کبھی کبھی

سائرہ اکبر  جمعـء 1 فروری 2013

ایک محفل میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے خواتین وحضرات یکجا تھے اسی لیے ہر موضوع پر ہر انداز سے اظہار خیال کیا جارہا تھا، اچانک ایک دانشور قسم کے صاحب گویا ہوئے ’’آپ لوگوں نے کبھی غور کیا کہ اس لفظ ’کبھی کبھی‘ میں ایک عجب طرح کی دلکشی و رعنائی پوشیدہ ہے، اگر نہیں تو پھر اسے اپنی روزمرہ زندگی میں آزمائیے، آپ کو خود اس کی انفرادیت، جاذبیت و افادیت کا اندازہ ہوجائے گا‘‘۔ جس پر ایک نئی بحث چھڑگئی جو کافی تفصیل طلب ہے لہٰذا اس سے قطع نظر جو بات ہمیں ان سب میں بے حد بھائی وہ یہ لفظ ’’کبھی کبھی‘‘ ہی ہے کہ درحقیقت زندگی میں کیا گیا کوئی منفرد عمل، کوئی بات، کوئی ملاقات اور کوئی تجربہ کبھی کبھی ہی اچھا لگتا ہے جو دل و دماغ کو نہ صرف ازسرنو ترو تازہ کردیتا ہے بلکہ اس کے ہم پر دیر تک اثرات بھی رہتے ہیں۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زمانے کی انتھک محنت مشقت، بے تحاشا بھاگ دوڑ اور گوناگوں مصروفیات جب ہمیں بے طرح نڈھال کردیں، نت نئے بڑھتے ہوئے مسائل کے انبار ہمیں اعصابی طور پر شل کرکے رکھ دیں، جس کی بنا پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہونے لگیں تو ایسے میں بالکل اچانک کسی مونس و ہمدم کا ایک دم سے فون آجائے تو ایسے اعصاب شکن لمحوں میں یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے اس مہربان شخص کے اس اچانک آجانے والے فون سے ساری پریشانیاں تمام ذہنی الجھنیں ایک دم سے کم سی ہوگئی ہوں اور سماعتوں سے اس بہی خواہ کی آواز ٹکراتے ہی جسم و جاں کی کھوئی ہوئی توانائیاں پھر سے بحال ہونے لگی ہوں، اسی طرح جب گردوپیش کے حالات کے پیش نظر انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں جواب دینے لگتی ہیں جس کے باعث اس ٹینشن زدہ ماحول میں اداسی و افسردگی غالب آنے لگتی ہے تو ان جاں گسل لمحوں میں بھی ہمارا دھیان ان رفیقوں کی جانب جاتا ہے جن سے ملنے پر ہمیں ہمیشہ حوصلہ ملتا اور اپنے اندر جینے کی ایک نئی امنگ سی محسوس ہوتی ہے۔

اسی حوالے سے دیکھا جائے تو ہم اپنے ربّ کے سامنے پانچ بار سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اپنے اور اپنے عزیز و اقارب دوستوں کے لیے بارہا اس کے (ربّ العزت) کے آگے دعاؤں کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں، پر ایسا زندگی میں بہت کم ہوتا کہ ہم کسی انجان شخص کے لیے باری تعالیٰ سے دعا کے طلب گار ہوں کہ اس سے پہلے اس اجنبی شخص کو واقعی اس کی ضرورت بھی ہو تو کبھی آزما کر دیکھیں کہ اگر ہماری اﷲ تعالیٰ سے مانگی گئی دعا شرف قبولیت حاصل کرے جس سے اس انجان شخص کی ساری مشکلات، پریشانیاں دور ہوجائیں تو یہ دیکھ کر عجب طرح کی طمانیت ہمیں اپنے اندر اترتی محسوس ہوگی۔

غالباً یہ بات انسانی سرشت میں بھی شامل ہے کہ وہ یکسانیت اور تسلسل کے ساتھ ایک ہی طرح کے حالات و ماحول میں رہتے رہتے بہت جلد اکتا جاتا ہے۔ خواہ وہ تسلسل حسین موسموں ہی کا کیوں نہ ہو اس کا کچھ تجربہ ہمیں بھی ہے کہ ہم جب سنگاپور میں رہائش پذیر تھے تو وہاں آئے دن کی شدید بارشیں اور کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی بادلوں کی گھن گرج جو دلوں کو سہما کر رکھ دیتی تھی تو ابتدا میں تو یہ سب ہمیں بے حد رومان پرور لگتا تھا مگر پھر رفتہ رفتہ نجانے کیوں یہ مسلسل برستی برساتیں دل کو مسرور کرنے کے بجائے اداس کرنے لگیں کہ شاید ہم اہل کراچی ہردم برستی رحمتوں بھری برکھا کے عادی نہیں ہیں۔

اسی لیے بیرون ملک کی مسلسل اور متواتر ہونے والی بارشیں ہمیں راس نہیں آرہی تھیں، تو اس تناظرکو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے حلقہ احباب میں شامل ایک زندہ دل خاتون فرمانے لگیں کہ اس طرح دیکھا جائے تو ایک ہی ڈگر پر چلتی ہوئی ازدواجی زندگیاں بھی جمود کا شکار ہوجاتی ہیں، اس میں بھی کبھی کبھی بدلاؤ کی اشد ضرورت ہے جس کے بعد وہ Dr. James Dobson کی تحریروں کا حوالہ دینے لگیں، خاص کر اس ایک تحریر کا جس کا عنوان Creative Ways To Date Your Spouse تھا۔ اتفاق سے جس تحریر کا وہ ذکر کر رہی تھیں وہ ہم سنگاپور میں رہائش کے دوران پڑھ چکے تھے، ان کی بے شمار تحریریں وہاں ہماری نظروں سے گزری تھیں۔ وہ ایک میگزین میں Focus on The Family کے عنوان سے زیادہ تر خانگی امور پر لکھتے تھے، بہرطور دیے گئے عنوان میں انھوں نے ایک کتاب کا تذکرہ کیا تھا جس کے رائٹر تھے Dave and Claudia۔ اس میں 52 Dates for you and your mate”
“in it they list some great creative ways to put a little romance into your marriage”

تو انھی نکات میںسے وہ بڑی گرم جوشی سے چند کے بارے میں بتانے لگیں جسے اپناکر ان کے بقول سب اپنی روکھی پھیکی ازدواجی زندگیوں میں پھر سے جھلملاتے رنگ بھر سکتے ہیں جیسے کہ کبھی کبھی ساتھ مل کر کوئی نئی ڈش تیار کی جائے، اس کے لیے درکار اشیاء کی مل کر لسٹ بنائیں، پھر ساتھ مل کر اس کی خریداری بھی کریں اور ڈش کے تیار ہونے پر اسے اپنی فیملی کے ساتھ مل کر کھائیں۔ اس کے علاوہ ان بھولی بسری یادوں کو دہرائیں جن کی یادیں آج بھی سرد پڑتے ہوئے جذبوں کو گرمادیں یا پھر ان پارکوں، ریسٹورنٹ اور تھیٹرز میں کبھی کبھار وقت نکال کر ساتھ مل کر جائیں۔

جہاں شادی کے ابتدائی دنوں میں کبھی تسلسل کے ساتھ جایا کرتے تھے، اس کے ساتھ ساتھ ان پرانی البمز اور تصویروں کو جن میں دونوں کے حوالے سے خوشگوار یادیں منسلک ہوں انھیں بھی کبھی کبھار ایک ساتھ خوشگوار موڈ میں دیکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس طرز کے عمل میں حائل دوریوں و اختلافات کو کم کرنے کا سبب بنتے ہیں، ان محترمہ کی رومانی جذبات سے بھرپور گفتگو سن کر ہم چند لمحوں کے لیے دنگ رہ گئے، مگر ساتھ ہی انھیں ان کے ان گراں قدر خیالات و افکار پر انھیں بے حد سراہا بھی لیکن پھر ہم دل میں سوچنے لگے کہ ان تمام تر تجاویز پر اسی صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے کہ جب فریقین باہم اس پر رضامند بھی ہوں ورنہ محض ایک اکیلا شخص 52 طریقے تو رہے ایک طرف کسی ایک تجویز پر بھی بنا اپنے ساتھی کی رضامندی کے بغیر عمل نہیں کرسکتا۔

اور کالم کے اختتام پر اس سے متعلق نہ ہونے کے باوجود اس دکھ و خدشے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں جس سے درحقیقت ہمارا یہ ملک عزیز آج کل دوچار ہے کہ

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطہ زمین پر
وہی خطہ زمین ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

تو اس شعر کی روشنی میں صدق دل سے یہی دعا ہے کہ باری تعالیٰ اس ارض پاک پر پھر سے رحمتوں کا نزول ہو اور یہ ہمیشہ ہر آفات و بلا سے محفوظ رہے (آمین)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔