بھارت کا رویہ اور ایم ایف این اسٹیٹس

ایڈیٹوریل  جمعـء 1 فروری 2013
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی کنٹرول لائن پر حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا تھا۔  فوٹو: فائل

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی کنٹرول لائن پر حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا تھا۔ فوٹو: فائل

وزیر تجارت امین فہیم نے پوسٹ ٹریڈ پالیسی نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح عندیہ دیا ہے کہ پاکستان بھارت کو پسندیدہ ترین تجارتی ملک قرار دینے کے اصولی فیصلے پر بدستور قائم ہے۔ تاہم اس حوالے سے حتمی اعلان فریقین کے تحفظات دور کرنے کے بعد ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے حوالے سے پاکستانی انڈسٹری کے تحفظات ہیں جنھیں دور کیا جا رہا ہے۔ بھارت پاکستان کو پہلے ہی پسندیدہ ترین ملک قرار دے چکا ہے۔ تمام تر سرحدی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارتی عمل جاری ہے۔

جو خوش آیند امر ہے لیکن پاکستان کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے باوجود بھارت روایتی دشمنی کے حصار سے باہر نہیں نکل سکا‘ سرحدوں پر کشیدگی کا آغاز بھی اسی کی جانب سے ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے چند پاکستانی فوجی شہید ہو گئے، بھارت کبھی کنٹرول لائن پر اور کبھی ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ کر کے دوستی اور امن کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کو نقصان پہنچاتا اور روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا الزام پاکستان پر دھر دیتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے طرز عمل کا اظہار بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی کی میڈیا سے ہونے والی اس گفتگو سے واضح ہو جاتا ہے جس میں انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی وزارت نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان سے حالات کو معمول پر لانے میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی کنٹرول لائن پر حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا تھا۔ ممکن ہے بھارتی حکومت میں شامل ایک گروہ پاکستان سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہو مگر حالات و واقعات اس امر کے عکاس ہیں کہ انتہا پسندوں کا گروہ زیادہ طاقتور ہے اور حکمران اسے کسی قیمت پر ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ آخر بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان سے دوستی کی راہ میں کانٹے بونے والا ایسا بیان کس کو خوش کرنے کے لیے دیا۔ بھارتی فوج کے اندر بھی ایسا گروہ شامل ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان سے دوستی سے اس کے مفادات کو زک پہنچے گی اور جب بھی پاکستان سے دوستی کی بات چلتی ہے یہ گروہ سرحدوں پر حالات کشیدہ کر دیتا ہے۔ پاکستان کو صرف پسندیدہ ترین ملک قرار دینے سے بات نہیں بنے گی، بھارت کو اپنی صفوں میں چھپے اس انتہا پسند ٹولے کو بھی لگامیں ڈالنی ہوں گی۔

دوسری جانب بھارت کے ساتھ تجارت میں پاکستانی صنعتکاروں کو شدید تحفظات ہیں‘ جن کا خیال ہے کہ بھارتی مال ارزاں ہونے کے باعث پاکستانی صنعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی لوڈشیڈنگ نے پاکستانی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ خام مال مہنگا ہونے اور مزدوروں کی اجرت زیادہ ہونے سے بھی پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ جس کے باعث پاکستانی مصنوعات بھارتی مصنوعات کے مقابل مہنگی ہیں۔

اس سلسلے میں وزیر تجارت کا یہ کہنا صائب ہے کہ ہمیں اپنے صنعتکاروں اور تاجروں کے مفادات مقدم ہیں اس لیے بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کا فیصلہ صنعتکار و تاجر برادری کی مشاورت سے ہو گا۔ بھارت کے ساتھ جاری تجارت میں بھی یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اس میں بھارت کا پلڑا بھاری ہے اور پاکستان خسارے میں ہے۔ ان تمام تر تلخیوں اور تحفظات کے باوجود بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان مستقبل میں تجارت بڑھنے کا امکان موجود ہے۔لہٰذا پاکستان کو بھارتی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی خامیوں کو دور کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔