عالمگیریت اور ہمارا عصری و ادبی تناظر

مبین مرزا  اتوار 25 جون 2017
عالمگیریت کے اس ایجنڈے پر کام کرنے والوں میں ترکِ رسوم اور اجزائے ایماں سے کسی کو ہرگز کچھ غرض نہیں۔ فوٹو : فائل

عالمگیریت کے اس ایجنڈے پر کام کرنے والوں میں ترکِ رسوم اور اجزائے ایماں سے کسی کو ہرگز کچھ غرض نہیں۔ فوٹو : فائل

ہر عہد کے ادب کو اپنے خاص سیاسی، سماجی، اخلاقی اور تہذیبی تناظر میں چند بنیادی سوالوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ان سوالوں کے سیاق میں ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ اُس عہد کا ادب کیسے انسانی اور فکری عناصر کا حامل ہے، اپنے معاشرے میں کتنا مؤثر ہے اور اس کی اخلاقی و تہذیبی زندگی میں کس نوع کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ادب براہِ راست باربرداری کے کام کی چیز نہیں ہوتا کہ اُس پر نظریے لاد کر آگے بڑھا دیے جائیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ انسانی مزاج، سوچ، رویوں اور تہذیبی مظاہر کی تشکیل میں خاموشی سے ایک بنیادی عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ سیاسی اور اصلاحی اداروں کے برعکس ادب کا عمل غیرمحسوس، داخلی اور دیرپا ہوتا ہے۔ اصل میں ادب کا معاملہ اپنے قاری کے احساس یا اُس کی باطنی جہت سے ہوتا ہے۔ وہ اس کے شعور و احساس کو اپنی معنویت کے دائرے میں ایک جمالیاتی تجربے کے عمل سے اس طرح گزارتا ہے کہ اُس کا سانچا ہی بدل جاتا ہے۔

یہ تبدیلی عنصری نوعیت کی ہوتی ہے اور چوںکہ انسان کے باطن میں رونما ہوتی ہے، اس لیے اس کے اثرات زیادہ گہرے اور بالعموم مستقل نوعیت کے ہیں۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی بڑی تہذیبوں کے ظہوروامکان کی دنیا میں ادب نمایاں طور سے شامل رہا ہے۔ عہدِ جدید کا نیا عصری تناظر جسے ہم اپنی آسانی کے لیے بیس ویں صدی کی آخری تین دہائیوں سے اکیس ویں صدی کے دوسرے عشرے کے ان برسوں تک دیکھتے ہیں تو اس کا غایت درجہ بدلا ہوا سیاسی، سماجی، اخلاقی اور تہذیبی منظرنامہ ہمیں متعدد سوالوں سے دوچار کرتا ہے۔

ان میں سے ایک بنیادی سوال یا مسئلہ عالمگیریت بھی ہے۔ دنیا کے ترقی پذیر اور پس ماندہ دونوں ہی قبیل کے ممالک میں ابتداً عالمگیریت کا مفہوم محض معاشی جہت رکھتا تھا، جس کے پس منظر میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ایسے ادارے تھے جو تجارت پر اپنی معیشت چلانے والے ممالک کے مابین تجارتی تعلقات بنانے کے خواہاں نظر آتے تھے۔ اس کے لیے وہ اپنا ایک ضابطۂ عمل رکھتے تھے اور تجارتی رشتہ استوار کرنے والے ملکوں کے بیچ ایک معاہدے پر اصرار کرتے تھے۔ بہ ظاہر یہ ایک سادہ اور بہت بے ضرر سی بات تھی، لیکن جلد ہی دوسری اور تیسری دنیا بالخصوص پس ماندہ ممالک نے محسوس کرلیا کہ اس معاشی معاہدے کے پس منظر میں محض صارفیت کا فروغ ہی مقصودِ نظر نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ایک واضح سیاسی لائحۂ عمل بھی کارفرما ہے۔

اس کے بعد اکیس ویں صدی کے ابتدائی برسوں تک آتے آتے یہ بات بھی مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے کہ عالمگیریت اتنی سادہ شے نہیں، جتنی کہ ابتدا میں یہ سمجھی گئی ہے۔ اس کے برعکس یہ ایک بڑا منصوبہ ہے جو معاشی، سیاسی اور سماجی تینوں جہات میں اہم اہداف کے حصول کے لیے مقتدر اقوام کو ایک آڑ مہیا کرتا ہے۔ بنیادی طور سے یہ منصوبہ اس دنیا کو اندر باہر سے بدل ڈالنے کی غرض سے تیار کیا گیا ہے۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ عالمگیریت دراصل وہ ایجنڈا ہے جو کہ رنگوں، نسلوں، زبانوں اور عقیدوں کی اس دنیا کی نئی تشکیل سے عبارت ہے۔ ایسی نئی تشکیل جس میں دنیا کی سب اقوام اور سارے افراد ایک ہی سانچے میں ڈھلی ہوئی زندگی گزارتے نظر آئیں۔ تاہم خیال رہے، وہ جو غالب نے کہا تھا:

ہم موحّد ہیں ، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں

عالمگیریت کے اس ایجنڈے پر کام کرنے والوں میں ترکِ رسوم اور اجزائے ایماں سے کسی کو ہرگز کچھ غرض نہیں، بلکہ اس کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ اس بارے میں ہم ذرا آگے چل کر مزید بات کریں گے۔ فی الحال ہمارے سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ عالمگیریت وہ رُجحان یا وہ موجِ بلاخیز ہے جو قوموں اور تہذیبوں کو اُن کے جملہ مظاہر کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لیے چلی جاتی ہے۔ اِس عمل میں اُن کی انفرادی شناخت کا ہر حوالہ اور ہر نشان نابود ہورہا ہے۔ امتیازی نقوش مٹتے چلے جارہے ہیں۔ ان حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جب ہم تہذیب اور ادب کو عصرِ حاضر کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمگیریت کے اس دور میں ادب کو جن بڑے سوالوں کا سامنا ہے، ان میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اب تہذیب و ثقافت کی بقا، اُن کے فروغ اور انسانی قدروں کی تعمیر میں ادب کے لیے اپنا کردار نبھانا ممکن ہوگا جو اس سے پہلے تہذیبوں اور معاشروں میں وہ ادا کرتا رہا ہے؟

اس نوع کے بنیادی سوال کی تفتیش ہمیں اس لیے بھی لازمی طور سے کرنی چاہیے کہ اس مسئلے کو سمجھے بغیر عالمگیریت کے اُس رشتے کا اصل مفہوم ہم جان ہی نہیں سکتے جو وہ عصرِ حاضر کے ثقافتی مظاہر سے قائم کررہی ہے۔ یہ بات بالکل صاف ہے کہ جب تک ہم اِس رشتے کو نہیں سمجھیں گے اُس وقت تک موجودہ دور میں قوموں کی زندگی میں ثقافتی اقدار کی ضرورت و اہمیت اور اُن کے مستقبل کی بابت ہمیں مکمل شعور حاصل نہیں ہوسکتا۔ ظاہر ہے، اس کے بغیر اپنے ادب اور ادیب کے کردار کا تعین بھی ممکن نہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے اس مرحلے پر ایک لمحہ رک کر ہمیں یہ بھی واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ عالمگیریت کوئی فکری تحریک یا نظریاتی رُجحان نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک طرزِ حکمرانی ہے۔ یونی پولر ورلڈ کی وہ طرزِحکمرانی جس کا تذکرہ ہم نے روس کی شکست کے بعد واشگاف لفظوں میں گزشتہ صدی میں اسّی کی دہائی کے آخر میں نیو ورلڈ آرڈر کی اصطلاح کے ساتھ سننا شروع کیا تھا۔

بعدازاں ہم فوکو یا ما کی The End of History کے دل گرفتہ احساس کے ساتھ ایک پہلو سے اور انسانی تمدن کی نفی کرتے ہوئے سفاک انداز میں سیموئیل پی ہن ٹنگٹن کی Clash of Civilization میں دوسرے رخ سے اس نئے ورلڈ آرڈر یا رونما ہوتی ہوئی نئی دنیا کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ تفصیلات سے حذر کرتے ہوئے مختصر اور سادہ لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ عالمگیریت کا بنیادی تعلق اقتدار کی سیاست سے ہے۔ یہ بات ہم سب بہ خوبی جانتے ہیں کہ اقتدار کی سیاست کا سروکار چاہے وہ مقامی ہو یا عالمی، اصل میں وسائل اور ذرائعِ پیداوار، یعنی معیشت سے ہوتا ہے۔ گویا عالمگیریت دراصل نئی سامراجیت سے عبارت ہے۔ اس دور کی مقتدر قوتیں یا اقوام ساری دنیا کے وسائل اور ذرائع پیداوار پر جو ایجنڈا اور جیسی حکمتِ عملی اس بار اختیار کرتی دکھائی دیتی ہیں، وہ الگ ہی نوعیت کی ہے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مقتدر اقوام ایک طرف صارفیت کو فروغ دے کر ساری دنیا کو اپنے لیے بازار بنانے کی خواہاں ہیں اور ساتھی ہی وہ پس ماندہ قوموں کے سارے ذخائر اور ذرائعِ پیداوار پر قابض ہونا چاہتی ہیں یہ وہی کھیل ہے جو طاقت ور اور کم زور قوتوں کے مابین اس سے قبل تاریخ کے مختلف ادوار میں ہوتا آیا ہے۔ تاہم اس نئی دنیا یا اس عہدِ جدید میں اس اقدام کو عالمگیریت کے عنوان کے تحت بروے کار لایا جارہا ہے۔ اس نعرے سے بیک وقت دو کام لیے جارہے ہیں۔ ایک تو اس کے توسط سے یکساں ذرائع اور سہولتوں کے عام ہونے کا تأثر دے کر اس کے اصل حقائق کیمو فلاج ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں کم زور، پس ماندہ یا کسی بھی مستحکم ہوتے ہوئے تہذیبی گروہ کے کھلے بندوں استحصال کا لائسنس آجاتا ہے۔

دھیان رہے کہ یہ محض قیاسات نہیں ہیں۔ آپ اس کے عملی مظاہرے دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذرا غور کیجیے کہ اس عہد میں انسانی معاشرت اور تمدن کے بہت سے بنیادی تصورات میں تبدیلی آچکی ہے۔ مساوات، بھائی چارہ ہم آہنگی، رواداری، روشن خیالی، وابستگی اور مصالحت کے آج وہ معنی نہیں ہیں جو اِس سے پہلے رائج رہے ہیں۔ اقوام ہوں یا افراد، صاف نظر آتا ہے کہ آج مصالحت کی حد منافقت سے آملی ہے۔ مساوات، رواداری اور روشن خیالی کا مفہوم لغوی اور اصطلاحی ہر دو سطحوں پر بدل چکا ہے۔ اب ان میں سے ہر اصطلاح کا مفہوم فریقین کے اختیار اور ردِعمل کی قوت پر منحصر ہے۔

اسی طرح آج وابستگی اور ہم آہنگی کی بنیاد صرف مفادِ پیوستہ پر ہوتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ آج کی دنیا اپنے مزاج اور فطرت میں بالکل الگ ہے۔ یہ اس سے پہلے کی تاریخ کے کسی دور سے کوئی مطابقت یا مشابہت نہیں رکھتی۔ اس دور کا علمی، عقلی اور فکری منظرنامہ اس حد تک بدل چکا ہے کہ اسے تاریخ کے تسلسل میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس کے بہت سے عناصر و عوامل کی توجیہہ تک ممکن نہیں ہوگی۔ سیاست پہلے تہذیب کا ایک جزو تھی، لیکن آج اس کی حیثیت اس حد تک بدل چکی ہے اور وہ اس درجہ غالب عنصر بن چکی ہے کہ اب کسی بھی ملک و ملت کا سیاسی بیانیہ ہی دراصل اُس کا قومی و تہذیبی بیانیہ سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح اِس دور میں طرزِحکمرانی اور اقتدار و اختیار کے تصورات بھی بدل گئے ہیں۔ اس دور میں اقتدار کے دو بڑے حوالے یا بنیادی مظاہر ہیں۔ ایک معیشت اور دوسری حربی قوت۔ ان دونوں میں بھی معیشت کو فوقیت حاصل ہے۔ اس کا بہت بڑا ثبوت اِس دور میں اُس وقت سامنے آیا تھا، جب روس کا انہدام ہوا۔ جہاں تک بات ہے اسلحے، افواج اور سائنسی ترقی کی تو روس بلاشبہ دوسری بڑی عالمی طاقت تھا۔ تاہم اس کے انہدام میں جس فیکٹر نے غیر معمولی کردار ادا کیا وہ معیشت کا عدم استحکام تھا۔ لہٰذا یہ بات حتمی طور پر طے ہوگئی کہ دورِحاضر میں اگر کسی ملک کی اکانومی بیٹھتی ہے تو اس کے باقی سارے شعبے بھی کسی قسم کی مدافعت کا اظہار کرنے کے بجائے تیزی کے ساتھ منہدم ہونے لگتے ہیں۔

ویسے اس عہد کی حقیقت کو سمجھنا کچھ بہت آسان بھی نہیں، کہ ہم کسی ایک عنصر یا کسی ایک جہت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اس کے مجموعی مزاج کے بارے میں یقین کے ساتھ حتمی طور پر کچھ کہہ سکیں۔ چناںچہ روس کے انہدام کے بعد عالمی سطح پر معیشت کی قوت کا دوسرا بڑا ثبوت اس وقت ہمارے سامنے آتا ہے، جب امریکا کی اسٹاک مارکیٹ مندی کے اس رجحان سے دوچار ہوتی ہے جو اُس کی اکانومی کو بٹھا سکتا ہے تو چین اُس کے لیے سرمایہ کاری کی سب سے بڑی آفر کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ امریکا اور چین کے مابین وہ نظریاتی تصادم ہے جس کی بنیاد جہدللبقا کے تصور پر ہے اور جو دونوں کے سماج میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیا چین کو ایک ایسی سپرپاور کے طور پر ابھرتے دیکھ رہی ہے، جس نے دنیا کے مختلف خطوں میں سرمایہ کاری، تجارت اور تعاون کے ذریعے اپنی حیثیت کو اس عرصے میں بہت مستحکم کرلیا ہے۔

اب رہی بات اسلحے کی تو وہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی money making انڈسٹری کا درجہ رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلحے کی دوڑ اس عہد کا بہت بڑا فینومینا ہے۔ اب تو یہ کاروبار اس درجہ کھلے عام ہورہا ہے کہ دنیا کے متعدد ممالک میں اسلحے کی بڑی بڑی نمائشیں ہونے لگی ہیں، جن کا اہتمام تواتر سے اور بین الاقوامی سطح پر کیا جاتا ہے۔ ان نمائشوں میں آجر اور اجیر اکٹھے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے آرڈر بک کیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلحہ بن رہا ہے، بک رہا ہے، لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچ رہا ہے تو یقیناً استعمال بھی ہورہا ہوگا۔

جی ہاں، استعمال بھی خوب ہورہا ہے۔ البتہ اہم بات یہ ہے کہ اب اسلحہ محاذِ جنگ سے زیادہ عام انسانی بستیوں میں معصوم لوگوں پر استعمال ہورہا ہے اور اس کو استعمال کرنے والے لوگوں میں ابھی اکثر ایسے افراد ہوتے ہیں جو اس سے پہلے جرائم کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، یعنی صرف اسلحے کی بہ آسانی دستیابی نے انھیں اس کے استعمال کا موقع فراہم کیا ہے۔ پہلے جن باتوں پر لوگ آپس میں دست و گریباں ہوا کرتے تھے، اب اس سے بھی بہت چھوٹی باتوں پر اسلحہ استعمال ہوتا ہے اور لوگ مار دیے جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال پس ماندہ ممالک سے لے کر ترقی یافتہ دنیا تک سب جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔

دوسری طرف نگاہ کیجیے تو جنگوں کے تصور میں تبدیلی آچکی ہے۔ اب سادہ اور قوتِ حیات کا مظاہرہ کرنے والی جنگوں کا زمانہ ختم ہوچکا ہے۔ بہت ہی ضروری ہوجائے تو عراق اور امریکا یا افغانستان اور روس جیسی جنگیں لڑی جاتی ہیں، ورنہ اب جنگوں جیسے نتائج مخالف اقوام یا تہذیبوں کے داخلی نظام میں تخریبی کارروائیوں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ مقتدر اقوام اور منہ زور قوتیں اب ملکوں پر چڑھائی کرکے انھیں فتح کرنا اور ان پر قابض ہوکر بیٹھنا پسند نہیں کرتیں۔ وہ باہر بیٹھ کر ہدف بنائے گئے ملکوں میں اپنے ہم خیال پیدا کرتی ہیں، انھیں خریدتی ہیں اور قوت و اختیار کے اُن مراکز تک پہنچاتی ہیں جہاں سے اُن کے ذریعے اُس ملک کے وسائل اور ذرائع پیداوار کو اپنے تصرف میں لایا جاسکتا ہے۔

یہ پراکسی وار کا زمانہ ہے۔ یہ جنگ جس انداز سے محاذوں پر دو اقوام یا ملکوں کے مابین وقوع پذیر ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ ہدف بنائے جانے والی تہذیبوں اور قوموں کے سماجی اور ثقافتی دائرے میں لڑی جاتی ہے۔ یہ طریقہ زیادہ کامیاب ہے اور اس میں collateral damage کا تناسب بھی بہت کم ہوتا ہے۔ اس کے لیے اب الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کو استعمال میں لاتے ہوئے زیادہ مؤثر انداز میں اور بڑے پیمانے پر ثقافتی یلغار کی جاتی ہے۔ آج یہ ذریعہ جنگوں سے زیادہ کارآمد ہے۔ اس کے ذریعے کی جانے والی جارحیت زیادہ گہرے نتائج پیدا کررہی ہے۔ تہذیب و ثقافت کے انہدام کا جو عمل ہمیں گزشتہ چار دہائیوں کے عرصے میں دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں ہوتا ہوا نظر آتا ہے، اس کی کوئی نظیر ماقبل تاریخ میں نہیں ملتی، حتیٰ کہ صلیبی جنگوں اور یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے زمانے میں بھی نہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جو نتائج الیکٹرونک اور سوشل میڈیا سے حاصل کیے جارہے ہیں، وہ پہلے جنگ و جدل سے بھی ممکن نہیں ہو پاتے تھے۔

آج ہم سب گلوبل ولیج میں زندہ ہیں— جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں تہذیبیں اپنی شناخت کھو رہی ہیں اور ثقافتوں کے امتیازی نشانات مٹتے چلے جارہے ہیں۔ کولا، برگر، فیس بک اور ورچوئل ریئلٹی کی یہ وہ دنیا ہے جس میں انسانوں کی زندگی روبوٹ جیسی ہوتی جارہی ہے۔ مخصوص ضرورتیں اور مخصوص جستجو دراصل مخصوص ڈیٹا بیس اور مخصوص کمانڈ کے ذریعے انسانی زندگی کے دائرے کا تعین کررہی ہیں۔ انسانی زندگی میں کام اور تفریح کا تناسب بالکل الٹ گیا ہے۔

یہی نہیں، بلکہ تفریح میں کام اور کام میں تفریح کا التباس پیدا ہوگیا ہے۔ انسان کی داخلی اور ذاتی زندگی تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ حیرت اور افسوس ناک حد تک نمائش پسند ہوگیا ہے۔ بہت سی چیزیں، باتیں اور کام جو پہلے انسان اپنی ذات تک رکھنا پسند کرتا تھا، وہ سب کچھ اب سوشل میڈیا پر اس انداز سے ساری دنیا کے سامنے ہیں کہ جیسے ان کی اہمیت کا دارومدار ہی نمائش پر ہے۔ نمائش پسندی کے اس ذوق نے ایک طرف اخلاقیات کے معیارات بدل کر رکھ دیے ہیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔