یہ کمال لوگ ہیں

جاوید چوہدری  جمعرات 22 جون 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

گوندل برادرز کی’’غضب کرپشن کی عجب کہانی‘‘ ایک ہوش ربا داستان ہے‘ یہ کہانی ظفر گوندل سے شروع ہوئی اور نذر محمد گوندل پر آ کر ختم ہوئی اور ندیم افضل چن اب اس کہانی کو آگے لے کر چلیں گے۔

ظفر گوندل نے سی ایس ایس کیا‘ یہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس گروپ میں بھرتی ہوئے اور یہ مختلف محکموں میں مارتے دھاڑتے اور کھاتے کمائے ہوئے 2010ء میں ای او بی آئی (ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹ انسٹیٹیوشن) میں پہنچ گئے‘ کنور واحد خورشید ان کے کورس میٹ اور پرانے دوست تھے‘ یہ کسٹم ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ 2010ء میں بیسویں گریڈ میں تھے‘ ظفر گوندل کنور خورشید کو ایف بی آر سے ای او بی آئی میں لے آئے‘ یہ انسٹی ٹیوٹ میں ڈائریکٹر جنرل انویسٹمنٹ لگا دیے گئے اور اس کے بعد کرپشن کی گنگا بہنے لگی‘ ظفر گوندل اور کنور خورشید نے پہلا ہاتھ ایک ارب روپے کا مارا‘ ان دونوں نے اپنے ایک تیسرے دوست کرنل (ریٹائرڈ) اسد علی مرزا کی کراچی میں ایک ارب روپے مالیت کی زمین دو ارب روپے میں خرید لی‘ کرنل اسد مرزا دانیال عزیز کے پھوپھا ہیں‘ کرنل صاحب نے 94-1993ء میں سندھ حکومت سے ملیر کراچی میں چار ایکڑ کا پلاٹ 19 لاکھ 36 ہزار روپے میں لیز پر لیا تھا‘ یہ پلاٹ دانیال عزیز کی پھوپھی نگہت اسد اور پھوپھی زاد بہن ماہم اسد کے نام تھا‘ حکومت سندھ نے 2004ء میں کراچی کی تمام لیز منسوخ کر دیں۔

یہ پلاٹ بھی منسوخ ہو گیا‘ یہ پلاٹ بعد ازاں کرنل اسد کو 77 لاکھ روپے میں دوبارہ الاٹ کر دیاگیا مگر کرنل صاحب نے رقم جمع نہ کرائی یوں یہ معاملہ عدالتوں میں چلا گیا‘ پلاٹ ناقابل استعمال تھا‘ اس تک راستہ بھی موجود نہیں تھا‘ کنور خورشید اور ظفر گوندل نے یہ پلاٹ ای او بی آئی کے لیے دو ارب 23 لاکھ اور 23 ہزار روپے میں خرید لیا‘ کرنل اسد کو دس فیصد ایڈوانس دے دیا گیا‘ کرنل صاحب نے اس ایڈوانس سے سندھ حکومت کے بقایا جات بھی ادا کر دیے اور سول ایوی ایشن کو ظاہری اور باطنی رقم ادا کر کے پلاٹ تک راستہ بھی لے لیا اور یوں ای او بی آئی نے کرنل اسد کو ساری رقم ادا کر دی‘ کرنل صاحب سے طے ہوا تھا یہ آدھی رقم یعنی ایک ارب روپے کنور خورشید اور ظفر گوندل کو واپس کریں گے‘ کرنل اسد نے یہ رقم اپنی بیگم اور صاحبزادی کے اکاؤنٹس سے کراچی کے کسٹم کلیئرنس ایجنٹ شیخ فرخ سلیم اور قیصر چٹھہ کے اکاؤنٹس میں شفٹ کردی۔

شیخ فرخ سلیم کنور خورشید کا ذاتی دوست اور قیصر چٹھہ ظفر اقبال گوندل کا جگری یار تھا‘ کرنل صاحب نے 10 چیکوں کے ذریعے 91 کروڑ 2 لاکھ روپے ادا کیے‘ باقی 9 کروڑ روپے نقد دیے گئے‘ شیخ فرخ سلیم کاروباری شخص تھا‘ اس نے ایک دن سوچا رقم کنور اور گوندل لے گئے ہیں اور پھنس میں جاؤں گا چنانچہ وہ گھبرا گیا‘ اس نے ایف آئی اے کراچی میں اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا‘ وعدہ معاف گواہ بنا اورکرنل اسد کی ساری ڈیل کھول کر رکھ دی اور یوں غضب کرپشن کی یہ عجب کہانی دنیا کے سامنے آ گئی‘ ایف آئی اے نے کرنل اسد‘ ان کی بیگم اور بیٹی کو گرفتار کر لیا‘ کرنل اسد کی بیگم علیل اور وہیل چیئر پر تھیں‘ انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا جب کہ کرنل اسد اور ان کی صاحبزادی ماہم ایف آئی اے کی حراست میں رہیں‘ ان دونوں نے اعتراف جرم کر لیا‘ اس دوران پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آ گئی‘ کرنل اسد کی اہلیہ نگہت اسد نے اپنے بھانجے دانیال عزیز سے مدد مانگی لیکن دانیال نے صاف انکار کر دیا یوں دونوں خاندانوں کے درمیان رنجش پیدا ہو گئی اور یہ ناراضی اب تک موجود ہے۔

کرنل اسد کی گواہی پر 24 جون 2013ء کو کنور واحد خورشید کو کراچی سے حراست میں لے لیا گیا‘ کنور کمزور آدمی ثابت ہوا‘ اس نے چند دن میں غضب کرپشن کی عجب کہانی کی پوری داستان کھول دی‘ کنور واحد خورشید کے انکشافات تہلکہ خیز تھے‘ یہ انکشافات اس وقت سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہیں‘ مجھے یہ فائل دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ میں اس میں سے چند انکشافات آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ کنور خورشید نے ایف آئی اے کو بیان دیا‘ 2011ء میں چوہدری شجاعت حسین کے بھائی چوہدری وجاہت حسین مین پاور‘ اوورسیز پاکستانیز اور ہیومین ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے وزیر بن گئے‘ ای او بی آئی چوہدری وجاہت کا ماتحت ادارہ تھا‘ نذر محمد گوندل بھی وفاقی وزیر تھے‘ یہ دونوں وزیر ہمارے ساتھ تھے چنانچہ ہم نے اندھا دھند کارروائیاں شروع کر دیں‘ ہم نے پہلی پراپرٹی 16 ستمبر 2011ء کو لاہور میں خریدی‘ یہ فقیر پلازہ تھا‘ یہ جائیداد ہم نے کمپنی کے ڈائریکٹر نواز احمد سے 25 کروڑ روپے میں خریدی ‘ نواز احمد نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں ٹھیکیدار تھا‘ یہ 2004ء میں ظفر گوندل کا دوست بنا‘ ظفر گوندل اس وقت نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں ممبرتھا‘ ظفرگوندل جوانی میں فوج میں بھرتی ہوا تھا‘ یہ بعد ازاں فوج سے سول سروس میں آ گیا۔

نواز احمد کا ایک بھائی کاکول اکیڈمی میں گوندل کا کورس میٹ تھا‘ یہ کورس میٹ نواز احمد اور گوندل کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنااور یہ دونوں این ایچ اے میں مل کر کام کرنے لگے‘ میں یعنی کنور خورشید ظفر گوندل کے ساتھ لاہور گیا‘ ہم ڈنر پر نواز احمد سے ملے‘ گوندل نے نواز احمد سے شکوہ کیا تم نے سڑک کے آخری ٹھیکے میں مجھے میرا حصہ نہیں دیا تھا‘ دونوں کے درمیان تکرار ہوئی اور آخر میں فیصلہ ہوا ای او بی آئی لاہور میں پانچ کروڑ کی پراپرٹی 25 کروڑ میں خریدے گی اور ظفر گوندل اس ڈیل سے اپنا پرانا حساب برابر کر لے گا یوں میں نے ظفر گوندل کے حکم پر یہ پراپرٹی خرید لی‘ دوسری پراپرٹی 36۔سی مین لوئر مال لاہور تھی‘ یہ پراپرٹی 8 کروڑ 40 لاکھ روپے میں خریدی گئی تھی‘ یہ پراپرٹی خرم خلیق کی ملکیت تھی‘ خرم خلیق ایف سی کالج میں ظفر گوندل کا کلاس فیلو تھا۔

یہ امریکا میں رہتا تھا‘ یہ دوبار لاہور آیا‘ پرائیویٹ پارٹیوں میں ہم دونوں سے ملا‘ ڈیل ہوئی اور ہم نے اس سے آٹھ کروڑ 40 لاکھ روپے میں جائیداد خرید لی‘ یہ پراپرٹی بھی مارکیٹ سے چار گنا مہنگی خریدی گئی تھی‘ ہم نے تیسری پراپرٹی لاہور میں عامر شفیع اکرم سے خریدی ‘ یہ پراپرٹی رنگ روڈ لاہور پر ڈی ایچ اے انٹر چینج پر واقع تھی‘ یہ جائیداد ایک ارب 43 کروڑ 70 لاکھ روپے میں خریدی گئی تھی‘ عامر شفیع اکرم لاہور کا نامور بزنس مین اور رئیل سٹیٹ ڈویلپر ہے‘ یہ عامر مغل کے نام سے مشہور ہے‘ عامر مغل ’’مغل پاکستان‘‘ نامی کمپنی کا مالک بھی ہے ‘ یہ بھی این ایچ اے کے دور میں ظفر گوندل کا دوست بنا تھا‘ یہ دونوں اس دور میں مل کر کام کرتے رہے تھے‘ ہم نے پہلے عامر مغل سے ڈیڑھ ارب روپے میں یہ جائیداد خریدی اور پھر ہم نے عامر مغل ہی کی کمپنی کو اس جائیداد کی تعمیر کے لیے چار ارب 44 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دے دیا‘ ساڑھے چار ارب روپے کی اس عمارت کی ڈیزائننگ کا ٹھیکہ ظفر گوندل کے دوست نواز احمد کی کمپنی’’ کنگ کریٹ پراجیکٹ مینجمنٹ‘‘ کو چھ کروڑ روپے میں دے دیا گیا یوں یہ پراجیکٹ ای او بی آئی کو پونے سات ارب روپے میں پڑا اور ہم نے اس میں ٹھیک ٹھاک کک بیکس حاصل کیں۔

کنور خورشید نے انکشاف کیا ہم نے 18 جنوری 2012ء کو ڈی ایچ اے راولپنڈی سے 15 ارب 74 کروڑ 37 لاکھ روپے میں جائیداد خریدی‘ یہ ڈیل چوہدری وجاہت حسین اور ظفر گوندل نے کی تھی‘ کنور خورشید کے بقول جنرل اشفاق پرویز کیانی اس وقت آرمی چیف  تھے‘ چوہدری وجاہت حسین کو کوارٹر جنرل ماسٹر کے دفتر بلایا گیا ‘ ظفر گوندل کو بھی بعد ازاں وہاں بلالیا گیا‘ یہ دونوں وہاں آتے اور جاتے رہے یہاں تک کہ یہ ڈیل فائنل ہو گئی اور ہم نے ای او بی آئی کے فنڈ سے جنرل کیانی کے بھائی کامران کیانی کی کمپنیوں کو پونے 16 ارب روپے کی ادائیگیاں کر دیں‘ بریگیڈیئر سعد اللہ فاطمی اس وقت ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر تھے‘ یہاں یہ بات ذہن میں رہے نیب نے کنور واحد خورشید کے اس انکشاف کے بعد کامران کیانی کے خلاف تفتیش شروع کر دی تھی‘ تحقیقات کے دوران کامران کیانی کے خلاف مزید حقائق بھی سامنے آئے‘ جنرل راحیل شریف بھی کیانی برادرز کا احتساب چاہتے تھے چنانچہ فوج نیب کے ساتھ تعاون کرتی رہی مگر اس دوران کامران کیانی ملک سے فرار ہو گئے۔

یہ اس وقت بھی ملک سے باہر ہیں اور نیب کوشش کے باوجود انھیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی جب کہ جنرل کیانی کا دعویٰ ہے ’’میرا میرے بھائیوں کے کاروبار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا‘‘ لیکن کنور خورشید کے انکشافات میں یہ تعلق نظر آتا ہے ورنہ چوہدری وجاہت اور ظفر گوندل کو جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے دفتر کیوں بلایا جاتا اور یہ ڈیل وہاں کیوں فائنل ہوتی‘ جنرل راحیل شریف کے دور میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے دفتر کی انکوائری بھی ہوئی تھی اور متعلقہ افسروں کے بیانات بھی ریکارڈ ہوئے تھے تاہم آپ اس ڈیل سے ظفر گوندل کی رسائی اور اس رسائی کے پیچھے چھپی داستانوں کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘کنور خورشید نے انکشاف کیا ہم نے 13 جنوری 2012ء کو سکھر میں 12 کروڑ 90 لاکھ میں ایک پلاٹ خریدا‘ یہ پلاٹ یعقوب امین کی ملکیت تھا‘ یہ ڈیل ای او بی آئی کی انویسٹمنٹ کمیٹی کے کنوینئر محمد اقبال داؤد نے کرائی تھی‘ اقبال داؤد کمیٹی کے پرائیویٹ ممبر تھے‘ یہ سکھر سے تعلق رکھتے تھے اور یہ بعد ازاں 2013ء میں سندھ کی نگران حکومت میں خوراک کے صوبائی وزیر بنے‘ اقبال داؤد نے اس ڈیل میں ایک کروڑ روپے رشوت وصول کی‘ اقبال داؤد کی کرپشن کی یہ کہانی بعد ازاں خورشید شاہ کے نوٹس میں آئی اور شاہ صاحب نے ظفر گوندل کے سامنے شدید احتجاج کیا (انکشافات ابھی جاری ہیں)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔