ریٹائرڈ انقلابی

طلعت حسین  جمعـء 1 فروری 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official

www.facebook.com/syedtalathussain.official

دو سابق جرنیلوں کی شخصی لڑائی میں فوج کی بلاوجہ بدنامی ہو رہی ہے۔ سابق چیف آف جنرل اسٹاف شاہد عزیز کو ریٹائر منٹ کے بعد بہت سال گزار کر کارگل کا بخار ہو گیا ہے‘ جس کے نتیجے میں سچ بولنے کے نام پر کچے پکے حقائق بیان کرنے اور اپنا غصہ نکالنے پہ مصروف ہیں۔ اہم منصب پر فائز ہونے کے ناتے وہ یقیناً اہم معلومات اور اندر کی خبروں کے رازداں بھی تھے اور ان فیصلوں کا حصہ بھی جن سے وہ آج کل خود کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال رہے ہیں۔

فوج میں اپنے کلیدی عہدے کے باعث انھوں نے جو کچھ دیکھا یا کہا وہ فیصلہ سازی کے اس عہد اور قاعدے کے تابع ہونا چاہیے تھا جس کے تحت اپنا منہ بند رکھنا اور اپنی رائے کو قومی اور ادارے کے مفادات کے ٹکرائو سے بچانے کے لیے احتیاط برتنا ہر منصب دار کے لیے اخلاقاً اور قانوناً ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر دلعزیز بننے کی خواہش نے جنرل شاہد کو ایسے گرفت میں لے لیا ہے کہ وہ ان اصولوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں ترقیوں کی منازل طے کرنے کے باوجود وہ خود کو جمہوریت پسند انقلابی کے روپ میں ڈھال رہے ہیں تا کہ وہ تاریخ میں اچھے حوالوں سے جانے جائیں اور عوام یہ بھول جائیں کہ وہ کس دور میں اور کن طریقوں کو اپنا کر چیف آف جنرل اسٹاف اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن جیسی اہم ذمے داریوں پر فائز رہے۔

اگرچہ اپنی کتاب میں انھوں نے اپنی برق رفتار ترقی کے اہم موڑ بیان کیے ہیں مگر جو شخص صحیح وقت پر سچ بولنے کی جرأت سے عاری ہو، وہ موقع گزارنے کے بعد کتنا راست گو ہو گا، یہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر جنرل شاہد اپنی موجودہ انقلابی مہم کے چلانے والوں کے نام ہی بتا دیتے تا کہ یہ عقدہ تو کھلتا کہ ان کی بے باکی کے سیاسی مقاصد کیا ہیں اور وہ ماضی کے پردوں کو چاک کر کے کن قوتوں کا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ یہ سب آپ کو نہیں بتائیں گے۔ میڈیا کی تشہیر نے ان کوایک ’’ عظیم انسان‘‘ بنا دیا ہے جو خیالی انگاروں پر چل کر ریٹائرمنٹ کے بعد قوم کی اصل خدمت میں مصروف ہو چکا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کی طرف سے جواب شکوہ ویسا ہی تھا جیسا ان سے توقع کی جا سکتی تھی۔ اپنے اہم سابق معاون کو ’’چرسی‘‘ ثابت کر کے انھوں نے جواب کم اور سوال زیادہ کھڑے کر دیے ہیں۔ اگر ان کے دور میں منشیات کے عادی ایسی کرسی پر بیٹھے تھے جہاں سے جنگ اور امن کے فیصلے ہوتے ہیں تو پھر ہم سب کو گھروں میں خندقیں کھود کر کھانے پینے کی اشیاء سمیت ان میں رہائش پذیر ہو جانا چاہیے۔جنرل مشرف نے جوابی تنقید میں بھی اصل ہدف میاں نواز شریف کو ہی بنایا۔

اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ سانڈوں کے اس اکھاڑے میں سیاست بھی موجود ہے۔ اصل لڑائی جنرل مشرف اور نواز شریف کی ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ نواز شریف نے 12 اکتوبر 1999 کے تجربے کے بعد یہ ٹھان لی کہ وہ آیندہ اقتدار تب ہی حاصل کریں گے جب فوج کا سیاست سے تعلق نہیں ہوگا۔ ترکی میں محترم طیب اردگان نے بھی کچھ ایسے طریقہ کارسے ہی آرمی کو سیاسی طور پر زیر کیا مگر طیب اردگان کی کامیابیوں کا اصل راز ان کے دائو پیچ نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنے ملک کو لوٹنے کے بجائے بہت کچھ لوٹایا ہے۔ ان کی کارکردگی اور کردار بے مثال ہے۔ جب ہی تو ہر قسم کی اکڑی ہوئی گردن ان کے اختیار کے سامنے جھک جاتی ہے۔ پاکستان میں کون کس کا احتساب کرے گا۔ کس کا دامن اتنا صاف ہے کہ دوسرے کا گریبان پکڑ سکے۔

لہٰذا اس تمام تماشے کا فائدہ صفر اور نقصانات کئی ہیں۔ فوج کے اندرونی معاملات ایک مرتبہ پھر حجاموں کی دکانوں پر زور و شور سے زیر بحث ہیں اور ہر کوئی حیران ہے کہ مشرف دور میں کس قسم کے لوگوں کے پاس قوم کی زندگی اور موت کے فیصلوں کی طاقت رہی ہے۔ فوج کی موجودہ قیادت کے لیے یہ معاملہ یقیناً تشویش کا باعث ہو گا۔ بڑے ادارے ماضی کو یکسر خیر باد نہیں کہہ سکتے ۔ برسوں پرانی داستانیں حال و مستقبل کو جانچنے کا حوالہ بن جاتی ہیں۔فوج کو کوئی ایسا ضابطہ تیار کرنے پر غور کرنا چاہیے جو اعلیٰ افسران کو حق رائے سے محروم کیے بغیر ان کے لیے حدود کا تعین کر دے جن کو پھلانگنے کی قیمت کم از کم ان تمام مراعات کی واپسی ہونی چاہیے۔

ہم اس امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ جنرل شاہد عزیز جیسے افسران کو شہ دینے والے جنرل مشرف خود ہیں جنہوں نے آرمی سربراہ ہونے کے باوجود کتاب لکھ ڈالی۔ جھوٹ سچ کی ملاوٹ سے تیار کردہ اس حیران کن آمیز ے کو دھوم دھڑکے سے ساری دنیا میں پھیلایا، جنرل مشرف نے خود اصولوں کا خیال نہیں رکھا تو ان کا ماتحت کیسے رکھ سکتا ہے۔

اس سے بھی اہم اور توجہ طلب معاملہ فوج اور آئی ایس آئی کی تعیناتیوں میں فرق نہ رکھنے کی وہ روایت ہے جو کسی زمانے میں پیشہ ورانہ مہارت کے لیے خطرہ سمجھی جاتی تھی۔ جنرل آصف نواز مرحوم نے ایک مرتبہ نجی نشست میں اعلی افسران کو انٹیلی جنس میں وقتی تعیناتی کے بعد واپس عام فرائض سونپنے کے تجربے کو انتہائی مایوس کن قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق دونوں اداروں میں کام کرنے والے ’’خود کو فوجی کم اور جیمز بانڈ اور ارسطو زیادہ سمجھتے ہیں‘‘۔

جنرل شاہد عزیز شاید اس معاملے کا بہترین ثبوت ہیں، ان جیسے درجنوں اور ریٹائرڈ فلاسفر موجود ہیں جو اپنی یاد داشتیں مرتب کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ نہ جانے وہ کیا رنگ لائیں گے۔ فوج کو سیاست اور کاروبار سے دور ہی رہنا ہو گا۔ ورنہ ہر روز ایک نیا گٹر ابل رہا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔