و زوال کی جس شاندار انداز میں ’’نگارگری‘‘ کی ہے وہ دیکھنے والوں کو دم بخود کردیتی ہے۔ ان تصاویر میں تھامس کول نے ایک بہتا دریا دکھایا ہے جس کے عقب میں ایک چٹان بھی نمایاں ہے۔ پہلی تصویر میں انھوں نے سبزے سے سر پوشیدہ گھنے جنگل کی منظر کشی کی ہے، جس میں شکار پر زندہ رہنے والے افراد بھی نظر آرہے ہیں۔ جو زندگی کے انتہائی مشکل دور میں اپنی زیست کا اہتمام کررہے ہیں۔ انسانوں کے ابتدائی دور کو پیش کررہا ہے۔

اس تصویر کانام انھوں نے ’’دور بازیافت‘‘ (Salvage State) رکھا ہے۔ دوسری تصویر جس کا نام ’’پادری یا چرو ہے کا دور‘‘ (Arcadian or Pastroal State) ہے،اس میں کھیتی باڑی کا منظر دکھایاگیا ہے ۔ اس دور میں بسنے والوں نے جنگلات کاصفایا کردیا ہے، کھلے میدانوں میں فصلیں اگ آئی ہیں اور ساتھ ہی ایک عظیم الشان معبد بھی نظر آرہا ہے۔گویا انسان تھوڑا بہت مہذب ہے اس نے مذہب اختیارکرلیا ہے اور معاشرے میں پادریوں ایک گروہ بھی وجود میں آچکا ہے۔ تیسری تصویر، جو سب سے بڑی ہے اس کانام ’’تکمیل سلطنت ‘‘ (The Consummation of Empire) ہے۔اس میں جو منظر کشی کی گئی ہے۔ اس کے مطابق اس میں کھیتوں کی جگہ ایک شاندار بندرگاہ کو دکھایاگیا اور اب کسانوں کی جگہ دولت میںملبوس تاجروں، سرکاری افسروں، شہریوں اور صارفین نے لے لی ہے۔ یہ تصویر سلطنتوں کے دور حیات کاوسطیٰ دور پیش کرتی ہے۔

یعنی انسان نے اب شہر بسا لیے ہیں اور وہ کھیتی باڑی سے نکل کر تجارت کررہا ہے، دور دراز علاقوں کا سفر کررہا ہے۔ اسی بدولت اسے آسودگی اورخوشحالی حاصل ہے۔ بندرگاہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی آمدورفت میں اضافہ اور معاشرتی ربط وضبط کافروغ۔اس سلسلے کے چوتھی تصویر ’’ غارت گری‘‘(Destruction) ہے جس میں شہرکو آتش زدہ اور سوزواں دکھایاگیا ہے شہری خوفزدہ اپنی جانیں بچا کر بھاگتے نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کاواسطہ ایک ایسے وحشی گروہ سے ہے جو نہ صرف عصمت دری پر آمادہ ہے بلکہ مال و ثروت بھی غضب کر رہا ہے۔سب سے آخری تصویر میں ’’ماہ کامل‘‘ دکھایاگیا ہے۔

اس تصویر کا نام ’’ویرانی و بربادی‘‘ (Desolation) ہے۔ اس تصویر میں ہمیں زندگی کی علامت کوئی شئے نظر نہیں آرہی ہے سوائے چند کہنہ زدہ ستونوں کے کہ جن کو آکاس بیل نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ تصویریں 1830 ء کے آس پاس بنائی گئی تھیں۔ ذہن میں رہے ایک دیمک زدہ اورکرپٹ نظام کاانجام ہمیشہ ’’غارت گری‘‘ (Destruction) ہی ہوتا ہے اورکوئی دوسرا انجام ہوہی نہیں سکتا ہے۔اس لیے آج ہمارے ملک کا منظر تھا۔ مس کول کی چوتھی تصویر’’غارت گری‘‘ جیسا ہو بہو نظر آرہا ہے ہم سے بہت پہلے عظیم سلطنتیں جیسے رومہ، چین میں منگ خاندان، فرانس میں بوربن، ہینبربرگ، سلطنت عثمانیہ، زار شہنشہاہت، سلطنت برطانیہ، سوویت یونین جیسی سلطنتوں کا زوال دراصل دیمک زدہ اورکرپٹ نظاموں کا ہی زوال تھا۔ یہ سب کی سب عظیم سلطنتیں اتنی سبک رفتاری سے زوال کا شکار ہوئیں کہ لوگ حیران رہ گئے۔

آج صومالیہ، افغانستان، نائجیر یا، سوڈان، ایتھوپیا، شام اور دیگر ریاستیں بھی اپنے دیمک زدہ اورکرپٹ نظام کی وجہ سے اس حال میں پہنچی ہیں یہ بھی یاد ر ہے کہ یہ تمام سلطنتیں اکیلے اپنے انجام پر نہیں پہنچیں بلکہ ان پر حکمرانی کرنے والے انھیں اس حال پر پہنچا نے والے خاندان اور شخصیات بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور جس تیزی سے انھیں عروج حاصل ہوا تھا اسی تیزی سے انھیں زوال بھی نصیب ہوا کیونکہ جب آپ کا سفر پیچھے کی جانب شروع ہوتا ہے تو پھر اس کا اختتام ابدی خاتمے پر ہوتا ہے اگر کسی کو اس بات پر شک ہے تو وہ پوری انسانی تاریخ کو اٹھا کر پڑھ لیں ۔ ان کی ملاقات ایسی ایسی شخصیات اور خاندانوں سے ہوجائے گی جن سے وہ پہلے واقف نہ تھے وہ سب کے سب اپنے اپنے زمانے کے انتہائی طاقتور ترین لوگ تھے اور انھوں نے سو چا تھا کہ انھیں بھی زوال آسکتا ہے اور ان کا یہ بھی انجام ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔