کیا شام میں امن قائم ہوسکے گا

محمد اختر  اتوار 3 فروری 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 انقلاب کی بہار یعنی ’’عرب اسپرنگ‘‘ سے دوچار ہونے والے اہم عرب ملک شام میں صورت حال کیا رخ اختیار کرنے جارہی ہے‘ اس حوالے سے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیاں اور چہ میگوئیاں جاری ہیں۔

اگرچہ کہنے کو تو یہ قیاس آرائیاں ہیں لیکن ان کے عقب میں ٹھوس شواہد بھی دکھائی دیتے ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ابھی تو شام میں صف آرا جنگجوئوں کے سامنے بشار الاسد حکومت کی صورت میں ایک واضح ہدف موجود ہے لیکن یہ ہدف حاصل ہونے کے بعد کیا شام میں امن قائم ہوجائے گا؟ کیا خانہ جنگی ختم ہوجائے گی؟ اس حوالے سے کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

غیرملکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف جاری خونریز لڑائی میں القاعدہ کی حمایت یافتہ النصرت فرنٹ اور دیگر جہادی تنظیموں کا زور بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے باغیوں کو خدشہ ہے کہ القاعدہ شام کے انقلاب کو ہائی جیک کرسکتی ہے۔ایسا نہ ہونے کی صورت میں شام میں امن کا قیام محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق ایک طرف تو شام میں باغیوں اور سرکاری افواج کے درمیان لڑائی جاری ہے تو دوسری جانب شمالی شام میں خاص طور پر فرقہ پرستی کا جن بوتل سے نکلنے کاخدشہ ہے جس کی وجہ جہادیوں اور آزاد شامی فوج کے یونٹوں کے درمیان بڑھتا ہوا تنائو ہے۔ مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جہادیوں اور باغیوں کے درمیان تصادم ہوا تو شام میں خانہ جنگی کا ایک نیا دور شروع ہوجائے گا۔

حلب سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس علاقے میں القاعدہ بہت طاقتور ہوچکی ہے۔یہاں پر القاعدہ کو مقامی طورپر ’’جبہات النصرہ’’ یا النصرت کہا جاتا ہے ۔ گذشتہ سال جولائی میں حلب کے محاصرے سے پہلے شہر کے لوگوں کے لیے یہ گروپ اجنبی تھا اور صرف مضافاتی علاقوں میں اس کا نام سننے میں آتا تھا تاہم اب یہ سب پر حاوی دکھائی دے رہا ہے اورتیزی سے اپنے غلبے کو مضبوط بنا رہا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی دیگر تنظیموں کی طرح شام کی القاعدہ (المعروف النصرت) بھی اسامہ بن لادن کے تصورات سے متاثر ہے اور ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرنے کا خواب دیکھتی ہے۔لہذا شام میں القاعدہ اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے پوری طرح کوشاں ہے اور بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد واضح طورپر پتہ چلے گا کہ القاعدہ وہاں پر کیا صورت اختیار کرے گی۔شام میں ایک جنگجو حسن نے سرگوشی میں بتایا کہ وہ بنیادی طور پر انجینئر ہے اور اس نے بیرون ملک سے تربیت حاصل کی ہے ، وہ یہاں پر انقلاب میں حصہ لینے آیا تھا تاہم یہاں پر وہ النصرت کے ساتھ شامل ہوگیا جو کہ اصل میں ا لقاعدہ ہے۔اس نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر مشینوں کے پرزے جوڑنے کا ماہر ہے لیکن القاعدہ اسے مجبور کررہی ہے کہ وہ ان کے لیے ہتھیار اور بم تیار کرے۔اس نے بتایا کہ النصرت کی صورت میں القاعدہ حلب میں بہت طاقت پکڑ چکی ہے۔یہ یہاں پر اپنا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے اور دیگر باغیوں کے علاوہ سماج پر بھی غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اسے معاشرے کی حفاظت کرنا ہے۔

گذشتہ دو مہینوں کے دوران النصرت کے جنگجوئوں کو اتنا حوصلہ ہوگیا ہے کہ وہ پرچھائیوں سے نکل کر سامنے آچکے ہیں۔انھوں نے حلب سے لیکر ترک سرحد تک پھیلے قصبوں اور دیہات میں دکانیں کھول لی ہیں، یہاں تک کہ شہر کے وسط میں آزاد شامی فوج کے ایک یونٹ کے ساتھ اپنا مقامی ہیڈ کوارٹر بھی قائم کرلیا ہے۔یہ اپنی ہر چوکی اورٹھکانے پر ایک سادہ سیاہ پرچم لہراتے ہیں جو بالکل ویسا ہے جیسا القاعدہ کا عراق میں تھا۔النصرت کے زیادہ تر لوگ بھی عراق سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان علاقوں میں النصرت کے جنگجو مقامی لوگوں کے مسئلے بھی حل کرتے ہیں۔ لوگ ان کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے ہیں۔ یہاں پر وہ ان کی شکایات سنتے ہیں اور بعض اوقات راشن اور ایندھن کے لیے انھیں چٹیں بھی دیتے ہیں۔وہ ان کے تنازعات بھی حل کرتے ہیں۔عرب ممالک کی طرح شام میں بھی روایت ہے کہ لوگ اپنے سرپرست تلاش کرتے ہیں۔وہ قبائلی شیخ اور سردار ہوتے ہیں جن کے پاس وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے جاتے ہیں ۔ لیکن چونکہ اب شا م میں معمول کی صورت حال نہیں رہی اس لیے وہ اپنے مسائل کے لیے سرداروں اور شیوخ کے بجائے جنگجوئوں کے پاس جاتے ہیں۔لوگ اب النصرت عرف القاعدہ سے امیدیں بھی رکھنے لگے ہیں۔وہ ان کو دیگر باغی جنگجوئوں کے مقابلے میں بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ باقی جنگجو گروپ عام لوگوں کے اس قدر ہمدرد نہیں ، جتنا النصرت کے لوگ ہیں۔وہ لڑائی کے ساتھ ساتھ عام لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔

جن دنوں النصرت نے حلب پر حملہ کیا تو آس پاس کے دیہاتوں کے غریب لوگوں نے ان کی مدد کی ۔ اس کے بعد النصرت نے اہم پوزیشنو ںپر قبضہ کرکے اپنے آپ کو مضبوط بنالیا۔دیگر باغی جنگجوئوں نے ان کی لڑائی میں مہارت کو تسلیم کیا ۔ وہ بہتر طورپر مسلح اور منظم جہادیوں کے سامنے بے بس دکھائی دیے۔اس کے بعد یہ جہادی اپنی پوزیشن مضبوط کرتے گئے جبکہ دیگر باغیوں نے ان کے ساتھ کسی قسم کا تنازعہ اختیار نہ کرنے میں عافیت جانی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ہدف مشترکہ تھا یعنی بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنا۔

’’لیکن اس کے بعد انھوں نے اپنا آپ دکھانا شروع کردیا۔‘‘ حلب میں ایک سنیئر باغی کمانڈر کا کہنا تھا۔’’اب صورت حال بالکل واضح ہے۔جو کچھ وہ چاہتے ہیں، وہ ہم نہیں چاہتے۔‘‘

غیرملکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوںمیں کہا جارہا ہے کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران اب صورت حال یہ ہے کہ النصرت اور آزاد شامی فوج کے درمیان جو تعاون کی فضا تھی ، وہ ختم ہوچکی ہے اور اب وہ ایک دوسرے پر بمشکل ہی اعتماد کرتے ہیں۔گذشتہ ایک ہفتے کے دوران شمالی شام کے باغی گروپوں سے کی گئی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ جہادیوں اور مقامی لوگوں کے درمیان ایک قسم کی فرقہ واریت سر اٹھارہی ہے۔یہ فرقہ واریت آگے چل کرشدید مسائل کی وجہ بن سکتی ہے۔

بعض لوگوں نے ابھی سے کہنا شروع کردیا ہے کہ شام میں بھی وہی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جو 2006ء کے اواخر میں عراق میں پیدا ہوئی تھی جب فلوجہ اور رمادی میں سنی آبادی نے القاعدہ سے لڑائی شروع کردی تھی کیونکہ القاعدہ نے یہاں پر بندوق کے زور پر شریعت کے نفاذ کی کوشش کی تھی۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ جیسے ہی اسد حکومت ختم ہوئی ، وہ اپنے راستے النصرت سے الگ کرلیں گے۔اطلاعات کے مطابق گذشتہ چند ہفتوں کے دوران باغیوں اور آزاد شامی فوج نے اپنے آپریشن اپنے طور پر شروع کردیے ہیں اور وہ اس میں النصرت کو شامل نہیں کررہے۔

اسی قسم کی ایک کارروائی میں حلب کے شمال میں ایک انفنٹری اسکول پر حملہ کیا گیا۔اسی طرح ایک حملہ بٹالین 80 پر کیا گیا جو کہ شہر کے بین الاقوامی ائیرپورٹ کے نواح اور مشرق میں ایک فوجی اڈے پر تھا۔باغی لیڈ ر نے بتایا کہ وہ ان سے خوش نہیں لیکن وہ ہتھیار جمع کررہے ہیں۔اس کے علاوہ باغی لیڈروں کو ایک اور اہم مسئلے کا بھی سامنا ہے۔وہ یہ ہے کہ ان سرکاری اثاثوں کا کیا کیا جائے جو مخالفوں کے قبضے میں آرہے ہیں۔

ایک باغی کمانڈر نے النصرت پر الزام عائد کیا کہ وہ ایسی اشیا چوری کرتے پائے گئے ہیں جو حکومت کی ملکیت تھیں۔مثال کے طور پر تانبے کی فیکٹریاں ، یا کوئی بھی دوسری فیکٹری وغیرہ۔ وہ یہاں سے ملنے والی قیمتی اشیاء ترکوں کو بیچ رہے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والے پیسے کو استعمال کررہے ہیں۔باغی کمانڈر کا کہنا تھا کہ یہ غلط ہے۔ یہ لوگوں کا پیسہ ہے۔

کمانڈر نے مزید بتایا کہ ایک روز قبل النصرت کے جنگجوئوں نے دریائے فرات کے قریب واقع ایک سرکاری واٹر فیکٹری پر دھاوا بولا۔ انھوں نے دیگر باغی دستوں کو بھی دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ چلیں تاکہ فیکٹری میں موجود سامان کو اٹھاکر بیچ دیا جائے اور اپنے لیے ذرائع پیدا کیے جائیں لیکن صرف ایک باغی یونٹ نے ان کا ساتھ دیا جبکہ باقی نے انکار کردیا۔مبصرین کے مطابق النصرت کو بہت سا پیسہ مل رہا ہے۔ بہت سا پیسہ سنی عرب دنیا کی جانب سے آرہا ہے۔اس کے لیے سرکاری اثاثے فروخت کرکے بھی وہ اپنے سرمایے میں اضافہ کررہے ہیں۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اثاثے شام اور شامی لوگوں کے ہیںاور اسد حکومت کے خاتمے کے بعد یہ اثاثے ریاست کی زندگی کے لیے بہت اہم ہیں۔

القاعدہ کس طرح اپنے نظریات کو لوگوں پر ٹھونس رہی ہے ، اس کی عکاسی حلب کے شمال میں دیباک نامی ایک چھوٹے سے گائوں میں پیش آنے والے واقعے سے ہوتی ہے۔یہاں پر النصرت کے جنگجوئوں نے علاقے کا دورہ کیا جس کا مقصد ایک قبر کو توڑنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ قبر اسلامی روایات کے برعکس بہت قیمتی اور نمائشی تھی جبکہ اسلامی شریعت کی رو سے قبر سادہ ہونی چاہیے۔انھوں نے قبر کے ارد گرد قیمتی پتھروں کو توڑ ڈالا جبکہ ایک قریبی قصبے اعزاز میں بھی یہ عمل دہرایا۔ ایک مقامی شیخ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی اقدار کو ان پرمسلط کرنا شروع کردیا ہے۔

ایک اور باغی کمانڈر نے بتایا کہ حلب کے علاقے میں ایک شخص ان کے پاس آیا۔وہ تیونسی تھا اور ایمن الظواہری کی جانب سے ان کے لیے ایک پیغام لایا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ وہ لوگ ان کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ ان کواس سے بہت فائدہ ہوگا۔اس نے انھیں کہا کہ وہ القاعدہ کی بعیت کرلیں۔’’لیکن ہم نے انکار کیا۔‘‘ باغی کمانڈر بتارہا تھا۔’’ہمیں انھیں انکار کرنے کا حوصلہ کرنا چاہیے۔اگر ہم ان کا ساتھ دیتے رہے تو وہ شام جس کا ہم خواب دیکھ رہے ہیں، ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن جائے گا۔‘‘

ان باغی کمانڈروں کے برعکس عام لوگوں کی بڑی تعداد النصرت کے بارے میں مثبت رائے رکھتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ النصرت کے جنگجو دیگر جنگجوئوں سے اچھے اخلاق والے ہیں۔وہ نرمی اور تحمل سے بات کرتے ہیں۔مقامی لوگوں کے مسائل حل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ ان کی شکایات سنتے ہیں اور بعض اوقات راشن اور ایندھن کے لیے ان کی مدد کرتے ہیں۔ان کے تنازعات حل کرتے ہیں۔عرب ممالک کی عمومی ثقافت ہے کہ لوگ اپنے سرپرست تلاش کرتے ہیں۔شام میں بھی ایسا ہی ہے۔وہ قبائلی شیوخ اور سرداروں کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے جاتے ہیں لیکن چونکہ اب شا م میں معمول کی صورت حال نہیں رہی بلکہ خانہ جنگی ہے، اس لیے وہ اپنے مسائل کے لیے بھی جنگجوئوں کے پاس جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ باقی جنگجو گروپ عام لوگوں کے اس قدر ہمدرد نہیں ، جتنا النصرت کے لوگ ہیں۔وہ لڑائی کے ساتھ ساتھ عام لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔

تاہم مبصرین کو القاعدہ سے منسلک خدشات کی نوعیت سنگین ہے اور یہ طویل المیعاد خدشات ہیں جن میں سب سے بڑا خدشہ فرقہ وارانہ فساد کے حوالے سے ہے۔آزاد شامی فوج اور دیگر باغی گروپوں کا کہنا ہے کہ جہادیوں اور النصرت گروپ کا رویہ انھیں غصہ دلاتا ہے۔یہ لوگ انقلاب کو ہائی جیک کرسکتے ہیں۔حلب میں جہادیوں اور باغیوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ یہ جہادی اسامہ بن لادن کے نظریات کے پیروکار ہیں اور شام کو عالمی جہاد کا تھئیٹر بنانا چاہتے ہیں۔اس کے مقابلے باغی گروپ اپنے مقاصد کو قوم پرستی تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔اس کے مقابلے میں القاعدہ ایسا ہی چاہتی ہے۔ایک سینیر باغی کمانڈر کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اسد حکومت کے ختم ہوتے ہی ان کا اگلا ہدف جہادی ہوں گے۔

قارئین، کہا جارہا ہے کہ اسد حکومت کے خلاف شام میں جاری خانہ جنگی اب آخری مرحلے میں ہے۔لیکن ایسا ہونے کے بعد ملک میں امن واقعی قائم ہوجائے گا؟ یا اس کے بعد جہادیوں اور (سیکولر) باغیوں میں لڑائی شروع ہوجائے گی اور ملک فرقہ ورانہ قتل وغارت کا گڑھ بن جائے گا؟کیا شام ایک اور افغانستان بن جائے گا جہاں امن صرف ایک خواب ہوگا؟ یا کسی معجزے کے نتیجے میں وہاں پر امن قائم ہوجائے گا؟ان سوالوں کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔