کولہو کے بیل

رئیس فاطمہ  اتوار 25 جون 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کئی سال  کے اخبارات اٹھاکر دیکھیے۔ رمضان سے قبل حکمرانوں کے بیانات دیکھیے۔آپ کو یوں لگے گا کہ پاکستانی معیشت اور لیڈروں کے بیانات کی وہی کیفیت ہے جوکولہو کے بیل کی ہوتی ہے۔ اب تو تیل بھی جدید ترین مشینوں سے نکالا جاتا ہے۔ یہ جب کی بات ہے جب بیل کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کر ایک دائرے میں گھومنے کے لیے چھوڑدیا جاتا۔ مطلوبہ چیزکا تیل نکل آتا ہے، خواہ ناریل ہو،رائی ہو یا بادام، بیل گول گول گھومتا رہتا ہے، لیکن اسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ صرف ایک دائرے میں محدود ہے،اس کا کام صرف تیل نکالنا ہے۔ تو یہاں عوام کا تیل حکمرانوں کے بیانات نکال رہے ہیں۔

ہر سال جب رمضان آتا ہے تو ہر ادارہ ایک تو زکوٰۃ حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ بڑے بڑے بینر ہر اسپتال کے اور ہر رفاہی ادارے کے سڑکوں پہ آویزاں ہوتے ہیں۔ بعض اداروں کا کام تو لوگوں کے سامنے ہے وہ خود اس طرف رجوع کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا SIUT جیسا نیک نام ادارہ LRBT۔ ایدھی فاؤنڈیشن کو ایدھی صاحب کے بعد فنڈز کی قلت کا سامنا ہے۔

انڈس اسپتال کا ریکارڈ بھی صاف ستھرا ہے،  لیکن یہ جو ہر رمضان میں برساتی مینڈکوں کی طرح ہزاروں ادارے جھولی پھیلائے اور کشکول تھامے کھڑے نظر آتے ہیں، کبھی کسی حکومت نے ان کا ریکارڈ طلب کیاکہ یہ کون لوگ ہیں؟ اور لوگوں کی جیبوں سے جو یہ مال انسانی ہمدردی اور خدا ترسی کے نام پر نکلوا رہے ہیں آیا اس کا کوئی ریکارڈ بھی ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو بتایا جائے کہ فنڈز انھوں نے کہاں خرچ کیے۔ کھمبیوں کی طرح اُگنے والے یہ ادارے زیادہ تر جعلی ہیں،  لیکن یقینا ان کی پشت پر کوئی مضبوط پارٹی ورکر یا پارٹی لیڈر ہے۔ جس کی آشیرواد سے یہ کاروبار خوب چمک رہا ہے۔گویا رمضان کاروبارکا مہینہ ہے۔

عام بازاروں اور جگہ جگہ لگنے والے اتوار، بدھ اور جمعہ بازاروں میں بکنے والے سامان کی کوالٹی اچھی نہیں ہوتی۔ جو مال سارا سال نہیں بکتا وہ رمضان کے بچت بازاروں اور چھوٹی موٹی مارکیٹوں میں بک جاتا ہے۔ ہر شے پر ’’رمضان آفر‘‘ کا اسٹیکر جگمگارہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا تھا کہ کئی سال  کے اخبارات نکلواکر دیکھ لیجیے۔ رمضان سے پہلے اور رمضان کے دوران لیڈروں کے ایک ہی جیسے بیانات ملیںگے۔ فرق اتنا ہے کہ تیل تو عوام کا نکل ہی رہا ہے لیکن کولہو کے بیل کی جگہ جس نے لی ہے اس کی آنکھوں پہ پٹی نہیں بندھی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ پاناما سے کیسے نکلنا ہے۔ قطری شہزادے کی کمزوری کیا ہے؟

ایک کاغذ کے پرزے والی وصیت کے نتیجے میں پورا خاندان اور آنے والی نسلیں کس طرح فیض یاب ہوںگی‘‘ یہ ٹوٹکا کس پیر و مرشد نے بتایا، سب جانتے ہیں۔ رمضان کو ایک طرح سے مہنگائی بڑھانے کا مہینہ قرار دے دینا چاہیے۔ ہر دکاندار خواہ قصائی ہو، سبزی فروش ہو، یا دیگر اجناس و اشیا کے علاوہ پھل فروش تک سب کو ایک نظر نہ آنے والا معاہدہ حکومت کی طرف سے مل جاتا ہے۔ جو جی چاہے کرو، جتنا جی چاہے لوٹو کہ حکومت ہی لٹیروں کی ہے۔ بندوق کے زور پر موبائل فون سے لے کر بڑی بڑی اشیا گھروںاور بینکوں کو لوٹنے والوں کو کس نے اجازت دی؟ یقینا کسی نہ کسی کی آشیر واد تو حاصل ہے۔ جبھی تو مجرموں کو پکڑنے کے باوجود نہ سزا ہوتی ہے نہ کارروائی …

سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا اور کماکر دینے والا شہر کراچی اس وقت نہ صرف مہنگائی بلکہ  ہزارہا مسائل سے دو چار ہے۔گندگی اورغلاظت کے ڈھیروں نے سیکڑوں وائرس پیدا کردیے ہیں۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں کسی اسپتال یا کسی حکیم اور ڈاکٹر کے پاس ۔ مریضوں کا جم غفیر نظر آئے گا۔ یوں لگتا ہے جیسے سارے ملک کی بیماریاں کراچی والوں پر حملہ آور ہوگئی ہیں۔

ہر معالج یہی خوش خبری سناتا ہے کہ ’’وائرل انفیکشن‘‘ ہے۔ شہر کی گندگی میں پیدا ہونے والے جراثیم اس بیماری کا سب سبب ہیں۔ کیا لوگ یہ نہیں جانتے کہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی جماعتیں کراچی سے کیوں سوتیلی ماں والا سلوک کرتی ہیں؟ لیکن کسی قدر قصور ان اتحادی جماعتوں کا بھی ہے جنھوں نے کراچی کا حلیہ بگاڑنے میں بھرپورکردار ادا کیا ہے۔ ’’تم چپ کرکے بیٹھو… جتنا جی چاہے چائنا کٹنگ کرو، ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ بس جو ہم کریں اس میں ہمارا ساتھ دو۔ اپنی ٹانگ مت اڑاؤ…‘‘یہی آج تک اس شہر کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہر ادارہ تعصب کا شکار ہے۔

صوبائی اسمبلی میں جب بل پیش ہوتے ہیں تو کچھ لوگ بائیکاٹ کردیتے ہیں۔ تاکہ وہ یہ کہہ کر اپنی جان بچاسکیں کہ …’’ جب یہ بل پیش ہوا تو ہم بائیکاٹ پر تھے‘‘… ارے بھائی آپ ایک ڈیل کے نتیجے میں بائیکاٹ پر تھے۔ تاکہ بعد میں آپ کے ووٹر آپ کا گریبان نہ پکڑیں۔ بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے بھلا کیوں اس ملک کے عوام کے ہمدرد اور غم گسار ہوںگے۔ ہر شاخ پہ اُلو تو محمد علی جناحؒ کی وفات کے بعد ہی بیٹھ گئے تھے۔ موجودہ صورتحال ’’انجام گلستان‘‘ کا ہے۔ جہاں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے۔

رمضان کی آمد سے پہلے جو بیانات لیڈروں کے جاری کیے جاتے ہیں۔ وہ صرف فوٹو اسٹیٹ بیانات ہوتے ہیں۔ مہنگائی کم کرنے کے دعوؤں سے لے کر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بے بنیاد دعوؤں تک سب جھوٹ کا پلندہ ۔ بار بار اپنا نام بدلنے کی آفر کرنے والے اتنے بے حس ہیں کہ انھیں شرمندگی بھی نہیں ہوتی کہ لوگوں سے کیا کہا تھا؟

ملک میں بجلی کی قلت نہیں ہے۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ بڑے بڑے کارخانوں، ٹیوب ویلوں اور با اثر صنعت کاروں کو بجلی چوری کی دی جارہی ہے۔ کراچی کو قبضے میں کرنے والا لینڈ مافیا اور اس کا سر پرست خوش ہیں کہ کراچی کے باسی بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ سحری اور افطاری اندھیروں میں کررہے ہیں۔ گرمی کا عذاب قہر بن کر ٹوٹ رہا ہے لیکن نئی نئی بستیاں اور بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔

آخر اس شہر پر کسی کو رحم آئے گا یا نہیں ؟ کہتے ہیں رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں کا ہے…؟… مگر کسی نے سچ کہا تھا کہ رمضان کی برکتیں صرف تاجروں اور سرمایہ داروں کے لیے ہیں۔ سالہا سال سے ایک جیسے گھسے پٹے بیانات، خواہ عید کے حوالے سے ہوں، رمضان کے حوالے سے ہوں یا کسی بھی دوسرے موقعے کے حوالے سے۔

بظاہر گراں فروشوں کے خلاف جرمانے کی خبریں۔ لیکن حقیقت صرف اور صرف بیان جاری۔ ایک طرف ٹیلی ویژن چینلز پہ انعامات کی بارش، رمضان کی برکتوں کا شور، نعتیں، مولویوں کے روح کو لرزادینے والے بیانا،ت جہنم کی آگ کون لوگ بنیںگے اور کون اﷲ کے نزدیک پسندیدہ ہوںگے؟ لیکن حقیقت اس کے برعکس، انعامات کی بارش کرنے والے چینلز کو کبھی ان بچوں کا یا بڑوں کا خیال نہیں آتا جو کوڑے سے رزق چنتے ہیں۔ سب دکھاوا اسپانسر کرنے والے ادارے اپنے اپنے بندے اگلی صفوں میں بٹھاکر اور کبھی پچھلی صفوں میں بٹھاکر جو انعام دلواتے ہیں اس کی حقیقت بھی سب کو پتہ ہے اینکر کے کان میں لگا مائیک ساری کارروائیاں کرتا ہے۔

پس پردہ آوازیں انعامات کے لیے لوگوں کو منتخب کرتی ہیں۔ کبھی ان چینلز نے نہیں سوچا کہ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے ذہنی اور جسمانی معذور افراد کو بھی کبھی انعامات کے لیے بلالیں یا ان اداروں کو چلانے والوں کو ہی کسی پروگرام میں بلالیں… لیکن نہیں… بھلا کیوں بلائیںگے۔ انھیں تو باریابی کا حکم بھی نہیں ہے۔ ٹی وی اسکرین پہ بیٹھ کر بڑے بڑے وعظ کرنا بہت آسان ہے۔

کسی چینل نے کبھی کوئی ایسا پروگرام نہیں کیا کہ کبھی ان ضرورت مندوں کو بھی پروگرام میں بلاکر انعامات دیں جن کے لیے محتاجی کی زندگی ہی نعمت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔