’’کیا ہے ہماری زندگی، زندہ درگور ہوگئے ہیں، بس اﷲ کا آسرا ہے‘‘

عبد الطیف ابو شامل / اشرف میمن  اتوار 3 فروری 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 یوم سوگ اور آخر کس کس کا سوگ، ہر طرف گولیوں کی برسات میں خلق خدا، بے یارومددگار، اپنے لہو میں نہائی ہوئی، ہُو کا عالم، چاروں اور سناٹا اور اس پر بے حس خوف کا راج، رگوں کو کاٹتی ہوئی خنجربکف سرد ہوا، زندگی کُند نشتر کی زد میں، سڑکوں پر اِکا دُکا گاڑیاں۔

ایسے عالم میں وہ ایک چورنگی پر زندہ لاش کی طرح سر جھکائے، اپنے اور اپنے اہل خانہ کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے رزق حلال کی تلاش وامید میں بیٹھے ہوئے، کیا ہے جیون، کیسی ہے اس کی کہانی؟
ہے اندھیرا سا مرے چاروں طرف
چاندنی کا استعارہ کھوگیا
زندگی اندھیر ہوگئی ہے، لوگ جگنو کو ترس رہے ہیں، راہ تک تک آنکھیں پتھرا گئیں۔

میں ان کے پاس جاکر رکا تو ان میں حرکت ہوئی، سب نے خوف زدہ ہوکر میری طرف دیکھا، پھر وہ کچھ سنبھل گئے۔ یہ راج مزدور تھے۔ رزق حلال کی تلاش میں امید کا دامن تھامے ہوئے، مجھے تو وہ سب پاکستان نظر آئے، سب اک دوجے کے سنگ، جن کا دکھ سکھ سانجھا تھا، ان سب کی زبانیں الگ تھیں، رسم و رواج، رہن سہن، بول چال الگ تھا، لیکن لہو کا رنگ ایک تھا، لہو کا رنگ ایک ہے۔

خان زمان باجوڑ کے ہیں۔ انہیں کراچی میں دس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔ پہلے وہ ریتی بجری کے ٹھیکے دار کے پاس مزدوری کرتے تھے۔ اس سے تلخ کلامی کے بعد انہوں نے اپنا کام شروع کردیا۔ وہ صبح سویرے چورنگی پر دیگر مزدوروں کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر جو بھی کام مل جائے کرلیتے ہیں۔ پانی کے ٹینک کی صفائی، راج مستری کے ساتھ کام، بلاک اٹھانا ہر کام کے لیے تیار رہتے ہیں۔ دو بچوں، والد والدہ کے ساتھ دو بہنوں کے بھی کفیل ہیں۔ ان کے گھر والے باجوڑ میں ہیں اور وہ یہاں اکیلے رہتے ہیں۔ جفاکش اور ایمان دار خان زمان کے بقول کام کرنا محنت کرنا ان کا کام ہے۔ صلہ تو ربّ کے ہاتھ میں ہے۔ ان کا عزم ہے کہ وہ اپنا کام محنت و ایمان داری سے کرتے رہیں گے۔ پھٹی پرانی جیکٹ کے اوپر بوسیدہ چادر اوڑھے خان زمان کا جیون تلخیوں، محرومیوں سے بھرا پڑا ہے، لیکن اب اس میں خوف اور بے یقینی در آئی ہے۔ آئے روز کی ہڑتالوں، احتجاج کے طوفان کے ساتھ قتل و غارت گری نے انہیں مایوسی اور خوف کا پتلا بنادیا ہے۔

کیسے گزارا ہورہا ہے پھر؟ میرے یہ کہتے ہی وہ پھٹ پڑا۔ بس صاحب! موت کے منہ میں بیٹھا ہوں۔ ہم بے آسرا لوگ، ہم نادار، کیا ہے ہماری زندگی، کبھی کوئی گولی آئے گی اور بس کہانی ختم، نہ جانے کفن دفن کا انتظام کیسے ہوگا، لیکن چلو ہم مرگئے تو پھر جو ہوتا ہے، ہوجائے گا۔ کتے بلّے ہی کھا جائیں گے۔ ان غریبوں کا ہی بھلا ہوجائے گا۔ میں اس کے اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اتنے مایوس کیوں ہو تم خان زمان؟

وہ ہنسنے لگا۔ بہت دیر تک ہنستا رہا۔ مایوس کیا ہوتا ہے صاحب! ابھی مایوس ہونے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے کیا؟ آپ پیٹ بھرے لوگ، ہم مزدور، ہم دیہاڑی دار، ہماری ہوائی روزی، بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے موت کے منہ میں بیٹھے ہیں اور پھر بھی کام نہیں ملتا ۔ اب مایوس بھی نہ ہوں تو کیا ہوں؟ لوگ بولتے ہیں صاحب! کہ قیامت آئے گی، اس سے بڑی قیامت بھی آئے گی کیا؟ زندہ درگور ہوگئے ہیں، کچھ نہیں، بس اﷲ کا آسرا ہے۔ انسان انسان کے خون کا پیاسا۔ اول تو کام ملتا نہیں ہے، مل بھی جائے تو لٹ جاتے ہیں۔

کیا مطلب لٹ جاتے ہیں۔

ابھی تین دن پہلے میرے پاس چھ سو روپے تھے، مغرب کی نماز پڑھ کر نکلا تو پیدل آرہا تھا، راستے میں دو لڑکوں نے روک لیا، پہلے تو انہوں نے موبائل مانگا، ہم غریب لوگوں کے پاس کہاں ہے موبائل، میں نے کہا نہیں ہے، ایک نے مجھے تھپڑ مارا اور تلاشی لی۔ موبائل تو تھا ہی نہیں، وہ دو دن کی مزدوری چھ سو روپے ہی لے کر چلے گئے۔ پچھلے مہینے کی بات ہے، ایک صاحب آئے تو گھر لے گئے کہ صفائی کرو اور یہ سامان دوسری منزل پر لے کر جاؤ۔ میں نے کہا صاحب! صفائی تو کردوں گا، سامان تو اکیلا نہیں لے کر جاسکتا تو اس نے کہا ڈرائیور بھی ہے۔ دن بھر کام کیا تو شام کو اس نے مجھے تین سو روپے دیے۔ میں نے کہا صاحب پانچ سو کی بات ہوئی تھی، بس وہ غصہ ہوگیا اور کہنے لگا اب تین سو بھی نہیں دوں گا۔ جو کرنا ہے کرلو۔ میں نے کہا چلو معاف کردو۔ تین سو ہی دے دو تو اس نے ڈھائی سو روپے دیے اور کہا پچاس روپے تم نے بحث کی ہے، اس لیے نہیں ملیں گے۔ یہ ہے زمانہ، صاحب! پھر آپ کہتے ہو مایوس نہ ہو۔ ہماری زندگی میں خوشی ہے ہی کب؟ بس چھوڑو۔ ایک دن ہم بھی گولی سے مرجائے گا اور لاش کتے بلّے کھا لیں گے۔ ابھی اور میرا دماغ مت خراب کرو، جاؤ صاحب! اپنا کام کرو۔

خان زمان کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے اﷲ ڈیوایا ساہی وال کے رہنے والے ہیں۔ انہیں بھی کراچی آئے ہوئے آٹھ سال ہوگئے ہیں، ان کی شادی نہیں ہوئی وہ بھی یہاں اکیلے ہی اپنے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ والد، والدہ، تین بہنوں اور دو چھوٹے بھائیوں کے کفیل ہیں۔
خان زمان تو بہت مایوس ہے آپ کیسے ہیں اللہ ڈیوایا؟

صاحب! یہاں تو ہر ایک خان زمان ہوگیا ہے۔ بہت مشکل ہے گزارا۔ اپنا پیٹ پالنا مشکل ہوگیا، تو گھر والوں کو کیا بھیجیں؟ کام ہی نہیں ہے، جب دیکھو ہڑتال ہے، سب کچھ بند، میں جب سنتا ہوں کہ کل ہڑتال ہوگی تو یوں لگتا ہے میرا دل ہی بند ہوجائے گا۔ کیا کریں کہاں جائیں، کس سے فریاد کریں؟ اس دن میں سڑک پر پیدل آرہا تھا تو پولیس والوں نے پکڑ لیا کہ کہاں سے آرہا ہے؟ تمہیں معلوم نہیں ہے ہڑتال ہے، پھر کوئی گولی ماردے گا تو تمہارے گھر والے روئیں گے۔ میں نے کہا میرا گھر ساہی وال میں ہے۔ بس عذاب ہوگیا یہ کہنا۔ سوال جواب شروع ، شناختی کارڈ دکھاؤ، میں نے دکھا دیا، کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا مزدوری۔ ایک نے اتنے زور کا تھپڑ مارا کہ کان میں اب بھی درد ہے۔ مزدوری کرتا ہے یا چرس بیچتا ہے؟ میں نے کہا قسم کھاتا ہوں کہ مزدوری کرتا ہوں، دوسرے نے لات ماری اور پھر تلاشی لی۔ 165 روپے تھے بس ۔ وہ رکھ کر کہنے لگے، چلو دفع ہوجاؤ، مزدوری کا بچہ۔ میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا کہ جان چھٹ گئی۔ سب ایک دوسرے کو لوٹ رہے ہیں، کیا چھوٹا کیا بڑا۔ اب گھر والوں کو دیکھو جانتے بھی ہیں کہ کراچی کے حالات کتنے خراب ہیں پھر بھی پیغام آتا رہتا ہے کہ پیسے بھیجو۔ پھر تم نے کیا کہا ؟ میری اپنے ابا سے بات ہوئی تھی تو وہ غصہ کر رہا تھا، وہ بھی مجبور ہے، بے چارہ کیا کرے انسان؟ میرا تو دل چاہتا ہے کہیں جاکر مر جاؤں، لیکن پھر سوچتا ہوں گھر والوں کا کیا بنے گا؟

کسی کے مرنے سے کچھ نہیں ہوتا، سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے۔ خان زمان نے زور سے کہا۔ مرنا ہے تو بم دھماکے میں مرو، گھر والوں کو حکومت لاکھ دو لاکھ تو دے دی گی۔ میں تو دعا کرتا ہوں کہ ایسے مرجاؤں تو کچھ پیسے گھر والوں کو مل جائیں۔

اوئے خان زمان! کوئی پیسے ویسے نہیں ملتے، بس ویسے ہی راگ دیتے ہیں، خان زمان اور اﷲ ڈیوایا آپس میں بحث کرنے لگے تو میں آگے بڑھ گیا۔

مبارک جان پشاور کے ہیں۔ قیوم آباد میں اپنی اہلیہ، تین بچوں اور بوڑھی ماں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ پہلے وہ فروٹ کی ریڑھی لگاتے تھے، وہ جس جگہ ریڑھی لگاتے تھے وہاں پر پولیس کا ایک کا رند ہ ان سے روزانہ 30 روپے لیتا تھا۔ ایک دن اس نے تیس روپے لینے کے بعد چار سیب بھی اٹھالیے تو مبارک جان نے احتجاج کیا، پھر جھگڑا ہوگیا تو وہ اپنی ریڑھی کھڑی کرنے والی جگہ سے بے دخل کردیے گئے۔ کورنگی کی ایک فیکٹری میں کچھ دن ٹھیکے دار کے ساتھ کام کیا، لیکن وقت پر محنتانہ نہیں ملتا تھا تو وہ مزدوری کرنے لگے۔ مبارک جان بھی حالات کا رونا روتے ہوئے گویا ہوئے۔ بس صاحب! مزدوری ہوائی ہے، لیکن کام تو کرنا ہی ہوگا، ہر طرف مارا ماری ہے، آپ خود دیکھو، ہم جو یہاں مزدور بیٹھے ہوئے ہیں کوئی پنجابی ہے، کوئی بلوچی، پٹھان۔ وہ سامنے بیٹھا ہوا راج مستری ستار بھائی اردو اسپیکنگ ہے۔ ہم میں تو کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، پھر یہ کون ہے جو ہم کو آپس میں لڑاتا رہتا ہے۔ ستار بھائی کو کام ملتا ہے تو میرے کو ساتھ لے کر جاتا ہے، کبھی ہم میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ ویسے بحث ضرور ہوجاتی ہے لیکن جھگڑا نہیں ہوا۔ ہم جیسے جاہل بھی نہیں لڑتے تو یہ پڑھے لکھے لوگ کیوں آپس میں لڑتے ہیں؟ تھوڑے دن پہلے میں اور ستار بھائی ایک جگہ کام کر رہے تھے۔ تقریباً ایک مہینے تک ہم نے کام کیا اچھے پیسے کمائے۔ لیکن ابھی ایک ہفتے سے زیادہ ہوگیا ہے کوئی کام نہیں ہے۔ آپ لوگ بھی سوچتے نہیں ہو، یہ مارم مار اس لیے ہے کہ کام نہیں ہے۔ جب سب لوگوں کے پاس کام ہوگا، پیسے ہوں گے تو یہ مارم مار ختم ہوجائے گی۔ بھوکا ننگا آدمی تو ہر برا کام کرتا ہے، پھر ہم لوگوں میں برداشت ختم ہوگئی ہے۔ ذرا سی بات ہو تو بس گولی چلنا شروع۔ سب بڑے باپ کے ہوگئے ہیں، اب دیکھیں اگر محلے میں کوئی میت ہوجائے تو ہم سب ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ سب لوگ اس آدمی کا کام سنبھالتے ہیں، جنازہ پڑھتے ہیں۔ ہم سب اسے قبرستان لے کر جاتے ہیں، قرآن خوانی میں بھی ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ ہم تو سب ایک ہیں، پھر جب میں یہ سنتا ہوں کہ یہ آپس کا جھگڑا ہے تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ یہ کچھ بدبختوں کی شیطانی ہے جو بھائی کو بھائی سے لڑاتے ہیں۔ جب ناحق خون بہتا ہے تو نحوست ہو ہی جاتی ہے، برکت ختم ہوجاتی ہے، بڑے بوڑھے کہتے ہیں ناں کہ اتفاق میں ہی برکت ہے۔ اپنے محلے میں تو ہم آٹا، چینی، سالن بھی ایک دوسرے سے مانگ لیتے ہیں، ہمارا تو سب کچھ سانجھا ہے۔

ہم نے ستار بھائی سے بات کی تو وہ گویا ہوئے۔
بھائی صاحب! ہم سب چور ہیں۔
وہ کیسے ستار بھائی؟

میں راج مستری ہوں، اب جب مکان بنتے ہیں تو ٹھیکے دار مکان بنانے کا طے کرلیتے ہیں، اور پتا ہے کیا کرتے ہیں؟
نہیں میں نہیں جانتا۔

بھائی صاحب! وہ کرتے یہ ہیں کہ سیمنٹ کم لگاتے ہیں، ہم اگر کہیں تو کہتے ہیں اپنی مزدوری سے واسطہ رکھو۔ ہر جگہ لوٹ مار، چور بازاری ہے۔ کل ہی ایک کام چھوڑ کے آیا ہوں، وہی ٹھیکے دار کی بے ایمانی۔ میں نے کہا کہ سیمنٹ اتنا ڈلے گا تو وہ کہنے لگا اس پر گزارا کرو۔ جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔ میں نے کہا تم بے ایمانی کر رہے ہو، میں تو نہیں کرسکتا، تو جھگڑا ہوگیا ۔ دو چار اس نے مارے اور دو چار میں نے۔ شکر ہے جھگڑا بڑھا نہیں۔ اب آپ بتائیں میں نے غلط کیا؟ حرام حلال کی تمیز ہی ختم ہوگئی ہے۔ یہ ہمارا مبارک جان تو بہت سیدھا ہے۔ کچھ بھی ہوجائے یہ کہتا ہے سب صحیح ہوجائے گا۔ دعا تو ہماری بھی یہی ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے۔ ایک دن ہم دونوں آرہے تھے، ویگن میں دو لڑکے چڑھ گئے اور لوٹ مار کرنے لگے۔ سارے لوگوں کے پیسے اور موبائل چھین لیے، یہ تو زمانہ آگیا ہے۔ ایک عورت نے اپنا موبائل سیٹ کے نیچے رکھ دیا تو ایک لڑکے نے موٹی سی گالی دے کر کہا ’’اپنے باپ کو نیچے کیوں رکھا؟‘‘ ساری ویگن خاموش بیٹھی رہی، تو بھائی صاحب! کوئی صحیح نہیں ہوگا۔

اب بس یہی بے غیرتی کی زندگی ہے تو گزاریں گے۔ کوئی مکان بنے تو پولیس اپنا بھتہ لینے آجاتی ہے۔ اب آپ بتائیں پولیس کا مکان بنانے میں پیسے مانگنا کہاں کی شرافت ہے؟ اگر کوئی مالک مکان پیسے نہ دے تو کام بند اور مزدوروں کو تھانے لے جاتے ہیں۔ اب آپ بتائیں ہمیں تھانے لے جانے کا کیا جواز ہے؟ ہم تو مزدور ہیں۔ یہاں بے بس پر ہی سب کا بس چلتا ہے۔ میں تو اب کسی سے نہیں الجھتا۔ چاہے کوئی پیسے چھینے، تھپڑ مارے یا گالی دے۔ ہم سب کے ساتھ یہی ہوتا رہتا ہے۔ کیا کریں ہمارا بس اﷲ ہی ہے۔ جب دیکھو ہڑتال ہے ، فائرنگ ہے، جلاؤ گھیراؤ ہے۔ کہیں بھی تو سکون نہیں ہے، گھروں میں بھی اسی مہنگائی نے جھگڑے کھڑے کیے ہوئے ہیں، کوئی نہیں سوچتا سب ایک دوسرے کو لوٹ رہے ہیں۔

کچھ نہیں تھا میرے پاس، کیا جواب دیتا انہیں، سر جھکائے رخصت ہوا، وہ وہیں بے یارومددگار بیٹھے ہوئے تھے۔
یہ ستارے، یہ فلک اور یہ زمین
پھول، پتے، تتلیاں سب رائیگاں
ہے خوشی کچھ دیر کی مہمان بس
غم سراپا جاوداں، سب رائیگاں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔