212 برس پہلے کی ایک دعوتِ افطار

زاہدہ حنا  اتوار 25 جون 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اور اسی کے ساتھ رمضان کے مہینے کو بھی ہم الوداع کہہ رہے ہیں۔ عدم برداشت اور عدم رواداری اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے۔ یہ عدم رواداری اور آویزش اگر صرف صلیب و ہلال کے درمیان اپنی جھلک دکھا رہی ہوتی تو غنیمت تھا لیکن اس وقت مسلم دنیا جسے ہم مسلم اُمہ کا نام دیتے ہیں، وہ مسلک اور فرقوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے۔

سعودی عرب اور قطر کے درمیان جو تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے اس نے دنیا کے تمام ذی ہوش افراد کو دہشت میں مبتلا کردیا ہے۔ مسلم ممالک کے دانشور اس کشمکش میں گرفتار ہیں کہ ابھی ہم مسلک کی بنیاد پر مذہبی انتہا پسندوں کی عسکریت پسندی سے نہیں نمٹ سکے تھے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاشی اور سیاسی بالادستی کی جنگ چھڑگئی ہے جو مسلم دنیا کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے غیر مسلم دنیا کے کئی رہنما لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ہمارے لیے یہ غور و فکر کے دن ہیں۔

ان دنوں 2 صدیوں پہلے کا وہ امریکی مدبر یاد آتا ہے جو ایک نئی مغربی قوم کی پیدائش کے مراحل کو دیکھ رہا تھا اور اسے آنے والی صدیوں کے لیے تیار کررہا تھا۔ اس کے دور رس خیالات کی قدروقیمت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف وہ امریکا کی آزادی کا میثاق تحریرکررہا تھا تو اس کے ساتھ ہی اس نے مذہبی آزادی کا قانون مرتب کیا۔ زندگی کے آخری دنوں میں اپنی لوح مزار اس نے خود تحریرکی جس پر اس نے لکھا کہ یہاں وہ شخص سوتا ہے جس نے امریکی آزادی کا میثاق لکھا۔ ورجینیا میں مذہبی آزادی کا قانون تحریر کیا اور یہ وہی تھا جو ورجینیا یونیورسٹی کا بنیاد گزار تھا۔

یہ جیفرسن کی خرد افروزی اور دوراندیشی تھی کہ اس نے ایک نئی قوم کی پیدائش کے لمحوں میں مذہبی آزادی کو اس قدر اہمیت دی۔ وہ مذہبی آزادی کو انسانی حقوق اور جمہویت کا ستون سمجھتا تھا۔اس کے خیال میں مذہبی آزادی کے بغیر دنیا میں آزادی کا پھیلاؤ اور جمہوریت کی پرورش ممکن نہیں تھی۔

تھامس جیفرسن کو دنیا کے مختلف مذاہب سے گہری دلچسپی تھی۔اس نے عربی پڑھی تھی اور جب وہ اپنی قانون کی تعلیم مکمل کررہا تھا، تب اس نے قرآن کا ایک نسخہ خریدا تھا، جسے جارج سیلز نے ترجمہ کیا تھا اور اس وقت تک قرآن کا بہترین ترجمہ خیال کیا جاتا تھا۔

یہی وہ معاملات تھے جن کی بنا پر اسے دوسرے مذاہب کے رسم و رواج سے دلچسپی ہوئی۔ یہ 1805ء کے دن تھے جب تیونس کے سفیر سدی سلیمان ملیملی نے امریکی صدر کو اپنی اسناد سفارت پیش کیں۔ یہ وہ دن تھے جب بربری ریاستوں اور امریکا کے درمیان تنازعہ چل رہا تھا۔ تھامس جیفرسن اپنی سوچ میں ایک روشن خیال اور آزاد فکر مدبر تھا۔ اس نے تیونس کے سفیر سدی سلیمان کی بطور سفیر آمد کو ایک اچھا موقع خیال کیا۔ یہ وہ دن تھے جب شمالی افریقہ کی ریاستیں تیونس، الجزائر اور طرابلس جو کہنے کو سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر تھیں لیکن در حقیقت آزاد تھیں، یہ بربر ریاستیں کہلاتی تھیں ان کی امریکا اور سوئیڈن سے جنگ چل رہی تھی۔

یہ جنگ 14 برس چلی لیکن اسی دوران جب تیونس کے سفیر سدی سلیمان کی سفارت واشنگٹن پہنچی تو صدر امریکا تھامس جیفرسن کی طرف سے 5 دسمبر 1805ء کو دعوتِ افطار کا اہتمام کیا گیا۔ عمائدین کو جو دعوت نامے جاری ہوئے ان میں یہ تحریر تھا کہ دعوتِ طعام غروبِ آفتاب کے ساتھ شروع ہوگی۔

تاریخ کی راہداری میں نکلیں تو بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔ ابتدا میں نے اس بات سے کی تھی کہ امریکی وہائٹ ہاؤس میں پہلی دعوتِ افطار تھامس جیفرسن نے 1805ء میں دی تھی۔ یہ روایت بہت آگے تک نہیں گئی۔ 1805ء کے بعد بہت دنوں تک وہائٹ ہاؤس میں نہ کبھی افطار ڈنر ہوا اور نہ کبھی دعوت عید۔ واشنگٹن پوسٹ میں ایمی وانگ نے لکھا ہے کہ فروری 1996ء میں یہ اس وقت کی خاتون اول ہیلری کلنٹن تھیں جنہوں نے قصرِ صدر میں عید ملن کا اہتمام کیا تھا جس میں 150 عمائدین مدعو کیے گئے تھے۔

اس تقریب میں مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ اسلام کے بارے میں انھوں نے بہت سی باتیں اپنی بیٹی چیلسی سے جانی تھیں۔ چیلسی ان دنوں اپنے اسکول میں مسلم تاریخ پڑھ رہی تھی اور اس نے اپنی ماں کو مسلم مذہبی تہواروں کے بارے میں بتایا تھا۔ ہیلری نے عیدالفطر کے موقعے پر اس دعوت کو ایک تاریخی تقریب کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایسی تقریبات پہلے بھی ہونی چاہیے تھیں۔

ہیلری کلنٹن کی پیروی کرتے ہوئے صدر جارج بش نے اپنے آٹھ سالہ عہدِ صدارت کے درمیان یہ سالانہ دعوتیں جاری رکھیں۔ یہ روایت انھوں نے اس وقت بھی نہیں ترک کی جب نائن الیون میں دہشتگردوں کے حملے کے بعد امریکا میں مسلمانوں کے خلاف امریکیوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ وہ نومبر 2001ء کے دن تھے جب عید ڈنر کے موقعے پر تقریر کرتے ہوئے صدر بش نے بہ اصرار یہ کہا تھا کہ امریکا اسلام سے نہیں، دہشتگردوں سے نبرد آزما ہے۔

صدر براک اوباما وہائٹ ہاؤس کے مکین ہوئے تو انھوں نے افطار ڈنر میں شریک ہونے والوں کو یاد دلایا کہ یہ امریکی صدر تھامس جیفرسن تھے جنہوں نے اب سے 2 سو برس پہلے تیونس کے سفیر کے اعزاز میں پہلا افطار ڈنر دیا تھا۔ صدر اوباما نے کہا کہ ’’میں نے صدر جیفرسن کی پیروی کی ہے۔ میں نے دو سو برس پہلے دیئے جانے والے افطار ڈنر کا نہ مینو بدلا ہے اور نہ کوئی اور روایت۔‘‘

صدر اوباما پر بہت اعتراضات ہوئے لیکن معترضین کو یہ بات یاد نہیں رہی کہ یہ روایت صدر تھامس جیفرسن نے ڈالی تھی اور وہ مذہبی آزادی کا زبردست مبلغ تھا۔ وہائٹ ہاؤس میں ہونے والی دعوتِ افطار سے 30 برس پہلے جیفرسن مذہبی آزادی کا وہ فرمان لکھ چکا تھا جو ریاست ورجینیا سے منسوب ہے اور جسے جیفرسن اپنی زندگی کی بہترین تحریر کہتا تھا۔ ابتدائی طور پر اس قانون کی مزاحمت ہوئی لیکن 1786ء میں یہ منظور کرلیا گیا تھا۔

231 برس پرانا مذہبی آزادیوں کا قانون آج دنیا کے لیے کس قدر اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ مختلف ملکوں میں رہنے والی اقلیتوں کے حالات سے لگایا جاسکتا ہے جنھیں اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر یا اپنی عبادات کو ادا کرنے کی آزادی نہیں۔ تھامس جیفر سن امریکی صدر تھا لیکن اس کا حقیقی اعزاز یہ ہے کہ اس نے امریکیوں اور دنیا کو ایک کثیرالمشرب سماج کا خیال دیا۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کے خیال میں دنیا کے تمام انسانوں کو مساوی اور حقیقی انصاف ملنا چاہیے۔

جیفرسن جب صدر منتخب ہوا اور اس نے وہائٹ ہاؤس کی رہائش اختیار کی تو اس وقت اس کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی تھی۔ کسی قسم کے کروفر کے بغیر وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر سوار ہوکر اس ادا سے وہائٹ ہاؤس میں داخل ہوا کہ اس کے ساتھ اس کے گارڈ اور دوسرے ملازمین موجود نہیں تھے۔ وہ تاشے باجے اور آتش بازی کے مظاہرے کو جمہوری اصولوں کے منافی سمجھتا تھا۔ اس کا لباس سادہ تھا، اس پر آرائشی فیتے نہیں ٹنکے ہوئے تھے۔ وہ اپنی حلف برداری کی تقریب میں پہنچا تو تنہا تھا۔ پیش دالان میں پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترا، اپنا گھوڑا اس نے کسی قریبی ستون سے باندھا۔ نئے سینیٹ چیمبر میں جاکر اس نے صدارتی حلف اٹھایا۔

گزشتہ دو سو برس کے عرصے میں چار یا پانچ امریکی صدور نے جو بہترین تقریریں کی ہیں، ان میں سے ایک جیفرسن نے کی۔ اس نے کہا کہ اکثریت کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ انھیں ووٹ نہ دینے والوں کا حق بھی اکثریت کے برابر ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مذہبی عدم برداشت جس کی وجہ سے انسانیت خون میں نہاتی رہی ہے اسے ہمیں دیس نکالا دے دینا ہے اور اسی طرح سیاسی عدم برداشت سے بھی ہمیں چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے کیوںکھ اسی کی وجہ سے آمرانہ خوبو پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے خونیں کشمکش ہوتی ہے۔

وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے جمہوریت، عدل و انصاف، رواداری اور مذہبی رواداری کے اصول وضع کیے۔ یہ وہی تھا جس نے وہائٹ ہاؤس میں پہلی دعوتِ افطار کا اہتمام کیا تھا، جو عربی جانتا تھا اور قرآن کا مطالعہ طالب علمی کے زمانے میں کرچکا تھا۔ اس نے سیاسی اور مذہبی رواداری کے جو بیج بوئے تھے ان کی اگر آبیاری کی جاتی تو دنیا ایک بہت بہتر جگہ ہوتی۔ امریکا نے بہت سی لڑائیاں نہیں لڑی ہوتیں، جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم نہ گرایا جاتا اور ویتنام جنگ میں لاکھوں انسان جان سے نہ جاتے۔

اس وقت نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے ہاتھوں اربوں ڈالر سے زیادہ کے اسلحے کا سودا کرکے فاتحانہ اپنے ملک واپس آئے ہیں۔ انھوں نے عرب ملکوں کے اتحاد کی باتیں کی ہیں جس کے فوراً بعد عرب ملکوں نے اپنے بردار اسلامی ملک قطر کے خلاف تلواریں سونت لی ہیں، مسلمانوں کے معاملات سے اتنی دلچسپی رکھنے والے ٹرمپ صاحب اب تک وہائٹ ہاؤس میں کسی دعوتِ افطار کا اہتمام نہ کرسکے۔ شاید وہ اپنے مسلمان شہریوں کو عید کی دعوت دے سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔