عید کی بلوچی سوغات، سجی

ببرک کارمل جمالی  ہفتہ 24 جون 2017
عید کے دنوں میں سجی کی دکانوں میں انتہائی رش ہوتا ہے، اِسی رش کی وجہ سے سجی کی قیمت میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فوٹو؛:فائل

عید کے دنوں میں سجی کی دکانوں میں انتہائی رش ہوتا ہے، اِسی رش کی وجہ سے سجی کی قیمت میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فوٹو؛:فائل

عید کی تیاریاں پورے ملک میں جاری و ساری ہیں، اور اِسی سلسلے میں بلوچستان میں عید کی تیاریوں کے لئے بکرے خریدنے کا موسم ایک بار پھر آچکا ہے۔ لوگ بکروں کی خریداری میں مصروف ہیں تاکہ عید کے دسترخوان کو سجّی سے سجایا جائے، تاکہ خود بھی کھایا جائے اور مہمانوں کو بھی کھلایا جائے۔ سجّی واحد خوراک ہے جو بغیر گھی کے تیار ہوئے بغیر بھی شوق سے کھائی جاتی ہے۔

بلوچستان کی ’سجّی‘ اپنے ذائقے اور لذت کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ سجّی اگرچہ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی تیار کی جاتی ہے، لیکن بلوچستان میں تیار کی جانے والی سجّی اپنی مثال آپ ہے۔ سجّی کو تیار کرنے کیلئے بڑی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ باورچی کی اہم ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ سجّی کو تیار کرنے کے لیے نمک اور تمام مسالوں کو برابر رکھنے کے ساتھ ساتھ آگ کی تپش کو بھی برابر رکھے، ورنہ سجّی کے جل جانے کے خدشات بہت زیادہ رہتے ہیں۔

سجّی کو سجانے کیلئے تین سے چار باورچی ہوتے ہیں جو لمحہ بہ لمحہ سجّی کو مختلف اطراف سے آگ کی شدت کی طرف کرتے رہتے ہیں تاکہ گوشت کچا نہ رہ جائے۔ تقریباً 5 گھنٹے مسلسل آگ پر پکنے کے بعد سجّی تیار ہوتی ہے۔

رمضان المبارک کے بعد عید کے دنوں میں سجّی بہت شوق سے پکائی اور کھائی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ عید کے دنوں میں سجّی بنانے کیلئے بکروں کی قلت ہوجاتی ہے اور بڑے شہروں میں لوگ سجّی کو ایسے ڈھونڈتے ہیں جیسے پیاسا پانی کو اور بھوکا روٹی کو۔ عید کے دنوں میں سجّی کی دکانوں میں انتہائی رش ہوتا ہے، اِسی رش کی وجہ سے سجّی کی قیمت میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

اگر مرغی کی سجّی کی بات کی جائے تو وہ ایک ہزار روپے میں اور بکرے یا دنبے کی ران کی سجّی دو ہزار روپے تک فروخت کی جاتی ہے۔ یہ ریٹ چھوٹے یا غیر معروف ہوٹلوں کے ہیں، بڑے اور مشہور ریستوارن میں یہ قیمت دگنی ہوجاتی ہے۔

مرغی کی سجّی گھنٹے سے ڈیڑھ گھنٹے میں تیار ہوجاتی ہے، جبکہ دنبہ یا بکرا دو سے ڈھائی گھنٹے میں تیار ہوتا ہے۔ سجّی بنانے والے سب سے پہلے لکڑیاں ایک دائرے میں لگا لیتے ہیں۔ اُس کے بعد اُن لکڑیوں کو آگ لگائی جاتی ہے۔ جب لکڑی کا زیادہ حصہ جل کر انگارے بن جاتے ہیں تو اُس کے بعد ذبح کئے گئے دنبے یا بکرے کی ران، دستہ یا مرغی کو مخصوص مسالہ جات لگا کر ایک سیخ کو گوشت کے درمیان سے گزار کر اُس کو انگاروں کے چاروں طرف لگادیا جاتا ہے۔

بلوچستان اپنے لذیذ اور خوش ذائقہ کھانوں اور مہمان نوازی کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے۔ سجّی کو نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر سمیت خلیجی ممالک میں بھی بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ صدیوں پہلے سجّی صرف پہاڑی علاقوں میں کھائی جاتی تھی مگر اب شہری علاقوں میں بھی اِس ڈش کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔

بلوچستان کے اِن روایتی کھانوں کی ترکیب نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ آج بھی سجّی کی لذت نہ صرف برقرار ہے بلکہ اِسے آج بھی قدیم طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں جو سجّی عام ہے یہ حقیقی بلوچی سجّی کے ذائقہ سے بہت دور ہے۔

سجّی نہ صرف ایک بہترین روایتی ڈش ہے بلکہ یہ بلوچستان کی پہچان بھی بن چکی ہے۔ جو بھی اِسے ایک مرتبہ کھاتا ہے، بار بار کھانے کی خواہش کرتا ہے۔ عید کے موقع پر دسترخوان یوں تو مختلف انواع و اقسام کے کھانوں سے سج جاتے ہیں، لیکن اگر دسترخوان پر روایتی بلوچی ڈش سجّی نہ ہو تو دسترخوان کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔

سجّی بلوچستان کی روایت میں اِس قدر رچ بس گئی ہے کہ مختلف ممالک کے سربراہان کو یہاں آمد پر بلوچی سجّی ضرور کھلائی جاتی ہے، اور یہ معاملہ صرف دیگر ممالک کے سربراہان تک محدود نہیں بلکہ حکومت پاکستان کے اعلٰی عہدوں پر فائز لوگ بھی بلوچستان میں آکر سجّی ضرور کھاتے ہیں۔

اِس لیے آپ کے لیے بھی یہ مشورہ ہے کہ اگر اِس عید پر آپ کو بھی سجّی کھانے کا موقع میسر آئے تو اِس موقع سے ضرور فائدہ اُٹھائیے گا، کیونکہ سجّی نہ کھائی تو بھلا عید کا مزہ کیسا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔