ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

ایاز خان  جمعرات 22 جون 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

یہ ہنگامہ سا کیوں برپا ہے۔ یہ شور تھمنے کا نام کیوں نہیں لیتا۔ وجہ بہت معمولی ہے۔ وطن عزیز میں پہلی بار ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نامی ’’مخلوق‘‘ طاقتور ترین جمہوری لیڈر اور اس کے خاندان کے افراد کو طلب کر کے ان سے سوال جواب کرنے کی جسارت کر رہی ہے۔ تاریخ سے یاد آیا جب وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تو حکومتی نمایندوں نے کہا دیکھیں! وزیراعظم نے تاریخ رقم کر دی ہے۔ اس کے جواب میں سوشل میڈیا پر کسی منچلے نے لکھا تھا میاں صاحب! تاریخ رقم نہیں کرنی، رقم واپس کرنی ہے۔ سوشل میڈیا چونکہ مادر پدر آزاد ہے اس لیے وہاں اس قسم کے توہین آمیز جملے پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں پہلے بھی بنتی رہی ہیں، ان کی مرتب کردہ رپورٹس بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن ایسا ہنگامہ پہلے کبھی کیوں نہیں ہوا؟ ایسا ہنگامہ پہلے ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اول تو جے آئی ٹی مجرموں کے خلاف بنائی جاتی رہیں اور ان کی مرضی سے جو رپورٹس سامنے آئیں انھیں چیلنج کرنے والا خود اتنا کمزور کہ اس کی کون سنے۔ عزیر بلوچ جیسے افراد بے شک بہت طاقتور ہوتے ہیں مگر ریاست کے سامنے ان کی حیثیت ایک عام ملزم سے زیادہ نہیں ہوتی۔جے آئی ٹی کی موجودہ جسارت سے پہلے ایک 7رکنی انکوائری کمیٹی کی گستاخی کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا کی سربراہی میں ایک کمیٹی کا قیام ’’نیوز لیکس‘‘ کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ وہی عامر رضا ہیں جنھیں 2013ء کے نگران سیٹ اپ کے لیے ن لیگ نے بطور وزیراعلی پنجاب نامزد کیا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ نجم سیٹھی نگران وزیراعلیٰ بن گئے۔ عامر رضا کی سربراہی پر اپوزیشن نے سوالات اٹھائے تھے مگر جواب میں کہا گیا کہ وہ اچھی شہرت کے حامل ہیں اس لیے انھیں برداشت کیا جائے۔

ان کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی نے زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی ہفتوں کے کام کو تقریباً 6ماہ میں مکمل کیا۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان سے جب پوچھا جاتا تھا کہ انکوائری رپورٹ میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے تو وہ فرماتے تھے کہ کمیٹی کے سربراہ نے شرط رکھی ہے کہ جب تک تمام ارکان رپورٹ کے تمام مندرجات پر اتفاق رائے نہیں کریں گے یہ رپورٹ پیش نہیں کی جائے گی۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ متفقہ رپورٹ پیش کر دی گئی۔ اس رپورٹ کے نتیجے میں راؤ تحسین کی شکل میں ایک بکرا پیش کیا گیا جس کی قربانی قبول کر لی گئی۔ قربانی کا یہ بکرا انصاف کے حصول کے لیے اب عدالت جا پہنچا ہے۔ راؤ تحسین کہتا ہے حضور! جو سزا دی وہ قبول مگر جرم تو بتا دیں۔ حالانکہ موصو ف کو جرم ضعیفی کی سزا کا بخوبی علم ہے۔

اتفاق رائے کی بات ہو رہی تھی تو واضح رہے کہ جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی اور ایم آئی سے تعلق رکھنے والے دو ارکان نیوز لیکس کی انکوائری کمیٹی کی متفقہ رپورٹ کا حصہ تھے۔ پھر آپ کیسے بھول گئے کہ یہ وہی جے آئی ٹی ہے جس کی سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل کے اعلان پر مٹھائیاں کھائی اور بانٹی۔ تشویش کی وجہ غالباً یہ ہے کہ جے آئی ٹی اتفاق رائے سے راؤ تحسین جیسا قربانی کا بکرا پیش نہیں کر سکے گی۔ یہاں تو سارا معاملہ ہی ملک کے طاقتور ترین خاندان کا ہے۔ ٹیم کے دو ارکان پر ہماری حکومت اور حکمران خاندان کو تشویش ہے کہ وہ پتہ نہیں کیا کر دیں۔ جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی ساری کوششیں اب تک تو بے کار رہی ہیں۔ ٹیم کے ارکان اور ججوں کو دھمکانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ایک ہی خاندان کے احتساب کا پراپیگنڈہ بھی زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکا۔ انکوائری کمیٹی اور انویسٹی گیشن ٹیم کے ساتھ ساتھ جوڈیشل کمیشن بنانے کا رواج بھی ہمارے ہاں بہت عام ہے۔ کون بھول سکتا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ایک جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا۔ یہ یک رکنی جوڈیشل کمیشن جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل تھا۔ اس نے اپنی انکوائری مکمل کرنے کے بعد جب رپورٹ دی تو تہلکہ مچ گیا۔ وہ جو کہتے تھے اس رپورٹ میں ہماری طرف اشارہ بھی ہوا تو ہم مستعفی ہو جائیں گے۔ انھوں نے اس رپورٹ کو ہی دبا لیا۔ اس کے بعد صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی معاونت سے ایک 5رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس نے توقعات کے عین مطابق کلین چٹ دے دی۔ اس جے آئی ٹی کو نیوزلیکس کی انکوائری کمیٹی کی طرح زیادہ تردد بھی نہیں کرنا پڑا۔

پاناما کا ہنگامہ نہ تھمنے کی وجہ یہی ہے کہ جے آئی ٹی میں ’’جانبداری‘‘ کے جراثیم پائے جا رہے ہیں۔ جو جے آئی ٹی’’میرٹ‘‘ پر حکمرانوں کا ساتھ نہ دے وہ غیر جانبدار ہو ہی نہیں سکتی۔ میری بات پر یقین نہیں تو دانیال عزیز سے طلال چوہدری اور طلال سے دانیال تک کے بار بار دیے گئے بیانات ملاحظہ فرمالیں۔ ان بیانات میں دیگر ن لیگیوں کے ردعمل کا تڑکا بھی لگا لیں تو جے آئی ٹی کی ساری ’’جانبداری‘‘ کھل کر سامنے آ جائے گی۔ ن لیگیوں کی ’’جل بن مچھلی ‘‘والی حالت بے وجہ نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ بھی ان کے کسی اعتراض کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ حسین نواز کی تصویر لیک معاملے پر کمیشن کی تشکیل اور جے آئی ٹی میں دوران تفتیش آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ رکوانے کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے جسٹس صاحبان کے ریمارکس بھی بڑے سخت ہیں۔ انھیں یہ بھی علم ہو گیا ہے کہ حکومت کس طرح سے اپنے حق میں آرٹیکل چھپواتی ہے۔ عدالت کو لیگیوں کی چیخیں بھی سنائی دینے لگی ہیں۔ ان کے طریقہ کار کی سمجھ بھی آرہی ہے۔ پاناما کیس کی تحقیقات آخری مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ آج 45 دن پورے ہونے پر جے آئی ٹی اپنی تیسری رپوٹ پیش کر دے گی۔ اس کے بعد آخری 15دن کی کارروائی شروع ہو گی۔ 60 دن کی مدت 7جولائی کو مکمل ہونی ہے۔ شریف خاندان کے ساتھ ساتھ ایس ای سی پی کے خلاف بھی باقاعدہ انکوائری شروع ہو گئی ہے۔ ایس ای سی پی پر ریکارڈ میں تبدیلی کا الزام ہے۔

پاناما کیس کے بعد بہت درس دیا گیا کہ جو ہونا تھا ہو گیا، اب آگے بڑھنا چاہیے۔ اس درس کا مقصد یہ تھا کہ جس نے جتنی کرپشن کرنی تھی کر لی، اب نیا عہد کیا جائے کہ اس کے بعد ملک میں کوئی کرپشن نہیں ہو گی۔ یہ بھی باور کرایا جاتا رہا کہ وائیٹ کالر کرائم پکڑنا تقریباً ناممکن ہے۔ وزیراعظم سپریم کورٹ کے 7رکنی بینچ سے نا اہل تو نہیں ہوئے تھے مگر ان کا بری ہونا ابھی باقی ہے۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد جو چیخیں سنائی دے رہی ہیں وہ کافی خوفناک ہیں۔ حکمران ٹولہ اگر یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ احتساب سمیت ہر شے سے بالاتر ہے تو پھر ایسا ہی ردعمل سامنے آتا ہے۔ کہتے ہیں ملک میں جمہوریت ہے اور آئین کی بالا دستی ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں ہیں تو پھر خوف کس بات کا؟کوئی حکومت یا اس کا سربراہ کسی عدالتی فیصلے کی زد میں آکر اقتدار سے ہٹ جائے تو جمہوریت کو اس سے کیا خطرہ؟جمہوری ملکوں میں مڈ ٹرم الیکشن اور وزیراعظم کی تبدیلی بھی معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے۔

آئین کو خطرہ ہے نہ جمہوریت کے خاتمے کا کوئی خوف! ایسا کچھ بھی نہیں تو پھر یہ پوچھنا تو بنتا ہے۔ ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔