الوداع ماہ رمضان المبارک

رضوانہ قائد  جمعرات 22 جون 2017
نیکیوں کا موسمِ بہار رخصت ہونے ہی کو ہے۔ چند جھونکے ابھی باقی ہیں، کوششوں پر نظرِثانی کرکے کچھ اِن کو تیز تر کیا جاسکتا ہے کہ معلوم نہیں آئندہ رمضان میں زندگی یہ موقع دیتی ہے یا نہیں۔

نیکیوں کا موسمِ بہار رخصت ہونے ہی کو ہے۔ چند جھونکے ابھی باقی ہیں، کوششوں پر نظرِثانی کرکے کچھ اِن کو تیز تر کیا جاسکتا ہے کہ معلوم نہیں آئندہ رمضان میں زندگی یہ موقع دیتی ہے یا نہیں۔

بائیسوے (22) روزے کا اختتام اور وقتِ افطار، ایسے تاریخی اور سنسنی خیز لمحات میں ہوا جب پوری پاکستانی قوم دل و دماغ اور زبان سے بالکل یکجا و متحد تھی۔ ملک میں ایسا موقع کم ہی آتا ہے کہ کراچی سے کشمیر اور خیبر تا گوادر پوری عوام لسانی و سیاسی اور فرقہ ورانہ اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف ایک مقصد کے لئے ہمہ تن گوش تھی۔ کرکٹ کے عالمی چیمپئین کے اعزاز کے لئے پاکستان کی کامیابی باہمی یگانگت اور محبت کا ایسا خوبصورت احساس تھا کہ اِس کی یاد شاید ہی کبھی دلوں سے محو ہو۔ وطن اور اِس سے باہر کروڑوں پاکستانیوں اور ان کے غیر ملکی دینی بھائیوں کے دل ایک ساتھ دھڑک رہے تھے اور لبوں پر پاکستان کی کامیابی کی دعائیں تھیں۔
سب ہی رمضان کے پُرتقدس اوقات اور قبولیت کے لمحات میں کامیابی کے لئے اللہ کی مدد کے دل کی گہرائیوں سے طلبگار تھے۔ دعا کے لئے لوگوں کا اللہ سے تعلق تڑپ و تمنا اور ٹیم کی کوششیں جس اعلیٰ درجے کی تھیں، قبولیت بھی اُس کے شایانِ شان رہی۔
اِس کامیابی کے پیچھے دنیاوی اسباب اپنی جگہ مگر اصل چیز کامیابی کی تڑپ کے لئے لوگوں کے دلوں سے نکلنے والی دعائیں تھیں جس نے ٹیم کو بھی مسلسل کمربستہ رکھ کر باآلاخر شاندار کامیابی سے ہمکنار کیا۔
ہماری کامیابی کی کنجی دراصل دعا ہے۔ دعا کو مانگنے کے لئے اللہ سے صرف التجا کرنا اور گڑگڑانا ہی نہیں بلکہ جو کچھ ہم چاہ رہے ہیں اِس کے لئے کوشش بھی ویسی ہی لازم ہے، پھر جیسی کوشش اور طلب ہوگی دعاؤں میں تڑپ بھی ویسی ہی ہوگی۔ ہماری پوری قرآنی تعلیمات کا مرکز و محور ’’دعا‘‘ ہے۔
سورۂ فاتحہ، بندے کی زبان سے اللہ کی سکھائی ہوئی اولین دعا ہے۔ اِس کے جواب میں پورے دین کی تعلیمات بیان کردی گئیں اور تقویت کے لئے اُن کو موقع بہ موقع دعاؤں سے آراستہ کردیا گیا۔ اللہ کے جلیل القدر نبی حضرت نوح علیہ السلام کی دعا ہے،
ترجمہ: (میں مغلوب ہوچکا ہوں اب تُو اِن سے انتقام لے۔ 10:54)
اِس مختصر سی دعا کے پیچھے حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغِ دین کی سخت ترین کوششیں ہیں۔ اُن کی قوم نے مان کر نہ دیا تو مغلوبیت کی حالت میں اُن کی زبان سے جو دعا نکلی تو اُس نے زمین و آسمان کو تہہ و بالا کرکے رکھ  دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کو یوں قبول کیا کہ کافروں کے لئے زمین و آسمان سے پانی کا عذاب بھیج کر اپنے بندے کی مدد فرمائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے مقابلے میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو اپنے رب کو پکارتے ہیں،
ترجمہ: (میرے رب جو خیر بھی آپ مجھ پر نازل کردیں میں اس کا محتاج ہوں۔ 24 : 28)
اِس دعا کی قبولیت پر اُن کے راستے آسان ہوتے ہیں۔ دشمن تباہ و برباد ہوکر عبرت کا نشان بنتا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کامیابی ملتی ہے۔
اسی طرح قرآن میں جتنی دیگر دعائیں ہیں اور نبی کریم ﷺ نے جن دعاؤں کی تعلیم دی ہے، اُن کے ایک ایک لفظ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے تعلق کا اظہار ہوتا ہے کہ جس سے سب کچھ مل سکتا ہے۔
رمضان کا یہ ماہِ مبارک رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کے عنوانات سے دعاؤں اور کوششوں کی قبولیت کی خوشخبریاں لئے ہم پر سایہ فگن ہے۔ رب کی محبت میں اِس کا سب سے بڑا کرم سمیٹنے کے لئے اُس کے بندے دن رات مصروف ہیں۔ اِس ماہِ مبارک کی برکت کی اصل وجہ یہ ہے کہ اِس میں نزولِ قرآن ہوا اور اُمتِ مسلمہ کو وجود بخشا گیا، تاکہ وہ دنیا کے تمام انسانوں کے سامنے اپنے رب اور اُس کے دین کی گواہ بن کے کھڑی ہو اور انسانیت انصاف پر قائم ہو۔ یہی قرآن کا مشن ہے۔ اِس عظیم الشان واقع کی بِناء پر اِس ماہ کو اعزاز بخشا گیا کہ دن میں روزے رکھے جائیں اور رات کو قیام و تلاوتِ قرآن (تراویح) کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
نزولِ قرآن اور امتِ مسلمہ کی سالگرہ کے اِس ماہ میں روزوں اور تلاوتِ قرآن کی حکمت دراصل اِس مشن کے لئے ہر گیارہ ماہ بعد تربیتی پروگرام کا اہتمام ہے۔ روزوں کا مقصد اور حاصل تقویٰ کو بتایا گیا،
’’لعلکم تتقون (تاکہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو)‘‘
 چنانچہ رمضان کو نیکیوں کا موسمِ بہار بناکر اور شیطان کو قید کرکے اطاعتِ الہیٰ اور نافرمانی سے پرہیز آسان بنا دیا گیا۔
رمضان مکمل طور پر رحمت، مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کے عنوانات سے انعام و اکرام کی بارش کا مہینہ ہے۔ یہ سلسلہ پہلی رات سے جاری ہے، اِس سے فیض یاب ہونا ہماری کوششوں اور دعاؤں پر ہی منحصر ہے۔ اِن کوششوں میں سب سے بڑھ کر قرآن سے تعلق اور اُس کے ابلاغ کے مشن کی تقویت ہے۔ یعنی تلاوتِ قرآن اِس انداز سے ہوکہ خود کو اللہ کے سامنے حاضر محسوس کریں کہ وہ صرف آپ سے مخاطب ہے۔ برائیوں سے بچا رہا ہے، نیکیوں کی ترغیب دے رہا ہے، خطرات سے خبردار کر رہا ہے، جہنم سے ڈرا رہا ہے اور جنت کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ سب زندہ احساس بن سکتے ہیں، جب ہماری کوشش اور دعا سے دل و دماغ اور روح و جسم سب ہی تلاوت میں شریک ہوں۔
قرآن میں روزے کی فرضیت کے حکم کے سیاق و سباق میں سب سے پہلے انسانی جان کے احترام اور قِصاص کا حکم ہے۔ اِس کے بعد وراثت اور انصاف کے ساتھ وصیت کے احکام ہیں۔ درمیان میں روزوں اور رمضان کی ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ پھر ایک دوسرے کے مال ناحق کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اِس کے بعد یہ اصول بتا دیا گیا ہے کہ وفاداری اور نیکی ظاہری و رسمی افعال کی پابندی کا نام نہیں، بلکہ اصل چیز تو تقویٰ ہے جو ایمان، انفاق، محبت اور صبر جیسے اعمال کا نام ہے۔ (سورۃ بقرہ)
احکام کے اِس سلسلے میں روزے کو جس مقام پر رکھا گیا ہے، اِس سے ظاہر ہوگیا کہ روزہ رکھنے کے بعد کسی دوسرے انسان کی عزت، جان و مال اور حقوق پر دست درازی نہ کی جائے۔ اِسی لئے اِس ماہ کو ’’ماہِ مواسات‘‘ بھی کہا گیا ہے یعنی اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا مہینہ۔
نیکی اور تقویٰ کا یہ عنوان ہمہ جہت ہے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا، ناداروں اور محتاجوں کی حاجت روائی، یتیموں بیواؤں کی خبر گیری، بے گناہ قیدیوں کی رہائی، بے کس مریضوں کا علاج معالجہ، کسی کو خیر کے راستے پر لانا یہاں تک کہ اپنے اہل و عیال احباب پڑوسی اور عام انسانوں سے خوشگوار معاملات و تعلقات۔ یہ سب صبر ایثار و انفاق کے عنوانات سے تقویٰ کے حصول کے چند پہلو ہیں۔
’’سب سے بڑھ کر روزے داروں کو افطار کروانے والوں کے لئے گناہوں سے مغفرت اور دوزخ کی آگ سے نجات کی خوشخبری ہے۔‘‘ (بیہقی: سلمان فارسی رح)
اجر سمیٹنے، گناہوں کو بخشوانے اور اِس کے ذریعے قرآن کی دعوت کے اتنے ڈھیر مواقع کی نعمتوں کے ساتھ ایک اور مزید نعمت قیامِ لیل اور شب قدر کی تلاش ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی سب سے محبوب ادا یہ لگتی ہے کہ وہ اُس کے انعامات کے شوق اور اُس کی آگ کے خوف سے نجات کے لئے مسلسل کوشش میں لگا رہے۔
رمضان میں کوششوں اور دعاؤں کے نتیجے میں شاندار کامیابیاں ہماری اسلامی تاریخ کے سنہرے باب ہیں۔ نزولِ قرآن (شبِ قدر) بے سرو سامانی کے عالم میں پہلی کامیاب جنگ ’معرکۂ بدر (17 رمضان)‘،  بِلامقابلہ ’فتحِ مکہ (20 رمضان)‘، جنوبی ایشیاء میں اسلام کی آمد ’یومِ باب الاسلام (10 رمضان)‘، ’قیامِ پاکستان (17 رمضان)‘ 1992ء اور 2017ء کے رمضان میں پاکستان کے کرکٹ کا عالمی چیمپئین بننے کے اعزازات۔
نیکیوں کا موسمِ بہار رخصت ہونے ہی کو ہے۔ چند جھونکے ابھی باقی ہیں، کوششوں پر نظرِثانی کرکے کچھ اِن کو تیز تر کیا جاسکتا ہے کہ معلوم نہیں آئندہ رمضان میں زندگی یہ موقع دیتی ہے یا نہیں۔ کسی بھی برائی کو کمتر جان کر اِس کے ارتکاب سے پرہیز ضروری ہے۔ کسی بھی نیکی کو حقیر جان کر نظر انداز کرنے کے بجائے اِس پر حتی الامکان عمل کی کوشش ہونی چاہیئے۔ مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کے لئے رمضان کے اِن الوداعی لمحات کو مستقبل کی کامیابیوں کے لئے نشانِ راہ بنانا ہوگا۔
احادیث کی روایات کے مطابق رمضان کے افعال بقیہ سال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اُمت کا جسد زخموں سے چُور ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ پاکستان پر مایوسیوں کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہماری اپنی ذات۔ برکت کی اِن ساعتوں میں اپنی اور ملک و قوم کی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لئے اپنی کوششوں کو دعاؤں کے سانچوں میں ڈھالیں۔ جہالت، گناہوں اور ناکامیوں کے اندھیروں میں اُمید کی راہیں ہماری نیکوں کی روشنی کی منتظر ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔