میری سمسیا پر غور کیجیے!

وسعت اللہ خان  ہفتہ 24 جون 2017

کسی بھی کالم نگار کے لیے سب سے پرخطر کام چلتی خبر کا تجزیہ کرتے ہوئے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس معاملے اگر دس بزدل کالم نگاروں کی فہرست بنائیں تو پھر مجھے سرِ فہرست رہنے دیجیے گا۔

سب سے بہادر کالم نگار تو وہ ہیں جنھوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ کسی ایک نظریاتی یا شخصیاتی کیمپ کا حصہ ہیں۔ اب چاہے آندھی آئے یا طوفان سورج مشرق سے نکلے کہ شمال سے۔ انھیں اپنی بات اور تجزیے پر ڈٹے رہنا ہے۔ مجھ جیسوں کو یہ ثابت قدمی جتنی مشکل محسوس ہوتی ہے ان کے لیے یہ اتنی ہی آسان ہے۔ بس یہی تو کرنا ہوتا ہے کہ دوسرے کو ابلیس اور اپنے والے کو ظلِ الہی ثابت کرنا ہے۔ اب یہ دوٹوک دمادم مست قلندری قلمی رویہ کالم نگار کو بہاتے ہوئے جہاں تک لے جائے لے جائے۔جہاں قلم رک گیا بس وہی حتمی تجزیہ ہے۔اس تجزیاتی دوآبے کا ایک کنارہ اگر ڈٹائی  ہے تو دوسرا ڈھٹائی۔ رشک آتا ہے مجھے ان قلم کاروں پر…

یہاں اپنا حال یہ ہے کہ یہی اندازہ نہیں ہوپاتا کہ جنابِ شیخ کا قدم اب یوں پڑے گا کہ ووں پڑے گا۔ اس وقت جو آگ ان کے منہ سے نکل رہی ہے اس پر یقین کر کے لکھنا شروع ہوجاؤں یا دو گھنٹے بعد ان کے منہ سے جو پھول جھڑنے والے ہیں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ان کا انتظار کرلوں۔کہیں یہ نہ ہو کہ کل تک جب میرا مدبرانہ تجزیہ چھپے تب تک بازی پلٹ چکی ہو اور میرا قاری میری تجزیاتی عقل پر زنجیر کا ماتم کر رہا ہو۔

آنجہانی برطانوی وزیرِ اعظم ہیرلڈ ولسن کا یہ قول تو اب ہر ماجھے ساجھے کو ازبر ہوچکا ہے کہ ’’سیاست میں ایک ہفتہ بھی بہت لمبا عرصہ ہے‘‘ مگر ولسن نے تو یہ بات ان بھلے وقتوں میں کہی تھی جب درجہ سوم کا سیاستدان بھی اپنے کہے پر کم ازکم ہفتہ بھر ضرور قائم رہتا تھا۔آج کے پاکستان میں تو اسٹاک ایکسچینج کے بھاؤ بدلنے کی رفتار بھی سیاسی ایتھلیٹوں اور ان کے قلمی چوبداروں کے آگے پانی بھرتی ہے۔

’’ بھائی یہ بات میں نے صبح ناشتے کی میز پر یقیناً کہی تھی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ ارے آپ اب تک میرے دوپہر والے بیان میں الجھے ہوئے ہیں۔ غالباً آپ نے میرا سہہ پہر والا بیان نہیں دیکھا۔ اسے پڑھ لیں تو بعد از مغرب میں نے جو پریس کانفرنس کی ہے اس کا مفہوم باآسانی آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔پھر بھی میرا مشورہ ہے کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے کل صبح دس بجے کی میٹنگ میں ہونے والے میرے خطاب کا انتظار کرلیں ہوسکتا ہے کہ آپ جن خطوط پر سوچ رہے ہیں وہ خطوط ہی نہ رہیں۔‘‘

ایسا نہیں کہ سیاسی رولر کوسٹر آج کی ایجاد ہے۔ بلکہ یہ ورثہ ہمیں ترکے میں ملا ہے۔ کیا یاد نہیں وہ قصہ جب تقسیم سے لگ بھگ ایک برس پہلے پنجاب کے کسی علاقے میں ایک مسلم لیگی مقرر تن من کا زور لگاتے ہوئے یونینسٹ وزیرِ اعظم خضر حیات ٹوانہ کے بخیے ادھیڑ رہا تھا۔

’’ اوئے ٹوڈی بچے، ابے انگریزوں کے پٹھو، ارے او بکاؤ مال، مسلمانانِ پنجاب کے غدار، موقع پرست سیاست کے خدا، پست جاگیردارانہ ذہنیت کے مالک خضر حیات تو نے تو اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے انگریزوں کے ساتھ ساتھ کانگریسیوں اور اکالیوں کے تلوے چاٹنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ کہاں تھی تیری غیرت خضر حیات جب تیری پولیس نے سیکرٹیریٹ پر جھنڈا لگانے والی قابلِ احترام مسلم لیگی عورتوں کو ایسی بربریت کا نشانہ بنایا کہ چنگیز خان کی روح بھی شرما جائے۔ اے ہوسِ اقتدار کے اندھے پجاری خضر حیات خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔اوپر والے نے تیری رسی دراز ضرور کر رکھی ہے لیکن وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے خضر خیات کہ تیرے ظلم کی رسی تیرے ہی گلے میں…‘‘

اتنی دیر میں کسی مسلم لیگی کارکن نے شعلہ بیاں مقرر کے کان میں کہا کہ یونینسٹوں اور مسلم لیگ قیادت نے پنجاب میں اتحاد کا فیصلہ کرلیا ہے۔ شعلہ بیاں مقرر نے ایک منٹ آسمان کی طرف دیکھا اور پھر تقریر سمرسالٹ ہو گئی۔

’’ تو ساتھیو جیسا کہ میں تھوڑی دیر پہلے کہہ رہا تھا کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ آپ دیکھیے کہ میری بات کیسی سچ ثابت ہوئی۔ ہنے ہنے خبر آئی اے خضر ساڈا بھائی اے۔ مسلم لیگ اور جناب خضر حیات نے مسلمانانِ پنجاب کی وسیع تر بہتری کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اوئے ہندو، اوئے خالصے تے اوئے انگریز کان کھول کر سن لو مسلم لیگ اور جناب خضر حیات صاحب کی انقلابی قیادت میں مسلمانان ِ پنجاب اب سیسہ پلائی دیوار بن چکے ہیں۔ اب ہم سے جو ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہوجائے گا۔وما علینا الالبلاغ…‘‘۔

اب آپ خود ہی بتائیے کہ ان حالات میں میرے جیسا لکھاری کہاں جائے، کیا کرے، کس کے بال نوچے۔ میرا خیال ہے کہ ہم جیسے جوتیاں چٹخانے والے چپڑ قناتی قلم بازوں کو غصے اور فرسٹریشن میں اپنا منہ پیٹنے کے بجائے روم میں رہ کر وہی چلن اپنانا چاہیے جو اہلِ روم کا چلن ہے۔ اصول پسندی اپنی جگہ لیکن موقع شناسی (جسے بعض جہلا موقع پرستی کہتے ہیں) اور عملیت پسندی (جسے بعض جہلا بے غیرتی سمجھتے ہیں) اور بالغ نظری (جسے بعض جہلا خرگوش اور شکاری کے ساتھ بیک وقت دوڑنا گردانتے ہیں ) کا وتیرہ اپنا لینا چاہیے۔

جس طرح انسان نے گھر کا تصور گھونسلہ بنانے والے پرندوں سے لیا، شکار کا طریقہ درندوں سے سیکھا، ساتھ رہنا بن مانسوں کے جتھے سے اپنایا، گنگنانا کوئل سے مستعار لیا اسی طرح موقع شناسی، عملیت پسند ی اور بالغ نظری کے موجودہ معنی آج کے قلم کاروں نے ہونا ہو تھالی میں لڑھکتے بینگن سے سیکھے ہیں۔

اب میں بھی کسی مشاق استاد کے سامنے زانوِ تلمذ تہہ کروں گا جو مجھے گر بتائے کہ بہتی گنگا میں نہانے کے باوجود جسم خشک کیسے رکھا جاتا ہے۔ حتمی تجزیہ کرتے ہوئے حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد جب یہ محسوس ہونے لگے کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے تو اس وقت کیسے پیشانی پر پسینہ چمکائے بغیر خجالت کے روشن دان سے باہر نکل کر آواز کی لرزش کو چھپاتے ہوئے یہ کہنا ہے کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ گر یوں ہوا تو پھر یوں ہو جائے گا۔ اب آپ کو سمجھ میں آیا کہ میں اتنے دنوں سے اپنے کالموں میں کس جانب اشارہ کررہا تھا۔اور سب سننے والے کہیں بے شک بے شک آپ ایک عظیم قلم کار ہیں جو نہ صرف پسِ دیوار دیکھ لیتا ہے بلکہ دیوار پہ لکھا بھی ٹھیک ٹھیک پڑھ لیتا ہے۔

مگر نئے نئے یا ممکنہ کالم نگاروں کو میرا برادرانہ مشورہ ہے کہ وہ فی الحال قلمی تلوار کی نوک منہ میں رکھنے ایسا کوئی خطرہ نہ لیں۔جب تک منہ سے تلوار ڈال کر کہیں اور سے نکالنے کا کرتب کسی ماہر استاد سے نہیں سیکھ لیتے۔

تب تک اپنی تحریر کا اختتام کچھ اس طرح کے محفوظ جملوں پر کریں۔

’’ تو یہ ہے  صورتِ حال۔ اب حالات کیا کروٹ لیتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا…‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔