جدید پکوان کی کتابوں کا سہرا عرب ماہرین کے سر

ویب ڈیسک  پير 26 جون 2017
کھانوں کے تاریخ داں چارلس پیری نے حال ہی میں 700 سال قدیم عربی کتاب کا ترجمہ کیا ہے جس میں عرب دنیا کے مروجہ کھانوں کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہے۔ فوٹو: بشکریہ قنطارہ

کھانوں کے تاریخ داں چارلس پیری نے حال ہی میں 700 سال قدیم عربی کتاب کا ترجمہ کیا ہے جس میں عرب دنیا کے مروجہ کھانوں کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہے۔ فوٹو: بشکریہ قنطارہ

دمشقٍ: کھانا پکانے کے ماہر شیف اور مصنف  چارلس پیری نے کہا ہے کہ ان کی اب تک کی معلومات کے مطابق مسلمان شیف اور باورچی ہی جدید کُک بکس ( پکوان کی کتابوں) کے مصنف اور بانی ہیں۔

پیری نے ایک کتاب ’خوشبو اور ذائقے، شامی پکوان‘ سینٹس اینڈ فلیورز اے سیریئن کُک بُک‘  کو عربی سے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے جس میں قدیم عرب کی سوغات اور کھانوں کی تفصیلات عربی اور انگریزی میں ایک ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اگرچہ ماہرین نے گارے کی تختی پر لکھی عہدِ بابُل کے تین نسخے دریافت کئے ہیں اور دوسری صدی عیسوی میں ایک رومی پکوان کی کتاب بھی ملی ہے لیکن اس کے 800 برس بعد تک ایسی کوئی منظم کتاب نہیں ملتی۔

چارلس پیری کے مطابق دسویں سے تیرہویں صدی عیسوی تک عرب دنیا کے بہترین باورچیوں نے  کئی کتابیں لکھیں جن سے جدید کک بک کی بنیاد پڑی اور ان چار صدیوں میں ان کے علاوہ کسی نے بھی اپنے پکوان اس طرح باقاعدہ تحریر میں بیان نہیں کئے۔ پیری کے مطابق ان کی نئی کتاب کا ترجمہ کھانے کے اجزا کو کپ اور گرام میں بیان نہیں کرتا بلکہ ایک کلو کے چھٹے حصے اور خاص پیمانوں کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔

چارلس پیری کھانوں کے مؤرخ کے طور پر عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مشرقِ وسطیٰ اور بغداد کے کھانوں کی کتابوں کی ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔

لیکن اس نئی کتاب میں کھانوں کے ساتھ ساتھ خوشبوؤں، صابنوں، واشنگ پاؤڈر، بو بھگانے والے اجزا کی تفصیل بھی دلچسپ انداز میں بیان کی گئی ہے، اسی لیے اسے ’ سینٹس اینڈ فلیورز‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق عرب اپنے کھانوں کو بہت خوشنما اور خوشبو بھرے انداز میں پیش کرتے تھے، ان کے مشروبات میں عرقِ گلاب کا استعمال بھی عام تھا جبکہ میٹھے کھانوں پر صندل اور لوبان جلا کر ان کی دھونی سے خوشبو کا اضافہ کیا جاتا تھا۔

یہ بھی انکشاف ہوا کہ قدیم شامی اپنے کھانوں میں وہیل کے اندر موجود ایک اہم جزو ایمبرگرس بھی ڈالتے تھے جو اب پورے یورپ میں ممنوع ہے اور اس قیمت  150 ڈالر سے بھی ذیادہ ہے۔

کل و شکر بکلاوا

ایک میٹھی ڈش بکلاوا آج بھی عرب دنیا میں مشہور ہے اور اس کتاب میں کل و شکر بکلاوا بنانے کی ترکیب بھی بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک خاص ڈش ہے جو آج بھی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے اور پیری نے اسے بنانے کی ویڈیو بھی جاری کی ہے۔

ایک اور میٹھا ’اخمیمیا‘ بھی شام میں سینکڑوں سال قبل عام تھا جو آج کے کرسمس فروٹ کیک جیسا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔