چیمپئنز ٹرافی پاکستان کو کئی اسٹارز دے گئی

عبد الرحمٰن رضا  اتوار 25 جون 2017
چیمپئنز ٹرافی سے قبل کوئی بھی پاکستانی ٹیم کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ فوٹو : فائل

چیمپئنز ٹرافی سے قبل کوئی بھی پاکستانی ٹیم کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ فوٹو : فائل

ان دنوں پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں بھی گرین شرٹس کے شائقین موجود ہیں وہ چیمپئنز ٹرافی میں فتح کا جشن منا رہے ہیں۔

ہونا بھی یہی چاہیے طویل عرصے بعد کسی عالمی اعزاز کا حصول واقعی ایسا کارنامہ ہے جس پر جتنی خوشیاں منائی جائیں کم ہیں، ویسے ہی پاکستانی بیچارے لوڈشیڈنگ،دہشت گردی اور غربت سمیت کئی مسائل کا شکار ہیں ایسے میں کرکٹ نے اگر انھیں وقتی طور پر ان سے پیچھا چھڑانے کا موقع دیا تو یہ اچھی بات ہے۔

چیمپئنز ٹرافی میں فتح نے ثابت کر دیا کہ ہم پاکستانی ایک ہیں، ملک بھر میں پوری ٹیم کو سپورٹ کیا گیا، کسی نے یہ نہ کہا کہ فلاں کھلاڑی اس شہر کا ہے، سب یکجا ہو کر ٹیم کی فتح کے لیے دعائیں کرتے رہے، اس ایونٹ سے ہمارا قومی اتحاد واضح ہوا، ہمیں یہ جذبہ برقرار رکھنا چاہیے۔

پوری دنیا یہ بات تسلیم کر رہی ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں 8 برس سے کوئی بڑی غیرملکی سائیڈ کھیلنے نہیں گئی وہ آج سب پر راج کر رہا ہے، کہا جا رہا تھا کہ سونے میدانوں سے نوجوانوں کی کھیل میں دلچسپی ختم ہو جائے گی مگر اب بھی ہمارے ملک میں نئے ٹیلنٹ کی بہتات ہے، کرکٹ کا شوق بھی برقرار رہا، چیمپئنز ٹرافی کے دوران لوگ ٹی وی اسکرین کے سامنے سے ہٹے نہیں، کھلاڑیوں نے بھی انھیں مایوس نہ کیا اور فاتح بن کر ہی واپس لوٹے، ایسے میں پی سی بی کی روایتی بدانتظامی بھی دیکھنے میں آئی۔

اتنی بڑی کامیابی پر کھلاڑیوں کو ایک ساتھ وطن بلانا چاہیے تھا مگر وہ اس طرح حصوں میں لوٹے جیسے ہار کر آ رہے ہوں، پانچ پلیئرز تو واپس ہی نہیں آئے حالانکہ انھیں آ کر ہم وطنوں کی محبت دیکھنی چاہیے تھی، بس میں بٹھا کر ٹیم کو مختلف شہروں کا چکر لگایا جاتا تو یہ منظر دیکھنے والا ہوتا مگر افسوس ایسا نہ ہوا، اس کے باوجود جو کرکٹرز واپس آئے ان پر عوام نے چاہت کے پھول نچھاور کیے، ایسا استقبال بہت عرصے بعد کسی کا ہوا ہوگا۔

خصوصاً سرفراز احمد کے گھر کے باہر تو ہزاروں کا مجمع جمع تھا، زندہ قومیں اپنے ہیروز کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہیں۔ مجھے خاص طور پر محمد عامر کے لیے خوشی ہے، میری طرح اس کا تعلق بھی گوجرخان سے ہے، جب وہ اسپاٹ فکسنگ کے سبب پابندی کا شکار ہوئے تو پوری قوم کو ان پر بہت غصہ تھا، پھرپابندی ختم ہونے کے بعد جب وہ ٹیم میں واپس آئے تو اس کی بھی بڑی مخالفت ہوئی، کارکردگی کا معیار بھی ماضی جیسا نہ تھا، ایسے میں باتیں ہونے لگیں کہ عامر ختم ہو گیا، شاید پہلے والی بولنگ کارکردگی اب سامنے نہ آئے، سوئنگ تو جیسے کھو ہی گئی تھی، مگر آہستہ آہستہ بہتری آنے لگی اور بھارت کیخلاف فائنل میں ان کا اسپیل قابل دید تھا۔

بڑے بڑے سپراسٹارز عامر کے سامنے بچے نظر آئے، انھوں نے ہی ٹیم کی فتح کو یقینی بنایا، وہی انگلینڈ جہاں عامر اسپاٹ فکسنگ کے سبب رسوائی کا شکار ہوئے وہیں انھوں نے پاکستان کو بڑا ٹائٹل جتوا کر اپنی غلطی کا ازالہ کر دیا، ایسے مواقع کم لوگوں کو ہی ملتے ہیں اور عامر خوش قسمت ہیں کہ انھیں غلطی سدھارنے کا موقع ملا، امید ہے وہ ایسے ہی ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔

اسی ایونٹ میں پاکستان کو کئی نئے اسٹارز ملے، فائنل میں سنچری بنانے والے فخر زمان کی بیٹنگ زبردست رہی، انھوں نے اس سے قبل کے میچز میں بھی عمدہ اننگز کھیل کر اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا تھا، فخر کی جارحانہ بیٹنگ نے سعید انور کی یاد تازہ کر دی وہ بھی ایسے ہی اسٹائلش شاٹس کھیل کر حریف بولرز کا جینا دوبھر کر دیتے تھے، اسی طرح حسن علی کی بولنگ بہترین رہی، انھوں نے ٹیم میں اب اپنی جگہ پکی کر لی ہے۔

پی ایس ایل میں ہی انھیں دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ نوجوان جلد ملک کا نام روشن کرے گا اور یہ درست ثابت ہوا، بس ان دونوں کو اب اپنی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنا ہوگا تب ہی طویل عرصے پاکستان کے لیے خدمات انجام دے سکیں گے، فہیم اشرف، شاداب خان اور رومان رئیس کو جو مواقع ملے انھوں نے مایوس نہیں کیا، نئے ٹیلنٹ نے پاکستانی کرکٹ شائقین کو سکھ کا سانس لینے کا موقع دیا ہے کہ سپراسٹارز کے جانے سے بھی ٹیم ترقی کی منازل طے کرتی رہے گی، اس جیت میں سرفراز احمد کی کپتانی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

انھوں نے کھلاڑیوں کو بھرپور اعتماد دیا جس کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے قابل ہوئے، ماضی میں نوجوان کرکٹرز کو اتنے چانسز نہیں ملتے تھے جو اس بار ملے اور اس کا نتیجہ ٹیم کی فتح کی صورت میں سامنے آیا، اسی طرح نئے کھلاڑیوں کو اعتماد دیا جاتا رہا تو ایک دن آئے گا جب ہم ورلڈنمبر ون ہوں گے، ایونٹ میں گوکہ شعیب ملک اور محمد حفیظ جیسے سینئرز نے تسلسل سے اچھا پرفارم نہیں کیا مگر ان جیسے کرکٹرز کا ٹیم میں ہونا ضروری ہے، وہ جونیئرز کی رہنمائی کا کام بھی کرتے ہیں، جیسے حفیظ نے فائنل میں ذمہ دارانہ اننگز کھیلی ایسی کارکردگی بھی ٹیم کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔

چیمپئنز ٹرافی سے قبل کوئی بھی پاکستانی ٹیم کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھا، سب کی یہی رائے تھی کہ جیسے گزشتہ بار مصباح الحق کی قیادت میں تینوں میچز ہار کر واپس آنا پڑا تھا اب بھی ایسا ہی ہو گا، مگر کھلاڑیوں نے ماہرین کو غلط ثابت کر دیا، بھارت سے پہلے میچ میں بدترین ناکامی کے باوجود کم بیک قابل دید رہا، پھر فائنل میں بھارتی ٹیم کو ہی ہرا کر اسے زوردار طمانچہ رسید کیا، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا یکطرفہ میچ ہو گا لیکن ایسا ہوا جس سے بڑھکیں مارنے والے بھارتی دم بخود رہ گئے، قومی ٹیم نے ٹرافی جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا جس پر تمام کھلاڑی تعریف کے مستحق ہیں، انھیں جتنا سراہا جائے وہ کم ہوگا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔