عید کا غمناک چاند

تنویر قیصر شاہد  پير 26 جون 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

مقدس اور بابرکت ماہِ صیام کے خاتمے پر دنیا بھر کے مسلمان عید مناکر اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں۔ عید کا لفظ کہتے اور سُنتے ہی ایک بے پایاں خوشی کا سماں بندھ جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عید نجی نہیں، اجتماعی خوشیوں کا نام ہے۔ سارے عالمِ اسلام کے سارے مسلمانوں کی مجموعی اور مشترکہ خوشی۔ شائد اِسی فلسفے کے تحت ہی عید کی نماز ایک اکٹھ کی شکل میں، اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہے۔

پاکستان اور عالمِ اسلام میں منائی جانے والی یہ تازہ عید کیسی عید ہے کہ خوشیوں اور مسرتوں کی بجائے ہمیں دکھوں اور غموں نے آگھیرا ہے۔ وطنِ عزیز میں یہ عید تو اِس حال میں آئی ہے کہ فاٹا اور کوئٹہ کی بلندیوں سے لے کر سندھ کے دارالحکومت کے نشیبوں تک ہم خون اور غارتگری کے چھینٹے دیکھ رہے ہیں۔ جب دشمنانِ دین و ملّت ہمارے درجنوں اہلِ وطن کو خاک و خون میں لُٹا رہے ہوں تو ہم بھلا نجی اور اجتماعی سطح پر عید کی خوشیاں کیسے اور کیونکر منا سکتے ہیں؟

صرف تین دن پہلے فاٹا کی معروف ایجنسی’’کرم‘‘ کے مرکز، پارا چنار، میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہُوئے ہیں۔پلک جھپکتے میں درجنوں معصوم اور بے گناہ پاکستانی شہری موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ آنسو ہمارا نصیب بنے اور ہمارے دشمن کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ کھیلتی رہی۔

پارا چنار کے یہ ہمارے بہن بھائی اور بچے عین اُس وقت شہید کر ڈالے گئے جب وہ افطاری کا سامان خریدنے اور عید کی شاپنگ کے لیے بازار میں تھے۔ کیسا سفاک اور ظالم ہے ہمارا یہ دشمن جو ہمیں اور ہمارے پیاروں کو عین اُس وقت اپنا خونی ہدف بناتا ہے جب ہم کسی خوشی کی تلاش میں نکلتے ہیں!! یہ خوشی امن کا قیام ہو یا نجی مسرتوں کا حصول۔ پارا چنار کے باسیوں کو بھی دشمن نے عید کے لمحات میں خون کا غسل دیا ہے۔

اب ہماری کہاں کی عید اور کیسی عید؟ شاباش دینی چاہیے ہمارے عسکری جوانوں کو جنہوں نے اِس خوں آشامی کے لمحات میں فوجی ہیلی کاپٹروں میں فوری طور پر شدید زخمیوں کو اُن اسپتالوں تک پہنچایا جہاں علاج معالجہ کی مناسب سہولیات تھیں۔ پارا چنار، جو ہمارے ہی قومی وجود کا ناگزیر حصہ ہے، میں تو بدقسمتی سے کوئی ایسا اسپتال ہی سرے سے نہیں ہے جہاں خونم خون پارا چناریوں کا اطمینان بخش علاج کیا جاسکتا۔پارا چنار اور تمام ملحقہ علاقوں میں عید کا چاند خون کی سرخی میں ڈوبا ہُوا طلوع ہُوا ہے۔

ہم نئے کپڑے پہن کر اور لبوں پر مسکراہٹیں سجائے یہ عید کیسے منا سکتے ہیں جب پارا چنار کے بعد ہمارے دشمن نے بلوچستان کے دارالحکومت کو بھی بموں اور خود کش حملہ آوروں کے ذریعے ہدف بنایا ہو؟ کوئٹہ میں خونی حملہ آور نے آئی جی بلوچستان کے دفتر کے بالکل سامنے یہ بزدلانہ کارروائی کی۔ ابھی تو کوئٹہ اور اس کے مضافات میں وقوع پذیر ہونے والے درجنوں خونی اور دہشتگردانہ حملوں کی یاد محو نہیں ہُوئی تھی کہ اب پھر اِسی شہرِ خُوباں کو خون میں نہلا دیا گیا ہے۔

اب تک کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، پارا چنار اور کوئٹہ میں شہید ہونے والے ہم وطنوں کی تعداد 70 سے تجاوز کر چکی ہے۔ جو زخمی ہیں، اُن کی تعداد تین سو سے متجاوز ہے۔ جب کسی ملک کے چھ درجن سے زائد بے گناہ شہری سفاکی سے قتل کر دئیے جائیں اور سیکڑوں مجروح اسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوں تو کیا اُس ملک کے شہریوں اور حکمرانوں کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں اور ملک سے باہر عید کی خوشیاں منائیں؟

کیا ستم ہے کہ ہمارے 80ہزار شہری اور آٹھ ہزار عسکری افراد دہشتگردی کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں لیکن یہ خون پینے والی دہشتگردی ہے کہ اِس کے باوجود اِس سے نجات نہیں مل رہی!! کتنے مسلح آپریشنز کر ڈالے گئے ہیں مگر اس کے باوصف دہشتگردی کاعفریت ہمیں نگلنے کو آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں ’’طاغوت‘‘ کے خلاف شروع کیے گئے ’’ ضیائی جہاد‘‘ کی سزا پاکستانی عوام کو ملنا کب بند ہوگی؟دنیا کا وہ کونسا اسلامی ملک ہے جس نے ’’جہاد‘‘ کیلیے اپنے 80ہزار بے گناہ شہریوں کی جانوں کی قربانی دی ہے؟

ستم یہ ہے کہ اِن قربانیوں کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں پر دنیا کے فیصلہ ساز اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔ پارا چنار اور کوئٹہ کی تازہ انسانی قربانیوں کے پیش منظر میں بھلا ہم پاکستانی یہ عید کیسے منا سکتے ہیں؟ عید کا یہ چاند گویا غموں اور افسردگیوں کی گھٹاؤں کے عقب سے طلوع ہُوا ہے۔

پارا چنار اور کوئٹہ میں خونریزی کے دوران ہی کراچی میں عین اُس وقت چار پولیس والوں کو دہشتگردوں نے شہید کر ڈالا جب وہ سارا دن کی ڈیوٹی کے بعد تھڑوں پر بیٹھ کر افطاری کرنے والے تھے۔ اُن کی خون آلود باوردی نعشیں دیکھی ہیں تو دل خون کے آنسو رو کر رہ گیا ہے۔ اور اُسی روز کوئٹہ شہر کے عین مرکزمیں ایک باوردی ٹریفک سارجنٹ کو ڈیوٹی کے دوران ایک طاقتور اور مقتدر سیاسی شخصیت نے اپنی بھاری گاڑی کی باڑ پر رکھ کر کچل ڈالا۔

اِن دل فگار خبروں کے درمیان کوئی عید کیسے مناسکتا ہے؟ ہمارے کسی بڑے نے کہاہے کہ ’’دشمن ہماری خوشیاں خراب کرنا چاہتا ہے۔‘‘ گزارش یہ ہے کہ ہمارا طاقتور اور اَن دیکھا دشمن ہماری خوشیاں خراب کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تو ہماری خوشیاں خراب کر چکا ہے۔شائد یہ کچھ زیادہ ہی مایوسی کی بات ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ پژمردگی اور افسردگی اپنی آخری حدوں کو چُھو رہی ہے۔

اگربھارتی مسلمان اور زیرِ استبداد کشمیری بھی مسلمان برادری ہی کا حصہ ہیں تو اِس رمضان المبارک کے دوران اِن بے کسوں پر جو گزری ہے، کیا اِس پس منظر میں ہم عید کی خوشیوں کے جشن منا سکتے ہیں؟ ممتاز امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اپنی تازہ اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزرا یہ رمضان تاریخ کا Most Deadliestمہینہ تھا کہ 42افراد موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے اور قابض و جابر بھارتی حکومت کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگ سکی۔

عالمِ مغرب کے ساتھ ساتھ عالم ِاسلام و عالمِ عرب بھی کشمیریوں کے بہتے خون پر مجرمانہ طور پر خاموش رہا۔ بلکہ آج (26جون کو)تو واشنگٹن میںٹرمپ صاحب کشمیریوں کے قاتل(نریندر مودی) کو کھلے بازوؤں سے خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔

امریکی صدر نے مودی کے سواگت کیلیے جو تازہ ترین ٹویٹ کیا ہے، اُسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دو طاغوت قوتوں کو باہم ملنے میں کتنی بیقراری ہے۔ ایسے میں کشمیریوں کے خون کی مسلسل بہتی ندی پر کون خون کے آنسو بہائے گا؟ اور ابھی کل ہی دہلی کے نزدیک تین مسلمان بھائیوں، جنہوں نے حال ہی میں قرآن پاک حفظ کیا تھا، کو جس طرح ظالم اور متشدد ہندوؤں نے ٹرین میں خنجروں سے زخمی کیا ہے، یہ ایک الگ المناک داستان ہے۔ ان زخمی حفاظِ قرآن میں سے ایک (حافظ جنید) اب اپنے اللہ کے پاس جا چکا ہے۔

نریندر مودی کو تین ارب ڈالر کے ’’گارڈین ڈرون‘‘ فروخت کرنے والا ڈونلڈ ٹرمپ بھلا کیوں اور کیونکر بھارت اور کشمیر کے ان مظلوم اور مقہور مسلمانوں پر کان دھرے گا؟ اگر ملّتِ اسلامیہ ایک جسدِ واحد ہے (اور یقینا ہے)اور اگر دنیا کا ہر مسلمان اِس جسدِ واحد کا ہی ایک جُزو ہے تو ہم ایسے خوں آشام منظر کی موجودگی میں اپنی عید کیسے منا سکتے ہیں؟

عید کا یہ تازہ چاند یوں طلوع ہُوا ہے کہ کل ہی مکہ معظمہ میں، حرم پاک سے متصل، دہشتگردسکیورٹی فورسز نے مار دیئے ۔ شیطانی قوتوں کی سلگائی گئی یہ آگ اب بھڑک کر عالمِ اسلام کے قلب تک پہنچ گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔