عید پر کرنے کے پانچ کام

قیصر اعوان  اتوار 25 جون 2017
عید کا دن جو سال میں صرف ایک بار آتا ہے بجائے فضولیات میں ضائع کرنے کے اپنے اہل وعیال کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتے گزاریں۔ فوٹو:فائل

عید کا دن جو سال میں صرف ایک بار آتا ہے بجائے فضولیات میں ضائع کرنے کے اپنے اہل وعیال کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتے گزاریں۔ فوٹو:فائل

عیدالفطر کی آمد آمد ہے۔ یقیناً آپ نے اب تک تو اِس حوالے سے مکمل پلاننگ کرلی ہوگی کہ یہ تہوار کس طرح سے منانا ہے، کیا پہننا ہے، کس کو کیا تحفہ دینا ہے، کس سے کتنی عیدی لینی ہے، کس کس سے عید ملنے جانا ہے اور کس کس کو اپنے گھر بلانا ہے لیکن اگر آپ اپنی اس پلاننگ میں ذیل میں دیے ہوئے یہ پانچ کام بھی شامل کرلیں تو یقین کریں کہ آپ کی یہ عید شاندار ہوجائے گی۔

پہلا کام

عید کا آغاز یقیناً عید کی نماز سے ہوتا ہے، اور عید کی نماز پڑھتے ہی ایک دوسرے سے گلے مل کر عید کی مبارکباد دینا مسلمانوں کی روایت ہے۔ آپ عید کی نماز پڑھ کر جب مسجد سے باہر نکلیں تو اُن سیکیورٹی اہلکاروں کو عید مبارک کہنا مت بھولیے گا جو یہ اہم ترین دن اپنے گھر والوں کے ساتھ منانے کے بجائے آپ کی حفاظت پر مامور ہیں۔

ہم میں سے اکثر اُنہیں عید کی مبارکباد دینا تو دور کی بات اُن کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور پاس سے گزر جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ عید مبارک بس زبان سے کہہ دینا ہی کافی ہوگا، تاکہ اُن کی توجہ منتشر نہ ہو اور وہ اپنی ڈیوٹی بھرپور طریقے سے سر انجام دے سکیں کیونکہ عید کی نماز میں نمازیوں کی تعداد عام دنوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے جس کا فائدہ شر پسند عناصر اُٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

دوسرا کام

اگرچہ مجھے پیشہ ور بھکاریوں سے کوئی ہمدردی نہیں مگر اُن کے بچوں سے ہے کیونکہ بچے ہمیشہ معصوم ہوتے ہیں۔ ہم سارا سال اُنہیں پیشہ ور کہہ کر دھتکارتے رہتے ہیں مگر عید کے دن ایسا مت کیجیے گا، کیونکہ یہ بچے ہیں اور بچوں کے دل اور اُن میں اُبھرنے والی خواہشات ایک جیسی ہی ہوتی ہیں خواہ وہ کسی کے بھی ہوں۔

آپ کے بچوں کو بڑے مزے سے عید مناتا دیکھ کر اُن کے دل میں بھی اِسی طرح عید منانے کی خواہش مچلتی ہوگی مگر بدقسمتی سے اُن کی یہ خواہش بس خواہش ہی رہ جاتی ہے اور بچپن گزر جاتا ہے۔ آپ اُنہیں ہرگز پیسے نہ دیں، مگر اپنے بچوں کو آئسکریم خرید کر دیتے ہوئے آپ ایک آئسکریم گندے کپڑوں میں ملبوس اُس بچے کو تو لے کر دے ہی سکتے ہیں جو بڑی دیر سے آپ کے پیچھے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔

اِسی طرح آپ اپنی گاڑی میں کچھ پیک جوس، چاکلیٹ اور چپس وغیرہ کے رکھ لیں، ٹریفک سگنلز پر جب یہ بچے بھیک مانگنے کے لیے آپ کی گاڑی کی طرف لپکیں تو اُنہیں مایوس لوٹانے یا پیسے دینے کی بجائے اُن میں سے کوئی چیز دے دیں، ایسا کرکے آپ اُن کے چہرے پر وہ خوشی دیکھیں گے جو آپ نے اُس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔

تیسرا کام

ہم نے خوشیوں بھرا یہ تہوار صرف اپنے لیے خوشیاں سمیٹنے میں ہی نہیں گزارنا بلکہ دوسروں میں خوشیاں بانٹنی بھی ہیں کیونکہ یہی عید کا اصل مقصد ہے۔ ہم نے اپنی خوشیوں میں اپنے ارد گرد موجود اُن لوگوں کو بھی شامل کرنا ہے جنہیں مجبور و بے آسرا ہونے کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارا نہیں۔ بڑی بڑی عید ملن پارٹیوں میں طرح طرح کے پکوان چکھتے ہوئے اُن غریبوں کو نہیں بھولنا جو عید کے دن بھی روٹی کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہیں۔

اپنے قیمتی وقت سے تھوڑا وقت ایدھی ٹرسٹ اور دوسرے اداروں میں رہنے والے اُن بے سہارا لوگوں کے لیے بھی نکالنے کی کوشش کیجئے گا جو اپنوں کی یاد میں تڑپ رہے ہیں، بے شک ہم اُن کا درد دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتے مگر کچھ دیر کے لیے اُن کا اپنا بن کر اُن کا غم ہلکا کرنے میں اُن کی مدد تو کر ہی سکتے ہیں۔

چوتھا کام

ہمارے عزیز و اقارب میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کا کوئی پیارا ابھی حال ہی میں فوت ہوا ہے، ابھی تک وہ اِس غم سے باہر نہیں نکل سکے اور یہ عید اُن کے غم میں مزید اضافہ کردے گی۔ بلاشبہ عید نام ہی خوشی کا ہے مگر اِن مواقعوں پر اپنوں کی جدائی کا غم کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب رہ رہ کر اُن کے ساتھ  بیتائے گئے خوشیوں بھرے پل یاد آتے ہیں۔ اِس کا احساس تو یقیناً آپ کو بھی ہوگا کیونکہ کبھی نہ کبھی تو آپ بھی اِس کرب سے گزرے ہوں گے۔ اِس لیے اُن کا درد بانٹنے کے لیے آپ اُن سے ملنے اُن کے گھر ضرور جائیے گا، آپ کے ہمدردی کے دو بول اُن کے رِستے زخموں پر مرہم کا کام کریں گے۔

 

پانچواں کام

پانچواں اور سب سے مشکل کام جو آپ نے کرنا ہے وہ ہے عید پر اپنے اسمارٹ فون کا کم سے کم استعمال، کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر اپنے فارغ وقت کا ایک بڑا حصّہ اِسی کی نذر کردیتے ہیں، اور ہر دکھ سکھ میں ساتھ نبھانے والے حقیقی رشتوں کو یکسر نظر انداز کرکے اُن آن لائن رشتوں کو مضبوط کرنے میں جُتے رہتے ہیں جو ہماری ہر بات پر ایک لائک اور ایک تعریفی کمنٹ کرنے کے علاوہ ہمارے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ لوگ تو دور دور ملکوں سے خصوصی طور پر عید منانے اپنے گھر آتے ہیں اور ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ گھر ہونے کے باوجود عید گھر والوں کے ساتھ منانے کے بجائے انٹرنیٹ استعمال کرتے گزار دیتے ہیں۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ یہ عید کا دن جو سال میں صرف ایک بار آتا ہے بجائے فضولیات میں ضائع کرنے کے اپنے اہل وعیال کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتے گزاریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔