آرام کمانے نکلتے ہیں آرام چھوڑ کر!

نبیل ابڑو  جمعـء 23 جون 2017
جب لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں اُس وقت یہ مالشی چند روپوں کی خاطر اپنا سکھ و آرام چھوڑ کر دوسروں کی تھکاوٹ دور کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔

جب لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں اُس وقت یہ مالشی چند روپوں کی خاطر اپنا سکھ و آرام چھوڑ کر دوسروں کی تھکاوٹ دور کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔

دن ڈھلتے ہی تیل کی بوتلیں اُٹھائے چھن چھن کی آوازیں کرتے یہ لوگ اپنے روزگار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں، کوئی فٹ پاتھ پر قالین بچھائے، کچھ ہوٹلوں پر بیٹھے تو کچھ بس اور ٹرک کے اڈوں پر اپنے گاہک کی راہیں تکتے رہتے ہیں۔ جب لوگ نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں تو اُس وقت یہ مالشی چند روپوں کی خاطر اپنا سکھ و آرام چھوڑ کر دوسروں کی تھکاوٹ دور کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔

مغربی ممالک جہاں نت نئی ایجادات کرکے کبھی چاند پر پہنچ رہے ہیں تو کبھی کائنات کے راز افشاں کررہے ہیں، وہیں ہم اِن ایجادات سے کوسوں دور اپنی پرانی روایات پر گامزن ہیں، اگرچہ ہم لوگ اکثر پرانی روایات پر چل رہے ہیں لیکن کبھی کبھار یہ پرانی روایات ہمارے لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔ اِنہی پرانی روایات میں سے ایک روایت مالش کی بھی ہے۔

مالشی حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں تیل کی بوتلیں اٹھائے روزگار کے لئے گھوم رہے ہوتے ہیں، یہ مالشی ریلوے اسٹیشن، ہائی وے، بس اور ٹرک کے اڈوں پر ایرانی قالین اور تیل کی بوتلیں ہاتھ میں تھامے آپ کو اکثر نظر آئیں گے۔ سورج غروب ہوتے ہی وہ تیل کی بوتلیں اٹھائے اپنے روزگار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ کوئی ہالا ناکہ کے ہوٹلوں پر بوتلوں سے چھن چھن کی آواز نکال کر لوگوں کی تھکاوٹ دور کرتے ہیں تو کچھ اسٹیشن روڈ پر مختلف شہروں سے آنے والے مسافروں کی مالش کرکے انہیں ایک دم تازہ کردیتے ہیں۔

ساری رات بوتلیں تھامے یہ مالشی کام کرکے صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی سوجاتے ہیں۔ ہم نے دوسروں کی تھکاوٹ دور کرنے والے مالشیوں کا حال احوال جانا ہے جو درج میں تحریر ہے۔

غلام نبی گزشتہ 12 سال سے لوگوں کی تھکاوٹ دور کرنے کا کام کررہے ہیں۔ غربت اور بیروزگاری کے باعث غلام نبی اپنا گھر بار چھوڑ کر حیدرآباد میں مالشں کرتے ہیں۔

 

اکثر مالشیوں کا تعلق پنجاب کے سرائیکی بیلٹ سے ہے، جہاں ہمیشہ سے غربت ہی غربت رہی ہے۔ غلام نبی کا تعلق بھی پنجاب کے علاقے علی پور سے ہے۔ غربت کی زنجیروں نے غلام نبی کو بچپن سے ایسا جکڑا ہوا ہے کہ ابھی تک اِس سے رہائی ممکن نہیں ہوسکی۔ غلام نبی گزشتہ 12 سالوں سے ہاتھوں میں تیل کی بوتلیں اٹھائے تھکے ہارے انسانوں کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔

پنجاب میں مزدوری کم ملنے کی وجہ سے غلام نبی حیدرآباد آپہنچے۔ جہاں اُسے مزدوری بھی جائز ملتی ہے اور مالش کروانے والے بھی یہاں بڑی تعداد میں مل جاتے ہیں۔ کام کے بعد یہ اور اِن کے دیگر ساتھی وہیں ہوٹلوں کے باہر سوجاتے ہیں۔

انتظار تو موت سے بھی بدتر ہے، اور غلام نبی کو تو گاہک کے لیے کبھی کبھار پوری رات انتظار کرنا پڑتا ہے۔ غلام نبی نے بتایا کہ لوگ تو اتنے بے رحم ہیں کہ پورا گھنٹہ مالش کروانے کے بعد جب پیسے دینے کی بات ہوتی ہے، تو حق کی آدھی رقم دیتے ہوئے بھی نخرے کرتے ہیں۔ اگرچہ فل مالش کا 100 روپے ریٹ مقرر ہے، لیکن کوئی 50 تو کوئی 70 روپے بھی آدھے گھنٹے کی مغز ماری کے بعد تھما کر کہتا ہے ناجائز پیسے لے رہے ہو۔ اب آپ ہی بتاﺅ سرسوں کا تیل کتنا مہنگا ہے، ایسے میں کھانا پینا اور تو اور ہوٹل والا بھی سونے کے پیسے لیتا ہے، بھلا کیا بچتا ہے ہمیں؟

گھر تو مشکل سے 6 ہزار بھی ماہانہ نہیں بھیج پاتے۔ اب عید آرہی ہے تو بچے فرمائشیں کر رہے ہیں کہ نئے کپڑے لے کر آئیں، لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ بچوں کو کیسے سمجھاوں کہ انہیں تو پھر دو وقت کی روٹی نصیب ہوجاتی ہے مجھے تو بعض اوقات وہ بھی نصیب نہیں، نئے کپڑے تو دور کی بات ہے غالباً ایک سال سے نیا جوتا بھی نہیں خریدا۔ ابھی صورتحال یہ ہے کہ ہوٹل مالک کے اترے ہوئے کپڑے پہن پر گزر بسر کررہا ہوں، بس اب کیا بتاوں عید تو آئے گی لیکن ہمارا دل چیر کر چلی جائے گی۔

غلام نبی بات آگے بڑھا کر کہتا ہے کہ بس خدا بھلا کرے بس ڈرائیور حضرات کا جو بنا کچھ کہے150 تھما کر کہتے ہیں،

’’او جی! تسی دا شکریہ، جو اساں دا تھک روز دور کریندے ہو۔‘‘ (او بھائی! آپ کا شکریہ جو روزانہ کی بنیاد پر ہماری تھکن دور کرتے ہیں۔)

ویسے تو مالش انسانی جسم کے لئے بہت ہی مفید ہے۔ مالش سے انسان ایک دم چست رہتا ہے اور بہت سی بیماریوں سے بھی بچا جاسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ صرف چند روپوں اور پیٹ کی خاطر دوسروں کو آرام دیتے ہیں حقیقت میں اِن لوگوں کی زندگی میں صرف اور صرف بے آرامی ہے۔

اِن کو نہ رات کا آرام نصیب ہے اور نہ دو وقت روٹی، کپڑے بھی کسی کے دیئے ہوئے پہنتے ہیں، پر خوش نصیبی یہ ہے کہ اتنی غربت اور تکلیفوں کے باوجود یہ لوگ صرف اور صرف اپنی محنت اور لگن پر یقین رکھتے ہیں، نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور نہ ہی کوئی غلط کام کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ انہیں اپنی زندگی سے شکوہ تو ہے لیکن وہ صرف خدا کی رضا کے خاطر چپ ہیں کہ جو ہورہا ہے اچھا تو نہیں ہے پر، جو رب نے دیا وہ اب بھی بہت سوں کو نصیب نہیں ہوتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
نبیل ابڑو

نبیل ابڑو

بلاگر سندھ یونیورسٹی میں میڈیا اینڈ کمیونی کیشن اسٹڈیز کے طالب علم ہیں اور سیاست و فلسفے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں ٹویٹر آئی ڈی @abronabeel66 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔