کرکرے کوکس نے قتل کیا!

راؤ منظر حیات  ہفتہ 24 جون 2017
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ایس ایم مشرف ہندوستان کی پولیس سروس کا ریٹائرڈافسرہے۔ مہاراشٹر پولیس کاآئی جی رہا۔تیس سال سے زیادہ ہندوستان کے انتظامی معاملات کوانتہائی نزدیک سے دیکھنے کے بعد مشرف نے ایک کتاب لکھی ہے۔انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کانام ہے”Who kiled Karkare”یعنی کرکرے کوکس نے قتل کیا۔ اکثر لوگوں کوکرکرے کانام یادنہیں ہوگا۔ہیمنت کرکرے وہ غیرمتعصب پولیس افسرتھا۔جس نے اپنی تحقیقات میں ثابت کردیاتھاکہ دہشتگردی کے اکثریت معاملات کا مسلمانوں سے کسی قسم کاکوئی تعلق نہیں۔مگرانڈیاکے خفیہ ادارے مسلمانوں کواس میں ہرقیمت پرملوث کرتے ہیں۔اس میں “انٹیلی جینس بیورو”کارول بہت بھیانک ہے۔بات یہاں تک نہیں رکتی۔کرکرے نے اپنی تحقیقات میں یہ بھی ثابت کرڈالاکہ اکثربم دھماکوں اور دہشتگردی کے واقعات کے پیچھے ہندوتنظیمیں ملوث ہیں۔ کرکرے کے ان بے لاگ جائزوں کاجواب بہت سادہ ساتھا۔اس پولیس افسرکوقتل کردیاگیا۔

ایس ایم مشرف نے بنیادی نکتہ یہ اُٹھایاہے کہ انڈیا میں برہمن راج کی مکمل تیاری کی جاچکی ہے۔ برہمن ذات کاایک خاص حصہ انتہائی طاقتورطریقے سے پورے برصغیر کو اپنے زیرِتسلط کرناچاہتاہے۔ہندوستان کی حدتک وہ مکمل طورپرکامیاب ہوچکاہے۔ملک کے تمام انتظامی اوراہم معاملات اس خاص ہندوبرہمن ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے پاس جاچکے ہیں۔ یہی اقلیت پاکستان اورہندوستان کے باہمی تعلقات کوکسی صورت بھی بہتر نہیں ہونے دیتی۔ پاکستان کا’’ہوا‘‘کھڑاکرکے پورے ملک کویرغمال بناچکی ہے۔ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مجرم بناکرپیش کردیا گیاہے۔ معاملات کی غیرجانبدارتحقیق کوناممکن بنا دیاگیا ہے۔ پریس اور میڈیابھی اسی برہمن اقلیت کے پاس ہے اوریہ ہروقت پاکستان کو ایک ’’ولن‘‘ بنا کرپیش کرنے میں مصروف ہے۔عام آدمی اس پروپیگنڈا پریقین کرچکا ہے۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پورے ہندوستان میں اس برہمن سوچ کے برعکس کوئی بات کرنے کی جرات نہیں رکھتا۔اگرکوئی سچ بولنے کی کوشش کریگا تو اسے ’’کرکرے‘‘ بنا دیا جاتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب ہندوستان میں چھپ کیسے گئی۔اسے بکنے کی اجازت کیسے ملی۔کیونکہ یہ ایک مکمل طورپرغیرمتعصب تجزیہ ہے جس سے اس ملک کاوہ بھیانک چہرہ سامنے آجاتاہے جوسیکولرازم یامیڈیاکی چکاچوندمیں چھپایا جا چکا ہے۔ اس کتاب کے بے لاگ تجزیے کی اہمیت اسلیے بھی بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان دنوں پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کر رکھا ہے۔ کلبھوشن انڈین نیوی کاافسرہے یانھیں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔لیکن کلبھوشن”برہمن راج”کوقائم کرنے کاایک سکہ بندحصہ ہے۔یہی وہ اصل نکتہ ہے جس پرہندوستان کا طاقتورترین چھپاہواطبقہ آگ بگولہ ہورہاہے۔یہ بات سمجھ آتی ہے کہ کیاوجہ ہے کہ کلبھوشن کو’’ہندوستان کا بیٹا‘‘ گرداناگیا ہے۔ اس کتاب میں2006ء میں ہونے والے بمبئی ٹرین دھماکوں سے لے کر2007ء کے سمجھوتا ایکسپریس کے قتل عام کابے لاگ جائزہ لیاگیاہے۔اس کے علاوہ مالیگاؤں بم دھماکے، احمدآباد دھماکے، حیدرآباد دکن میں مکہ مسجد میں قتل عام،درگاہ اجمیرشریف کی بے حرمتی اورجے پورمیں دھماکوں کوبھی تحقیقی نظرسے دیکھا گیا ہے۔سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں بمبئی حملوں پر غیرمتعصبانہ تفتیش کی گئی ہے۔

بمبئی دھماکوں میں اجمل قصاب کانام لیا جاتا رہا ہے۔ کرکرے کی تفتیش میں یہ پتہ چلاکہ اجمل قصاب کو اس سانحے سے کافی عرصہ پہلے نیپا ل سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کاثبوت نیپالی عدالت میں وہ رٹ پٹیشن ہے جس میں دھماکوں سے بہت عرصہ پہلے اجمل قصاب کی بازیابی کی درخواست کی گئی تھی۔اجمل قصاب کوہندوستان کی آئی بی نے نیپال سے گرفتارکیااوراس کے بعدکاڈراما سب فریقین کومعلوم ہے۔مشرف یہاں تک لکھتاہے کہ جس ریلوے اسٹیشن پردہشتگردوں کے اترنے کابتایاگیاتھا،اس پرسولہ کیمرے لگے ہوئے تھے۔

ان کیمروں نے مناظر کو فلم بندکرلیاتھا۔ مگرواقعے کے کچھ عرصے بعد ہی کیمروں کے تمام ریکارڈکوتبدیل کردیاگیا۔اس میں اجمل قصاب کی وہ تصاویر  ڈالی گئیں جوآئی بی نے کسی اورمقام پرکھینچی تھیں۔ مگرظاہریہ کیا گیا کہ اجمل اس ریلوے اسٹیشن پر موجودتھا۔مشرف نے کرکرے کے حوالے سے یہ بھی لکھا،کہ کرکرے کودوران تفتیش پتہ چل چکاتھاکہ تمام کیمروں کاریکارڈ تبدیل کیاگیا ہے۔سوال یہ بھی تھاکہ کس نے یہ کام انتہائی مہارت سے سرانجام دیا۔امریکا کی ایف بی اے کے نمایندے سانحے کے بعدفوراًبمبئی پہنچ گئے تھے۔تمام تفتیش امریکی ادارے نے کی۔ اسکو ہندوستانی پولیس کے حوالے کردیا۔مطلب یہ کہ ملک کی پولیس نے قطعاًتفتیش نہیں کی۔بلکہ ایف بی آئی کے کام کو اپناکام بتاکرعدالت میں پیش کردیاگیا۔مقامی قانون کسی غیرملکی ادارے کوتحقیقات کی اجازت نہیں دیتا۔ کرکرے نے ثابت کیاکہ ایف بی آئی کا تمام کام خلاف قانون تھا اوراس کی تصدیق بھی کہیں نہیں ہونے دی گئی۔کرکرے اس پربھی حیرت کااظہارکرتاہے کہ اگرتمام دہشتگردپاکستانی تھے تووہ مہاراشٹرکی زبان میں گفتگوکیسے کررہے تھے۔ جو بھی ڈیٹاریکارڈکیاگیا،اس میں کوئی بھی شخص اردویاپنجابی نہیں بول رہاتھا۔بلکہ وہ مقامی زبان میں گفتگوکررہے تھے۔ بمبئی دھماکوں اورقتل عام میں تین سوسے زائدٹیلی فون رابطے ریکارڈکیے گئے۔ان میں سے ایک بھی کال پاکستان نہیں کی گئی۔پاکستان سے رابطے کاتمام ریکارڈ بعد میں جعلی طورپرترتیب دیاگیا۔

سانحات اورحادثات سے آگے نکلیے۔کتاب میں بارہا لکھاگیاہے کہ ہندودہشتگردتنظیمیں خفیہ اداروں پرقبضہ کرچکی ہیں۔ بھارتی آئی بی  دہشتگردی کے ہرواقعے کے بعدایک مخصوص ذہن سے تحقیق کرکے مسلمانوں کوملوث کرنے کی کوشش کرتی ہے۔سیکڑوں جوان مسلمانوں کوبلاوجہ گرفتارکیاجاتاہے۔ ان پردہشتگردی کے جھوٹے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔مشرف اورکرکرے کے بقول ہندوستان کے خفیہ اداروں میں آر ایس ایس مکمل طورپرقابض ہوچکی ہے۔عجیب اَمریہ بھی ہے کہ جہاں بھی دہشتگردی کاکوئی واقعہ ہوتاہے آئی بی، مقامی پولیس کوتفتیش کرنے سے روک دیتی ہے۔ ہر چیز اپنے ہاتھ میں لے کراس واقعے کومسلمانوں کی طرف موڑدیتی ہے۔یہ بھی درج ہے کہ آر ایس ایس کے انیس مختلف شعبے ہیں۔

اس میں بی جے پی سیاسی شعبہ ہے۔غورکیجیے،کہ مشرف کے بقول بی جے پی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ آرایس ایس کاصرف ایک شعبہ ہے۔بجرنگ دل،ہندوجاگرن منچ وہ شعبہ جات ہیں جوکسی بھی قسم کی دہشتگردی کرسکتے ہیں۔ وشوا ہندو پریشد سے لے کر سیوا بھارتی تک تمام شعبے مکمل طورپر الگ الگ کام کرتے ہیں۔ان کاکنٹرول بی جے پی کے بھارتی وزیراعظم کے پاس نہیں ہوتا،بلکہ آرایس ایس کے مرکزی لیڈرکے پاس ہوتاہے۔ ملک کاوزیراعظم بھی آرایس ایس کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرکے سجدہ ریزہوتاہے۔یہی وہ آرایس ایس ہے جواصل معاملات کوہندومسلم دشمنی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ہر بلوے اورفسادکے پیچھے ان ہی لوگوں کاہاتھ نظرآتا ہے۔

ایس ایم مشرف یہاں تک لکھتاہے کہ کرکرے کے قتل کے بعداس کی لاش کوابھی جلایا نہیں گیاتھا،کہ تمام کیس کی تفتیش ایک انتہائی متعصب افسرکے پی راگھورنشی کے سپردکردی گئی۔مقصدصرف یہ تھاکہ کرکرے نے جوحقائق بیان کیے ہیں،ان کوجھٹلاکر وہی بیانیہ سامنے لایاجائے جو برہمن ذہن اورآرایس ایس کی سوچ کے مطابق ہو۔اسی طرح سمجھوتہ ایکسپریس میں مسلمانوں کوزندہ جلایا گیا۔ اس میں ہریانہ پولیس نے سارے معاملے کی تحقیق بہت تھوڑے عرصے میں مکمل کرلی۔وہ اصل ملزموں تک پہنچ گئے۔مگرپھرایک دم انھیں تفتیش کرنے سے روک دیا گیا۔ مالی گاؤںکے سانحے میں جب کرنل پروہت کو گرفتار کیا گیا تومعاملہ آئی بی کے ہاتھ سے نکل گیا۔کرنل پروہت نے اپنے بیان میں آرایس ایس کے دہشتگردوں کے نام لے لیے۔مگرکمال ہوشیاری سے ان ناموں کی اکثریت کو چالان میں نہیں ڈالاگیا۔عدالت میں کرنل پروہت کے خلاف بھی تمام ثبوت ضائع کردیے گئے۔

مشرف نے درجنوں واقعات درج کیے ہیں۔بے لاگ تفتیش سے ثابت ہواکہ ان میں ہندودہشت گرد تنظیمیں مکمل طورپرملوث ہیں۔کمال کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے خفیہ اداروں اورآرایس ایس کے باہمی گھٹ جوڑنے باقاعدہ جعلی ثبوت اورہرہونے والے واقعے کے ملزمان کے اعترافی بیانات تک بنارکھے ہیں۔ ان میں پاکستان میں موجودمختلف تنظیموںکانام براہ راست لیاجاتاہے۔مشرف کے نزدیک کسی ایک واقعہ میں بھی ان تنظیموں کے شامل ہونے کا ثبوت نہیں ملا۔یہ کتاب ایک ہندوستانی ریٹائرڈپولیس افسرکی ہے۔کسی پاکستانی نے نہیں لکھی۔اس کے تمام حقائق مستند ہیں۔ کلبھوشن کی گرفتاری دراصل ہندودہشتگردتنظیموں کے اصل عزائم کوبے نقاب کرتی ہے۔ہندوستان وزیراعظم آرایس ایس کے مکمل دباؤمیں ہیں۔ان سب کومعلوم ہے کہ کلبھوشن کوپاکستان میں تخریب کاری کے لیے بھیجا گیا تھا۔مگروہ آرایس ایس کے سامنے بے بس ہیں۔برہمن ذہن کوسمجھنے کے لیے،ایس ایم مشرف کے نایاب کام کوپڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر کرکرے کی غیرمتعصب تحقیق نہ ہوتی توتمام حقائق سب کے سامنے نہ آتے۔کلبھوشن بھی آرایس ایس کے نیٹ ورک کاایک حصہ ہے۔اسے دہشتگردی کی بھرپورسزاملنی چاہیے۔یہی ملکی سلامتی کااورحب الوطنی کاتقاضہ ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔