عید کارڈز کا زمانہ

عابد محمود عزام  جمعرات 22 جون 2017

ہمارے معاشرے میں عیدالفطر ہمیشہ سے ایک اہم ترین تہوار رہا ہے، جس کو منانے کے لیے رمضان المبارک کے آغاز سے ہی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں۔ ماضی میں اپنے پیاروں، رشتے داروں، عزیزواقارب اوردوست واحباب کو عیدکارڈز ارسال کرنے کی روایت انھیں تیاریوں کا حصہ ہوا کرتی تھی، جوجدید ٹیکنالوجی کی نذر ہوگئی ہے۔ جس طرح بچپن کی اور بہت سی یادوں کی مٹھاس آج بھی محسوس ہوتی ہے،اسی طرح عیدکارڈز بھیجنے کی روایت بھی دل ودماغ پر انمٹ نقوش چھوڑگئی ہے، جس کو جب بھی یاد کریں تو محبت، خلوص اوررشتوں کی سچائی کا ایک احساس ہوتا ہے، جو آج ڈھونڈنے سے مشکل ہی ملتا ہے۔ عیدکارڈ بھیجنے اورعیدکارڈ ملنے کے لمحات بھیجنے اور وصول کرنے والے دونوں کے لیے باعث مسرت ہوا کرتے تھے۔

بچپن میں جس طرح عزیزواقارب کو عیدکارڈ دینے کا شوق ہوتا تھا، اسی طرح ان سے عید کارڈ وصول کرکے بے انتہا خوشی بھی ہوتی تھی۔ ٹیچرز، دوستوں، رشتے داروں اورکزنزکو بہت ہی اہتمام کے ساتھ عید کارڈ بھیجے جاتے تھے۔ ماہ رمضان شروع ہوتے ہی یہ فکر دامن گیر ہوجایا کرتی تھی کہ کب کارڈ لینے جائیں گے اورکب بھیجیں گے۔ پہلے اچھے عید کارڈ کے انتخاب میں اچھا خاصا وقت صرف کیا جاتا تھا اور مختلف اسٹالوں میں گھوم پھرکر پسند کے کارڈ منتخب کیے جاتے تھے۔

رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی ملک بھرکے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کی مارکیٹوں اور بازاروں میں خصوصی اسٹالز سج جاتے تھے، مہینے کے وسط اور آخری عشرے تک پہنچتے پہنچتے ان کی خریداری اپنے عروج کو پہنچ جاتی تھی۔ عید کارڈز کے ساتھ گفٹ بھی فروخت ہوا کرتے تھے، جن میں چین، لاکٹ، پرفیوم، پین، رومال، گھڑی اور دیگرگفٹ پیک شامل ہو ا کرتے تھے۔ اپنے دوستوں اور عزیزواقارب کی جانب سے ملنے والے عیدکارڈز کا بہت سے افراد باقاعدہ ریکارڈ رکھتے تھے۔ جب بھی دوستوں کی یادیں تازہ کرنا ہوتیں تو پرانے عید کارڈز نکال کر دیکھ لیا کرتے تھے اور عید کارڈ کے ساتھ پرخلوص تحفے میں ملنے والی اشیاء کو بھی عید کے موقعے پر بہت شوق سے پہنا جاتا تھا۔

عید کارڈ کے تبادلے میںبچے خاص طور پر دلچسپی لیتے اور اس سرگرمی میں پورے اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ بچوں کے عید کارڈزکی انفرادیت، اس کے اندر لکھے گئے نفس مضمون سے بھی ظاہر ہوتی تھی، جو صرف عید مبارک کے پیغام تک محدود نہیں ہوتا تھا۔ عید کارڈز پر کچھ اسلامی تصاویر بھی بنی ہوتی تھیں۔ ان عید کارڈز میں سب اہم چیز اس زمانے میں لکھے جانے والے وہ اشعار تھے، جو پتہ نہیں شاعری کے اصولوں پر پورا اترتے تھے بھی کہ نہیں اور ان کے شاعروں کا بھی کچھ علم نہیں ہوتا تھا، لیکن یہ شعر برسوں تک عید کارڈز پر لکھے جاتے رہے، امید ہے آپ کو بھی کچھ شعر یاد ہوں گے۔

گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی

آپ سے دوستی چھوڑی نہیں جاتی

……

ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں کیک

دوست ہے میرا لاکھوں میں ایک

……

چاول چنتے چنتے نیند آگئی

صبح اٹھ کر دیکھا تو عید آگئی

……

یہ اشعار تو بچوں کے عید کارڈز پر لکھے ہوتے تھے، جب کہ نوجوانوں کے عید کارڈز پر کچھ عمدہ اشعار لکھے ہوتے تھے۔ ان پوسٹ کارڈز اور عید کارڈز پر عمومی طور پر یہ تہنیتی جملے بھی لکھے جاتے تھے: ’’میری اور میرے گھر والوں کی جانب سے آپ کو دلی عید مبارک قبول ہو‘‘، ’’میری دعا ہے اللہ آپ کوایسی ہزاروں عیدیں دیکھنا نصیب کرے‘‘، ’’میرے اور میرے گھر والوں کی طرف سے آپ اورآپ کے گھر والوں کو سویوں والی میٹھی عید مبارک ہو۔‘‘

عید کے موقعے پر عیدکارڈز ہی اپنے پیاروں کو عیدکی مبارک باد کہنے کا اہم ذریعہ ہوتے تھے۔ عیدکارڈز کی ایک بہت بڑی انڈسٹری ہوا کرتی تھی۔ اشاعتی ادارے سارا سارا سال عید کارڈز کی تیاری اور ڈیزائننگ پر کام کرتے تھے۔ اشاعتی اداروں کے درمیان عید کارڈز کی فروخت کے حوالے سے ایک مقابلے کا سا سماں دیکھنے کو ملتا تھا۔ عید کے موقعے پر عید کارڈز کی بہتات کے باعث محکمہ ڈاک ان عید کارڈز کی ترسیل کے لیے خصوصی انتظامات کیا کرتا تھا۔ خاص طور پر لوگ دوسرے شہروں اور بیرون ملک بسنے والے دوستوں اور رشتے داروں کو عام ڈاک اور ائیر میل کے ذریعے عید کارڈ پورے اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے۔ عید کے قریب کے دنوں میں ڈاک خانوں کا عملہ باقی کام چھوڑ کر صرف اور صرف عید کارڈ بذریعہ پارسل/ رجسٹرڈ اور عام ڈاک میں بک کرنے اور رسیدیں کاٹنے میں مصروف عمل ہوتا تھا۔

اس وجہ سے عید کے دنوں میں محکمہ ڈاک کا کام بھی معمول سے بڑھ جاتا تھا اور انھیں عوام الناس کے لیے باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کرنا پڑتا کہ بروقت عید کارڈز کی ترسیل کے لیے فلاں تاریخ تک عید کارڈ سپرد ڈاک کردیے جائیں۔ عید کارڈزکا کاروبار ٹھپ ہونے کے باعث محکمہ ڈاک خانہ جات کو لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، کیونکہ عیدکارڈز کی ترسیل کے دوران ٹکٹوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور بہت سے لوگ عید کے موقعے پر اسٹال وغیرہ لگا کے عارضی طور پر اس سے وابستہ ہو جاتے تھے۔

عید کارڈ کی روایت کا ختم ہونا مہنگائی کے سبب نہیں، بلکہ افراد میں وہ پہلے جیسی محبت اور روایات ہی نہیں رہیں۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عید کارڈ خریدنے مارکیٹ جائے اور پھر اسے اپنے عزیوں کو پہنچائے۔ اب نہ وہ زمانہ رہا، نہ عید کارڈز بھیجنے کا رواج، اب عید کارڈ کی صرف خوبصورت یادیں رہ گئی ہیں۔ وہ صرف کارڈز نہیں تھے، جو ہم اپنے پیاروں کو اس وقت بھیجتے تھے، بلکہ اس میں چھپا وہ پیار اور خلوص تھا، جو تیزرفتار زندگی میں اب کہیں کھوگیا ہے، جو ان کارڈز کے ساتھ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتا تھا۔ دوسری طرف بھی منتظر پیارے اسی پیار سے ان کارڈز کے ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے تھے اور جواب میں وہ بھی پیار بھرا کارڈ بھیجتے تھے۔

اب صورتحال بہت بدل گئی ہے۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اب موبائل فون اور سوشل میڈیا تک عام رسائی کی بدولت لوگ ان ذرایع سے عید مبارک کے پیغامات بھیجنے کو زیادہ سہل اور موزوں سمجھتے ہیں اور عید کارڈ کے تکلفات میں نہیں پڑتے۔ اب عید کارڈز کی جگہ موبائل فونزکی ایس ایم ایس میسیجنگ و ایم ایم ایس سروس نے لے لی ہے۔

موبائل فون کمپنیوں نے اپنے صارفین کی سہولت اور زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنے نیٹ ورک سے منسلک کرنے کے لیے بہت سے سستے پیکیجز متعارف کروائے، جو برق رفتار ہونے کے باعث عید کارڈزکی نسبت فوری طور پر متعلقہ افراد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اب موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دفعہ ہی سب کو روایتی انداز میں عید مبارک کہہ دیاجاتا ہے۔ آج ہمیں عید مبارک کہنے کے اگرچہ بہت سے ذرایع میسر ہیں، لیکن ماضی میں عید کارڈ کے ذریعے اپنے پیاروں کی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کی جو خوشی ہوا کرتی تھی، آج وہ مفقود ہے اور آج انسان اس خلوص اور جذبہ محبت سے محروم ہے، جو عیدکارڈ کے ذریعے کئی دنوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہوئے ہم تک پہنچا کرتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔