احتساب سب کا……

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 24 جون 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

وزیراعظم نواز شریف سپریم کورٹ کی قائم کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی 3گھنٹے تک جے آئی ٹی کے سوالات برداشت کیے۔ میاں نواز شریف کے صاحبزادے جے آئی ٹی کے طلب کرنے پر بار بار پیش ہوئے۔ اب ان کے داماد اور قریبی عزیز وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی تحقیقاتی عمل سے گزریں گے۔پاکستان کی تاریخ میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا اپنے عہدے پر رہتے ہوئے کسی تحقیقاتی ٹیم کا سامنا کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ جے آئی ٹی اپنا کام ختم ہونے پر رپورٹ سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کرے گی جو اس رپورٹ کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پاناما لیک کے مقدمے کی سماعت کے لیے بینچ کی سربراہی سے معذرت کی تھی، یوں یہ بینچ تشکیل دیا گیا۔

اس وقت وفاقی حکومت کی پوری مشینری جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جے آئی ٹی کے سامنے جتنے گواہ پیش ہوئے اور کمیٹی کی پوچھ گچھ کا جواب دیا انھیں جے آئی ٹی کے اراکین کے رویے سے شکایات پیدا ہوئیں۔ ان افسران نے سپریم کورٹ کو اپنی اپنی عرضداشتیں جمع کرادیں۔ اب تک جے آئی ٹی کے سامنے جتنے افراد پیش ہوئے وہ سب وزیر اعظم میاں نواز شریف کے کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا جے آئی ٹی کے افسران کے رویے سے شکایات پیدا ہونا لازمی ہے۔ پھر ایک سینئر صحافی نے جے آئی ٹی کے ایک رکن کے تقرر کے حوالے سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار یا کسی اور نامعلوم فرد کے واٹس اپ پر ہدایات دینے کے حوالے سے ایک متنازعہ خبر شایع کی جس کو مسلم لیگی رہنماؤں نے نامعلوم قوتوں کی مداخلت قرار دیا۔ جے آئی ٹی میں نیب کی نمایندگی کرنے والے افسر عرفان ندیم منگی کو ان کے ادارے نے بدعنوانی کے الزام میں شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ عرفان ندیم منگی نے نیب کے سربراہ کو خط بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کا کام مکمل ہونے تک ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا عمل معطل کیا جائے۔

نیب کے سربراہ چوہدری قمر الزمان جوسپریم کورٹ کے منفی ریمارکس کے باوجود اپنے عہدے پر موجود ہیں یہ کہتے ہیں کہ عرفان منگی کے خلاف کارروائی تو سپریم کورٹ کے نیب کے افسروں کے خلاف فیصلے کے مطابق ہورہی ہے۔ پھر وزیر اعظم کی نگرانی میں کام کرنے والے انٹیلی جنس بیورو (I.B) کے سربراہ نے سپریم کورٹ میں اپنے جواب میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جے آئی ٹی کے اراکین کے کوائف کے بارے میں چھان بین کی گئی تھی اور انٹیلی جنس ایجنسی کا یہ معمول کا طریقہ کار ہے۔ اٹارنی جنرل نے جے آئی ٹی کے الزامات کے جواب میں ایک نیا الزام عائد کیا ہے کہ جے آئی ٹی وزیر اعظم کے ٹیلیفون ٹیب کررہی ہے، یوں سیاسی فضاء خاصی گنجلگ ہوگئی تھی۔

منتخب نمائندوں اور سیاستدانوں کا احتساب صرف شریف خاندان سے شروع نہیں ہوا،اس کا آغاز قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا گیا اور سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی پھر مشرقی بنگال کے منتخب وزیر اعلیٰ اے کے فضل الحق کی وزارت کو برطرف کیا گیا۔ ان پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔ دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کوگورنر جنرل غلام محمد نے برطرف کیا تو یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان کی حکومت مشرقی بنگال سے گندم اور دیگر اشیاء کی بھارت اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام رہی۔ خان عبدالقیوم خان اور دیگر رہنماؤں پر بھی ایسے ہی الزامات لگے اور انھیں سیاست سے باہر کردیا گیا۔

جنرل ایوب خان کی حکومت نے اپنے مخالف سیاست دانوں کو رشوت لینے اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت نااہل قرار دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے وزراء کے احتساب کے لیے ہائی کورٹ کے ججوں اورفوجی افسروں پر مشتمل خصوصی بینچ قائم کیا۔ منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ کے ججوں کے تقسیم کردہ فیصلے کے تحت پھانسی سنائی۔ یہ فیصلہ اتنا برا ہے کہ آج تک کسی وکیل یا جج نے اس فیصلے کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا۔ ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس فیصلے میں قانون کے بنیادی فلسفے سے انحراف کیا۔ قانون کے بنیادی فلسفہ کے تحت ایسے گواہوں کی گواہی جو اس مقدمے میں ملوث ہوں اس وقت درست مانی جاتی ہے جب آزاد گواہ ان گواہوں کے مؤقف کی تصدیق کریں۔

1990ء سے 1999ء تک احتساب کا دور آیا۔ کبھی سیف الرحمن نے بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کا احتساب کیا اور کبھی رحمان ملک اور شریف خاندان نے احتساب کا فریضہ انجام دیا۔ جنرل مشرف نے احتساب بیورو قائم کیا۔ 2002ء تک تو بیورو غیر جانبدار رہا لیکن پھر جب مشرف صاحب نے قیامت تک حکومت کرنے کا خواب دیکھا تو احتساب بیوروکا رخ مخصوص لوگوں تک محدود ہوگیا۔ احتساب بیورو کے سابق سربراہ میجر جنرل شاہد حامد نے غیر جانبداری سے بیورو کو چلانے کی کوشش کی مگر انھیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑا۔ جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پارلیمنٹ کے ذریعے احتساب کے بارے میں ایک جامع قانون بنانے کا سنہری موقع تھا۔ جب تمام سیاسی جماعتیں 18 ویں ترمیم کے تحت صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی اور صوبوں کو خودمختاری دینے کے مشکل ترین معاملات پر اتفاق رائے کرسکتی ہے تو پھر انھیں احتساب کے جامع قانون پر بھی توجہ دینی چاہیے تھی۔

احتساب کے قانون کو مؤثر بنانے کے لیے عوام کے جاننے کے حق(Right to Know) کے لیے وفاق کی سطح پر ایک جامع قانون کی ضرورت تھی اور اب بھی ہے مگر پارلیمنٹ میں موجود بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں نے اس اہم ضرورت کو محسوس نہیں کیا۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ذریعے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ یہ کیسی تلخ حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف نے عسکری خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر میمو اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے درخواست دی۔ بعد میں حقائق سے ظاہر ہوا کہ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے تھا۔ جب اسی ریٹائرڈ جنرل نے بعض سیاستدانوں کو تحریک انصاف کا راستہ دکھایا تو میاں صاحب ناراض ہوگئے۔ خواجہ آصف ہر 15 دن بعد سپریم کورٹ میں درخواستیں دیتے تھے۔

سیاستدانوں کا یہ بھی المیہ ہے کہ قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی کے بجائے سپریم کورٹ سے نااہل قرار دینے کے طریقہ کار کی مسلم لیگ ن نے حمایت کی مگر جب پاناما لیک کی بازگشت شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے یہ تجویز دی تھی کہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی اس اسکینڈل کی اسی طرح تحقیقات کرے جس طرح امریکا اور برطانیہ کی منتخب پارلیمنٹ کرتی ہے، یوں ایک طرف پارلیمنٹ کی بالادستی مستحکم ہوگی اور پارلیمانی کمیٹی کے کسی غیر قانونی اقدام کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے داد رسی کا راستہ بھی کھلا رہے گا۔ یہ تجویز حکمران جماعت کو سمجھ میں نہیں آئی۔ ان کے منتخب کردہ صدر نے پاناما کو سیاستدانوں پر عذاب قرار دیدیا۔ احتساب کے حوالے سے ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ فوجی آمروں کا احتساب کبھی نہیں ہوا۔

جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو سپریم کورٹ نے انھیں آئینی تحفظ فراہم کیا اور آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔ جنرل مشرف نے 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو برطرف کیا اور غیر قانونی طور پر دوسری دفعہ صدر منتخب ہوئے تو ان کے خلاف خصوصی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا تو نادیدہ قوتوں نے انھیں تحفظ فراہم کیا اور وہ عدالتوں میں پیش ہوئے بغیر ضمانت پر رہا ہوگئے۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھی جنرلوں کے احتساب کا سوال کبھی نہیں اٹھا۔ جنرل یحییٰ خان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا مگر کبھی ان کے احتساب کا خیال نہیں آیا۔ یہ معاملہ دیگر غیر منتخب اداروں تک وسیع نہیں ہوا۔ اب جب منتخب وزیر اعظم کا احتساب ہورہا ہے تو اس احتساب کا دائرہ تمام اداروں اور شخصیات تک وسیع ہونا چاہیے تاکہ کسی رہنما کو جے آئی ٹی سے پوچھ گچھ کے بعد یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ فوجی ڈکٹیٹر کبھی احتساب کے لیے پیش نہیں ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔