پاکستان سپر لیگ ایک اچھی سوچ مگر انجام کیا ہوگا؟

سلیم خالق  ہفتہ 2 فروری 2013
پی سی بی نے ہارون لورگٹ کو پاکستان سپر لیگ کا کرتا دھرتا مقرر کیا ہے۔ فوٹو : فائل

پی سی بی نے ہارون لورگٹ کو پاکستان سپر لیگ کا کرتا دھرتا مقرر کیا ہے۔ فوٹو : فائل

 کرکٹ اب ایک کھیل نہیں بلکہ کاروبار بن چکا،اربوں روپے کی مارکیٹ سے ہر ملک اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے۔

اس کے لیے نت نئے طریقے سوچے جا رہے ہیں، بھارت چونکہ ایک بڑا ملک ہے اس لیے وہ اس دوڑ میں سب سے آگے نکل آیا، ٹوئنٹی 20 لیگز تو دیگر ممالک میں بھی ہو رہی ہیں مگر کمرشل طور پر اتنی کامیاب نہیں رہیں جتنی آئی پی ایل ثابت ہوئی، ایک عام پاکستانی بالی ووڈ کی فلموں میں جو بھارت دیکھتا ہے حقیقت کا اس سے دور دور تک تعلق نہیں، وہاں اتنی غربت ہے جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، ایک بار جب کوئی بھارت جائے تب اسے زمینی حقائق کا علم ہو گا، ڈراموں و فلموں میں اربوں روپے کی باتیں کرنے والے ملک کی اکثریتی آبادی عزت سے روٹی کھانے کے لیے بھی ترستی ہے۔

اس کے باوجود وہاں کرکٹ اور فلم کو مذہب جیسا درجہ دیا جاتا ہے، کسی کی جیب میں زیادہ پیسے نہ بھی ہوں تو بھی وہ فلم دیکھنے ضرور جائے گا ، تین گھنٹے سینما ہال میں بیٹھ کر وہ خود کو ہیرو کی جگہ محسوس کرتا اور پھر خوش خوش باہر آتا ہے، اسی طرح کرکٹ میں بھی بیشتر ون ڈے اور ٹیسٹ میچز کے دوران اسٹیڈیمز میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، کئی روز قبل ہی تمام ٹکٹیں فروخت ہو جاتیں اور پھر بلیک میں دگنے نرخوں پر بیچا جاتا ہے، بھارتیوں کے بارے میں یہ حقائق سب ہی کو معلوم ہیں، انتہائی شاطر شخص للت مودی نے اسی کا فائدہ اٹھانے کا سوچا۔

انھوں نے انڈین پریمیئر لیگ کا منصوبہ بنا کر فرنچائز ٹیمیں فروخت کیں، کھلاڑیوں کی بھی نیلامی کی گئی، یہ منصوبہ بہترین ثابت ہوا، بی سی سی آئی جو پہلے ہی اتنا مالدار تھا کہ دیگر کھیلوں کو بھی اس سے مالی امدادملتی تھی، اب اس کے پاس اتنی رقم آ گئی کہ کہاں خرچ کرے سمجھ میں ہی نہیں آیا، ایسے میں سابق کرکٹرز کے لیے ’’ون ٹائم بینیفٹ اسکیم‘‘ شروع کر کے اربوں روپے بانٹ دیے گئے،ڈومیسٹک فرسٹ کلاس ایونٹ رنجی ٹرافی سے نوجوان پلیئرز لاکھوں روپے کمانے لگے، لیگ میں شریک پلیئرز کے بھی مزید وارے نیارے ہو گئے،مجھے اولین آئی پی ایل کے لیے بھارت جانے کا موقع ملا، وہاں نہ صرف عام شائقین بلکہ سیاستدانوں اور اداکاروں کی ایونٹ میں دلچسپی دیکھ کر حیران رہ گیا تھا، بعد میں للت مودی زیرعتاب ہو کر ملک سے بھاگ نکلے تب بھی پریمیئر لیگ کا سفر جاری رہا۔

گذشتہ مالی سال بی سی سی آئی کی آمدنی 382کروڑ روپے تھی، گذشتہ برس کے مقابلے میں 101.53 فیصد کا اضافہ آئی پی ایل کے ہی مرہون منت تھا، بورڈ کی مکمل مالیت 3ہزار 308 کروڑ روپے سے بھی زائد ہے، دنیا کے کئی کرکٹ بورڈز مل جائیں تب بھی ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہوگی، ایسے میں دیگر ممالک کے منہ میں بھی پانی بھر آیا، سب نے کوشش کی کہ آئی پی ایل کی طرز پر اپنی لیگ شروع کریں، ایشیا میں سری لنکا اور بنگلہ دیش نے جب لیگز کے سمندر سے دولت نکالنے کے لیے جال ڈالا تو چند چھوٹی مچھلیوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا، وجہ سر پر بھارتی سرپرستی کا ہاتھ نہ ہونا تھا، بی سی سی آئی خود اپنے کھلاڑیوں کو کسی ملک کی ٹی ٹوئنٹی لیگز کے لیے ریلیز نہیں کرتا مگر اس کی لیگ میں دنیا بھر کے کھلاڑی ڈالرز کی چمک دیکھ کر کھنچے چلے آتے ہیں۔

اصول پسندی کے راگ الاپنے والے انگلینڈ اور آسٹریلوی بورڈز بھی مفادات دیکھ کر چپ سادھ لیتے ہیں۔ پاکستان گذشتہ کئی برس سے عالمی کرکٹ میں تنہائی کا شکار اور اب اس نے بھی اپنی لیگ کرانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے، دیکھنا یہ ہو گاکہ اسے کس حد تک کامیابی ملتی ہے، پاکستانی لیگ جس میں اب سپر کا اضافہ کر دیاکئی برس پہلے بھی زیربحث آئی مگر سابق بورڈ آفیشلز کی نااہلی کے سبب عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا،اب موجودہ چیئرمین اس خواب کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، میں نے اب تک ذکا اشرف کے بارے میں جتنا جانا اس کے مطابق وہ ایک بار کسی کام کا تہیہ کر لیں تو اسے کر کے ہی رہتے ہیں، ایسے میں یہ بات یقینی نہیں کہ ہر بار کامیابی ہی ملے، جیسے انھوں نے بھارت سے باہمی کرکٹ روابط بحال کر دیے مگر بنگلہ دیش کو بلا کر سونے ملکی میدان آباد کرنے کا خواب ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود پورا نہ کر سکے۔

ان کے بعض قریبی لوگ نجی محفلوں میں کہتے پھرتے ہیں کہ ’’یہ عجیب آدمی ہے خود تو رات 2بجے تک کام کرتا رہتا ہے ہم پر بھی نیندیں حرام کر دی ہیں‘‘ ذکا اشرف کا جذبہ قابل تعریف اور ملک میں کرکٹ کے احیا کی خواہش ہر پاکستانی کو ہے، مگر ہمیں زمینی حقائق بھی ذہن میں رکھنے چاہئیں، درحقیقت سندھ کے سابق وزیر کھیل اور موجودہ مشیر ڈاکٹر محمد علی شاہ نے انٹرنیشنل ورلڈالیون کے نام سے ایک ٹیم پاکستان بلا کر پی سی بی کو دبائو کا شکار کیا، لوگ یہ باتیں کرنے لگے کہ جب وہ غیرملکی کرکٹرز کو بھاری رقم دے کر بلا سکتے ہیں تو بورڈ کی تو یہ ذمہ داری بھی ہے اس نے ایسا کیوں نہیں کیا، یوں پاکستان سپر لیگ کے منصوبے کو ہنگامی طور پر آگے بڑھایا گیا، آگے سیاسی حالات کیا ہوں گے کوئی نہیں جانتا،اس کے باوجود ذکا اشرف لیگ شروع کرا دیں۔

لہٰذا وہ تندہی سے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان سپر لیگ کامیاب ہو سکے گی اس کا جواب ماہرین ناں کی صورت میں ہی دے رہے ہیں، لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے سے چھلنی چھلنی ہونے والی پاکستانی کرکٹ اب تک آئی سی یو وارڈ میں مفلوج پڑی ہوئی ہے، اس طرح کی لیگز اس میں زندگی کی چھوٹی سے رمق تو واپس لے آئیں گی مگر دوبارہ پہلے کی طرح قدموں پر کھڑا ہونا مشکل ہے، اس کے لیے ہمیں اپنے ملکی حالات بہتر بنانا ہوں گے، ذرا سچے دل سے بتائیں ، کراچی یا پشاور سے باہر رہنے والے کسی شخص کو وہاں آکر رہنے کو کہا جائے تو کیا وہ تیار ہو گا؟گذشتہ دنوں ایک دوست کو چند روز کے لیے پشاور جانے کا کہا گیا تو اس کے گھر والوں نے ایسے روتے ہوئے رخصت کیا جیسے جنگ کے محاذ پر جا رہا ہے، اسی طرح ہم کراچی والے دیگر شہر کے کسی دوست کو مدعو کرتے ہیں تو وہ حالات سے ڈر کر کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہے، لاہور بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں۔

وہاں سری لنکن ٹیم کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اسے کوئی کبھی فراموش نہیں کر سکے گا، غیرملکی ٹیمیں اسی وجہ سے پاکستان آنے کو تیار نہیں، اب صرف پیسے کی کشش ہی واحد ذریعہ ہے جس سے کھلاڑیوں کو اپنی جانب کھینچا جا سکتا ہے، کیون پیٹرسن، کرس گیل اور گریم اسمتھ جیسے پلیئرز کے پاس پہلے ہی اتنی دولت موجود ہے کہ وہ چند لاکھ ڈالرز کے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہیں گے، پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دیگر بورڈز بھی پاکستان کو سپورٹ نہیں کر رہے، ٹیم بھیجنے کی وعدہ خلافیوں پر بنگلہ دیش سے پی سی بی کے تعلقات خراب ہو چکے، پریمیئر لیگ کے لیے پلیئرز ریلیز نہ کرنے کے بعد اب اس سے اپنے کھلاڑی یہاں بھیجنے کی توقع رکھنا درست نہیں،سری لنکا کے ساتھ گوکہ باہمی لیگز کے لیے پلیئرز ریلیز کرنے کا معاہدہ ہے مگر پاکستان نے لیگ کا شیڈول بناتے وقت یہ نہ سوچا کہ انہی تاریخوں میں بنگلہ دیش و سری لنکا سیریز میں مقابل ہوں گے، یہ سیریز آئی سی سی فیوچر ٹور پروگرام کا حصہ اور کئی برس قبل فائنل ہوچکی تھی، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ اپنے پلیئرز کو بھیجنے سے گریزاں ہیں۔

اب ایسے میں لیگ میں کون حصہ لے گا؟گذشتہ دنوں سابق انگلش وکٹ کیپر فل مسٹارڈ نے ایونٹ میں دلچسپی ظاہر کی مگر صاف کہہ دیا کہ ایک لاکھ ڈالر (تقریباًایک کروڑ پاکستانی روپے) سے کم پر بات نہ ہو گی، قارئین کو گوگل پر سرچ کرنے کی زحمت سے بچانے کے لیے بتاتا چلوں کہ انھوں نے 10 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میںحصہ لیا ہے،جب ایک ایسا کھلاڑی یہ بات کر رہا ہے تو اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ دنیا ہمارے ایونٹ کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے، زمبابوے ، کینیا، اسکاٹ لینڈاور دیگر ممالک کے غیرمعروف کھلاڑیوں کو بلا کر اربوں روپے ضائع کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟ پی ایس ایل کے منیجنگ ڈائریکٹر سلمان سرور بٹ نے دعویٰ کیاکہ 50 سے زائد غیرملکی کرکٹرز سے معاملات طے ہو چکے، اب ان میں کتنے بڑے نام شامل ہیں وہ یہ نہیں بتا رہے،ایونٹ کنسلٹنٹ ہارون لورگاٹ سری لنکا سے مال کما کر اب پاکستانی کرنسی بھی اپنے اکائونٹ میں منتقل کرا رہے ہیں، انھوں نے اپنی تنخواہ حلال کرنے کے لیے خاصی کوششیں بھی کی ہیں، البتہ اس سوال کا جواب دینے میں مشکلات کا سامنا ہے کہ ’’جب وہ آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو تھے تب کیوں پاک سرزمین سے ورلڈکپ اور چیمپئنز ٹرافی منتقل کی، اگر یہاں سکیورٹی اتنی اچھی تھی تو اس وقت غیرملکیوں کو کیوں قائل نہیںکیا‘‘۔

پی سی بی اس پروجیکٹ میں اب کافی آگے نکل چکا مگر مسائل کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، پاکستانی ٹیم بھی ایونٹ کے آغاز پر ہی جنوبی افریقہ سے واپس آئے گی، طویل ٹور کے بعد کھلاڑیوں کو ایکدم سے ڈومیسٹک لیگ میں حصہ لینا پڑے گا،اب ایسے میں ہمیں اپنے طور پر ہی ٹورنامنٹ کو کامیاب بنانا ہو گا،پاکستان سپر لیگ کو پاکستانی اسٹارز ہی سپر ہٹ بنائیں، مناسب حکمت عملی سے بڑے غیرملکی کھلاڑیوں کے بغیر بھی کسی حد تک مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں،ہمارے شاہدآفریدی اور سعید اجمل جیسے کھلاڑی بھی کسی سے کم نہیں، انھیں دیکھنے بھی عوام کا جم غفیر اسٹیڈیم آ سکتا ہے،فرنچائزز خریدنے والوں کی بھی ملک میں بڑی تعداد موجود ہوگی لہٰذا غیرملکیوں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی ہی لیگ کرا کر دیکھ لینی چاہیے۔

ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان نہ صرف کرکٹ بلکہ کئی معاملات میں دنیا سے الگ کھڑا ہے،آئی پی ایل جیسے ایونٹ میں کسی پاکستانی کرکٹر کو نہ دیکھنا خاصا افسوسناک ہوتا ہے، ایسے میں ہمیں اپنے آپ کو ہی مضبوط بنانا چاہیے، دولت کے بل بوتے پر بھارت اتنا طاقتور ہو چکا کہ تمام بورڈز اور آئی سی سی اس کے تابع ہیں، امپائر ڈسیشن ریویو سسٹم ہی اس کی واضح مثال ہے، بی سی سی آئی کی مخالفت کے سبب اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکا، کونسل نے تمام بورڈز کو اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو عمل کر سکتے ہیں، اب بھارت کی اتنی ہمت ہو چکی کہ کھلم کھلا کہہ دیا کہ ہمیں یہ نظام قبول نہیں، اگر ہم سے میچز میں کسی نے لاگو کیا تو سیریز سے ہی دستبردار ہو جائیں گے، یقیناً آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ بھی بڑھتے ہوئے بھارتی اثرورسوخ سے خوش نہیں، مگر چیمپئنز لیگ جیسے ایونٹس سمیت دیگر ذرائع سے بھاری آمدنی مخالفت کی بھی اجازت نہیں دیتی، ان کے اپنے ممالک میں کئی میچز کو کئی بھارتی اسپانسرز کا تعاون حاصل ہوتا ہے، آئی سی سی کے ہر بڑے ایونٹ کے بڑے اسپانسر ادارے بھارت سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

ایسے میں سب خاموش ہو کر جو بی سی سی آئی کہتا ہے اس پر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان نے بھی بھارت سے دوستی کے لیے خلوص دل سے کوششیں کیں مگر سرحدی کشیدگی کے بعد سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا، بی سی سی آئی نے روایتی حریف سے سیریز کھیل کر خود تو اربوں روپے کما لیے مگر جب پی سی بی کی باری آنے لگی تو نگاہیں پھیر لیں۔

اس وقت پاکستان بدترین مسائل کا شکار ہے، مشکل وقت میں کم لوگ ہی ساتھ دیتے ہیں اور خود ہی ہمت کر کے اٹھنا پڑتا ہے، ہمیں بھی ایسا کرنا پڑے گا، غیرملکی ٹیمیں نہیں آ رہیں نہ آئیں، بھارت نہیں کھیلنا چاہتا نہ کھیلے، ہمیں جو مواقع دستیاب ہیں انہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو منوانا ہو گا، کرکٹ میں دولت نہیں کارکردگی سے نام ہوتا ہے، بھارتی بورڈ بہت دولت مند ہے مگر اس کی ٹیم کی حالیہ عرصے میں کتنی شرمناک پرفارمنس رہی، دوسری جانب گرین شرٹس ہر جگہ اپنی کارکردگی کا لوہا منوا رہے ہیں، محمد حفیظ اورسعید اجمل آئی پی ایل کھیلے بغیر ہی سپر اسٹارز ہیں، ٹیم اسی طرح عمدہ پرفارم کرتی رہی تو پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکیں گی، ہماری کرکٹ کا مستقبل اب اپنے کھلاڑیوں کے ہی ہاتھوں میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔