حکمران بھوت یا بھوت حکمران

سعد اللہ جان برق  جمعـء 23 جون 2017
barq@email.com

[email protected]

ہمارے ساتھ بھی کچھ عجیب سلسلہ ہے۔ ہم ایک کام خلق خدا کی بھلائی کے لیے شروع کرتے ہیں اور ہماری ناک  اورکان  ، دکھتی رگ اور زخمی انگلی ہو جاتا ہے یعنی لوگ ہمیں اس کام کے ذریعے زچ کرنے لگتے ہیں، اب یہ تحقیق کا دھندہ لے لیجیے جو محض خلق خدا کی فلاح وبہبود کے لیے ہم نے شروع کیا تھا لیکن یار لوگوں نے اب ایسے ایسے پراجیکٹ ہمیں دینا شروع کیے جو کوئی شرلاک ہومزبھی سنے تو توبہ توبہ کرنے لگے ۔ لیکن آج کل کے لوگ ہوشیار بھی بہت ہیں، استدعا یا درخواست نہیں کرتے بلکہ طعنہ بھی مار دیتے کہ اگر تم اتنے محقق ہو تو بتاؤ کہ ٹرمپ کا نام ٹرمپ کیوں ہے ، یا زرداری صاحب زرداری کس وجہ سے ہیں، کیا نوازشریف واقعی شریفوں کو نوازتے ہیں یا صدر ممنون حسین صاحب کس کے ممنون ہیں اور کیوں ؟ یا یہ کہ ایان علی پر مقدمہ چلایا گیا تھا یا خود اس نے اپنے اوپر چلوایا تھا۔

ایک صاحب نے تو یہاں تک پوچھا ہے، اگر اتنے محقق ہو تو مولانا فضل الرحمن کی کامیابی کا راز معلوم کرو ۔ بعضے بعضے تو ملکی سرحدات پھلانگ کر یہ تک پوچھ لیتے ہیں کہ نریندر مودی اور پھولن دیوی کے درمیان کوئی رشتہ ہے یا نہیں؟۔ ایک ریاضی کے استاد جب کلاس میں آئے تو کسی نے بلیک بورڈ پر ایک شعر لکھا تھا کہ

دعویٰ ہے اتنا علم ریاضی میں آپ کو

طول شب فراق ذرا ناپ دیجیے

استاد خلاف توقع ریاضی کے ساتھ شعر و شاعری سے بھی دلچسپی رکھتا تھا چنانچہ اس نے نیچے لکھا ،

طول شب فراق جو ناپی گئی عزیز

لیلیٰ کی زلف سے کوئی دو انچ کم ملی

اب ایک صاحب نے ہم سے فرمائش کی ہے بلکہ طعنہ مارا ہے کہ اگر علم تحقیق میں آپ کو اتنا دعویٰ ہے تو حکمران بھوتوں کا ویراباوٹ بتادیں۔یہ درست ہے کہ ہم اس سے پہلے بھوتوں کے کیس بھی لیتے رہے ہیں اور بھوتوں کی چند اقسام سے متعلق تحقیق کرچکے ہیں لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ ہم بھوتوں پر اتھارٹی ہیں، وہ بھی وجہ یہ تھی کہ ہم ذاتی طور پر ان بھوت دانشوروں کا شکار بنے ہوئے تھے جو سرکاری عہدوں پر ریٹائرمنٹ کی موت مرنے کے بعد بھوت دانشور بن جاتے ہیں اور ہر قسم کی تقریبات یاچینلوںپر عوام الناس کے دماغ کھانے کا شغل کرتے ہیں۔لیکن حکمران بھوت یا بھوت حکمران ۔ یہ ترکیب ہی اتنی ڈراؤنی ہے کہ آدمی کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔کریلے اور وہ بھی کیکٹس یا چونگاں چڑھے ۔ حکمران کی بھی اور بھوت بھی یا بھوت بھی اور حکمران بھی

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

لیکن اس شخص نے ساتھ ہی ہماری کمزور رگ ، زخمی انگلی اور ناک کی نتھ پر بھی ہاتھ ڈالا تھا۔ ہمارے محقق ہونے کا سوال تھا ۔ یعنی خود کو خود ہی دیے ہوئے اعزاز کے برقرار رکھنے کا سوال تھا ، کھیلوں کی زبان میں کہیے تو اعزاز کا دفاع کرنا تھا ۔ اس لیے اپنے ٹٹوئے تحقیق کو کھولنا ہی پڑا ۔حکمران بھوت یا بھوت حکمران۔ اگرچہ عام اصطلاح میں حکمران چاہے کسی بھی گیٹگری کے ہوں بھوتوں کی کئی صفات سے متصف ہوتے ہیں، خون پینے میں ، مسلط ہونے میں اور آسانی سے پیچھا نہ چھوڑنے میں بالکل بھوتوں کی طرح ہوتے ہیں حتیٰ کہ مرجانے کے بعد بھی قوم کو لاحق ہوتے ہیں لیکن بھوتوں کی اصل صفت ’’نہ دکھائی دینے کی ‘‘ان میں نہیں ہوتی نہ صرف دکھائی دیتے ہیں بلکہ بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں، اس لیے عام حکمران تو بھوت ہر گز نہیں مطلب یہ کہ باقی سب کچھ ہو سکتے ہیں لیکن بھوت ؟ بالکل نہیں ہو سکتے۔

وہ ایک مرتبہ چشم گل چشم کو جوانی میں پولیس تاش کھیلتے ہوئے پکڑ کر لے گئی۔ الزام جوا کھیلنے کا تھا حالانکہ تلاشی لینے پر چاروں کی جیبوں سے ایک ٹیڈی پیسہ بھی نہیں نکلا،ان لوگوں نے قسمیں کھا کھا کر بیان دیا کہ ہم فلاش نہیں بلکہ قلاش تاش یعنی ترپ کھیل رہے تھے۔ تھانیدار کو بھی یقین ہو گیا تھا لیکن کسی ملزم کو بغیر ’’صفائی’’ چھوڑنا اپنی عادت خود خراب کرنے والی بات تھی ۔ باقی تینوں کے والدین تو ’’صفائی ‘‘ دے کر چلے گئے لیکن چشم گل چشم کا باپ اس کی صفائی دے کر اپنی جیب کی صفائی کے لیے ہر گز تیار نہیں تھا چنانچہ عزیزوں دوستوں نے ایک تھانے کے رجسٹرڈ محرر سے رجوع کر لیا۔

محرر نے تھانیدار سے کہا، صاحب میں اس لڑکے کو جانتا ہوں، میرے محلے کا ہے، مانا کہ کبھی چوری یا سینہ زوری کر لیتا ہے ، لوگوں کے مال مویشی بھی کبھی کبھی قصائی کے ہاں پہنچا دیتا ہے لیکن جوئے باز ہر گز نہیں ہے۔ ہاں منشیات بھی بیچتا ہے اور مرغیاں وغیرہ بھی چرا لیتا ہے لیکن جوئے بازی بالکل نہیں ۔ ایک دو ڈاکے اور رہزنی کی وارداتیں بھی کرچکا ہے اور شہر جا کر ہیرا پھیری اور نو سر بازی بھی کرلیتا ہے لیکن جوا بالکل نہیں کھیلتا ۔ سناہے کچھ اجرتی قاتلوں اور اغواکاروں سے بھی ساجھے داری ہے لیکن جوا بازی تو بہ توبہ کھیل ہی نہیں سکتا ، مجھے یقین ہے اسمگلنگ کرسکتا ہے، بھتہ وصول کر سکتا ہے لیکن جوا کھیلنا میں ہر گز نہیں مانتا۔ہ

م بھی حکمرانوں کے بارے میں جانتے ہیں کہ سب کچھ ہو سکتے ہیں لیکن بھوت ؟ بالکل بھی نہیں ہو سکتے ۔ کیوں کہ بھوت ایک تو دکھائی نہیں دیتے دوسرے اپنا انتقام پورا کرکے پیچھا چھوڑ د یتے ہیں۔اس لیے بھوت حکمران  حکمران بالکل بھی نہیں ہو سکتے ۔اس بنیاد پر تحقیق کاٹٹو دوڑایا تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا، کچھ عاملوں کاملوں سے بھی رجوع کیا لیکن کوئی سراغ نہیں ملا ،آخر اپنے پرانے استاد اور دانا ئے راز کی مدد چاہی تو وہ پہلے تو ہنس پڑے جس سے پھول جھڑ گئے۔ بولے کہ اتنی اکیڈمیوں اور تحقیقی اداروں سے تربیت لے کر بھی تم وہی لٹھ کے لٹھ رہے۔عرض کیا ہمیں پھول نہیں موتی چاہیے’’موتی‘‘ درکار ہیں تب وہ رو پڑے۔ بولے میں کب تک تماری رہنمائی کے لیے زندہ رہوں گا ۔

ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر

ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

آگ کی تلاش ہو تو دھوئیں کے نیچے ڈھونڈ، پانی چاہیے تو اُڑتے ہوئے پرندوں کے نیچے دیکھ ۔ مٹھاس کی تلاش ہو تو چیونٹیوں کے پیچھے جا۔یہ موتی لے کر ہم نے گانٹھ باندھ لیا ۔ تب اچانک جیسے کسی نے سلیمانی سرمہ آنکھوں میں لگایا ہو، سارے حکمران بھوت نظر آگئے۔ پارلمینٹ اور اسمبلیوں کے لاجز میں، سرکاری گیسٹ ہاؤسوں میں ، حکمرانوں کے انیکسی اور مہمان خانوں میں ، وزیروں اور منتخب نمایندوں کی آبائی رہائش گاہوں یا حلقہ انتخاب میں سرکاری گاڑیوں اور دفتروں میں ، بھوت ہی بھوت دکھائی دیے۔

ان لوگوں کے چمچے، بھائی، سالے، چاچے، مامے جو نظر نہیں آتے لیکن اصل حکومت وہی چلاتے ہیں ،کہیں کچھ بھی کرنا کرانا ہو، پہلے ان بھوت حکمرانوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ بھوت کچھ لیے بغیر تو راضی ہو نہیں سکتے ۔ ایک اصطلاع میں ان بھوتوں کو اینکسی کے بھوت بھی کہاجاتا ہے اور وہ کاکروچ بھی جو باورچی خانے میں نہ جائے کیسے پیدا ہو جاتے ہیں ۔ نوکریاں ، تبدیلیاں ، ٹھیکے ، فنڈز ، بجلی گیس و طیفے اور نہ جانے کیا کیا یہی حکمران بھوت یا حکمرانوں کے بھوت دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔