رمضان، عید اور منصوبہ بندی

مقتدا منصور  پير 26 جون 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ماہ صیام گزر گیا۔ دنیا بھر کے بہت سے مسلمانوں نے کل عید منائی ہوگی۔ کروڑوں آج منا رہے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کچھ مسلمان کل عید منائیں۔ عام مسلمان رضائے الٰہی کے لیے رمضان کے مہینے میں روزے رکھتے اور زکوٰۃ و عشر کے علاوہ دل کھول کر خیرات بھی دیتے ہیں۔ مگر نیک دل مسلمان سارا سال کسی نہ کسی شکل میں ریاستی منتظمہ اور بڑے کاروباری حلقوں کی زیادتیوں کا شکار تو ہوتے رہتے ہیں، مگر اس مہینے میں چھوٹے کاروباریوں یعنی ریٹیلرز کے استحصال کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

ہر مسلمان خوشحال ہو یا بدحال، اس مہینے میں چاہتا ہے کہ سحر اور افطار میں کچھ بہتر کھانے کو مل جائے، تاکہ دن بھر روزے کی حالت میں محنت و مشقت کرسکے۔ اسی طرح ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ کم ازکم اپنے بچوں کو عید کے موقع پر نئے کپڑے اور جوتے وغیرہ دلاسکے۔ کیونکہ عید مذہبی کے ساتھ ثقافتی تہوار بھی ہے۔ مگر اس موقع پر وہ مہنگی اور غیرمعیاری اشیا خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

کچھ خاندانوں کے لیے عیدین ہی وہ واحد موقع ہوتی ہیں، جب وہ اپنے بچوں کے لیے سال بھر کی خریداری کرتے ہیں۔ سگھڑ مائیں عید پر بننے والے کپڑے سنبھال کر رکھتی ہیں تاکہ تقریبات میں استعمال کرسکیں۔ وہ کوشش کرتی ہیں کہ بچے پچھلی عید کے کپڑوں سے یہ سال گزار لیں۔ یہ وہ خاندان ہیں، جن کے لیے زندگی کی گاڑی کو چلانا انتہائی مشکل ہے۔

پاکستان کے 10 فیصد انتہائی دولت مند اور بااثر خاندانوں کو چھوڑ کر باقی آبادی میں 35 فیصد متوسط طبقہ ہے۔ جس کا نصف حصہ آسودہ اور خوشحال تصور کیا جاسکتا ہے۔ بقیہ نصف اپنی زندگی جیسے تیسے گزار رہا ہے، جب کہ 55 فیصد آبادی نان شبینہ کے حصول کی جدوجہد میں سرگرداں ہے۔ ان میں سے 40 فیصد آبادی ایسی ہے جو اقوام متحدہ کے متعین کردہ خط افلاس کی حد سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

ان لوگوں کے لیے ماہ صیام کے روزے ہوں یا عید کی خوشیاں، سب بے معنی ہیں۔ کیونکہ ان کی جیب میں اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کی خوشیاں پوری کرسکیں۔ رمضان کے مہینے میں پھل، سبزیاں اور گوشت سے بنی بہتر غذا استعمال کرسکیں، بلکہ اس مہینہ میں پھل اور سبزیاں اور بچوں کے لیے نئے کپڑوں کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیونکہ رمضان آتے ہی نہ صرف اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، بلکہ ان کا معیار بھی گر جاتا ہے۔

سرکار کی سر میں سر ملانے والے معیشت دان رمضان میں مہنگائی کو طلب (Demand) اور رسد (Supply) کا معاملہ قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طلب اور رسد کا یہ کلیہ یورپ میں کیوں نہیں چلتا، جہاں یکم دسمبر سے 24 دسمبر تک ہر شے 50 فیصد تک سیل میں فروخت ہوتی ہے، تاکہ ہر مسیحی بھائی کرسمس کی خوشیوں کو سمیٹ سکے۔ دنیا بھر کے یہودی اسٹورز پر یہودی تہواروں کے موقع پر کیونکر سیل لگائی جاتی ہے۔ اگر طلب اور رسد کے فلسفہ کو تسلیم کریں تو کمتر معیار کی اشیا فروخت کیے جانے کو کیا نام دیا جائے؟

دوسری طرف جرمنی اور برطانیہ سمیت کئی ممالک کی حکومتیں مسلم اسٹورز پر رمضان کے مہینے میں ٹیکس کی چھوٹ دیتی ہیں، تاکہ ان کے مسلمان شہری رمضان میں اشیائے صرف مناسب قیمتوں پر حاصل کرسکیں۔ لیکن پاکستان کے حکمران اور بڑے کاروباری حلقے اس سماجی ویژن اور اخلاقی اقدار سے عاری ہیں، جو معاشرے میں سماجی انصاف کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔ یہ ان حلقوںکی کوتاہ بینی اور ہوس اقتدار ودولت ہے، جس نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ کیا صرف 20 سے 30 فیصد آبادی کی خوشحالی ہی ملک کی خوشحالی تصور کی جائے؟ اگر نہیں تو پھر 70 فیصد آبادی کے مسائل کون حل کرے گا؟

کیا حکومت رمضان میں درجن بھر اشیائے صرف پر سبسڈی نہیں دے سکتی؟ کیا بڑے آڑھتی رمضان میں پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیا کی قیمتوں کو مناسب سطح پر نہیں رکھ سکتے؟ کیا ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی صنعت کے بڑے بیوپاری ایک ماہ اپنا منافع نصف نہیں کرسکتے؟ کیا یہ رضائے الٰہی نہیں ہے؟ کیا رمضان میں غریبوں کے لیے سہولیات مہیا کرنا عمرے کی سعادت سے کم ثواب ہے؟

اگر نہیں تو پھر یہ چھوٹی سی بات حکمرانوں اور بڑے کاروباری حلقوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے، جو ناممکنات بھی نہیں ہے۔ جس طرح ہر شہرشہر، قریہ قریہ، متمول شہری چندہ لے کر اجتماعی افطاری کا بندوبست کرتے ہیں، کیا صوبائی حکومتیں، کم آمدنی اور افلاس کی زنجیروں میں جکڑے شہریوں کے لیے کم از کم رمضان میں ایسے کارڈ جاری نہیں کرسکتیں، جن کو دکھا کر غریب و مفلس شہری باعزت طریقے سے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے راشن، سبزیاں اور پھل وغیرہ حاصل کرسکیں۔ ہر چیز ممکن ہوتی ہے، صرف عزم و بصیرت کی کمی راستے کی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

گزشتہ اظہاریہ میں لکھا تھا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کی حکومت بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح تمام شہریوں کے لیے سماجی تحفظ (Social Security) کا نظام قائم کردے۔ مگر چھ کروڑ کے لگ بھگ محنت کشوں میں سے صرف چند لاکھ اس ادارے کے ساتھ منسلک ہیں۔ جس کا سبب قانونی اسقام، ادارہ جاتی نااہلی، کرپشن اور بدعنوانی ہے۔ EOBI نامی ادارے میں کروڑوں نہیں اربوں کی کرپشن ہے۔ یہ ادارہ محنت کشوں کی ریٹائرمنٹ پر انھیں گزر بسر الاؤنس یا پنشن دیتا ہے۔ مگر یہ ادارہ غریب عوام کے بجائے ریاستی منتظمہ کے لیے سونے کی چڑیا بن چکا ہے۔

اب دوسری طرف آئیے۔ ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس ماہ مقدس میں زکوٰۃ، عشر اور فطرے کے علاوہ زیادہ سے زیادہ خیرات دے سکے۔ ایک محتاط تخمینہ کے مطابق رمضان کے مہینے میں 100 ارب روپے کی رقم زکوٰۃ، فطرانے اور خیرات کی مد میں تقسیم ہوتی ہے۔ عام مسلمان کی نیک نیتی اور سادہ لوحی کا فائدہ بعض کالعدم اور متشدد فرقہ وارانہ رجحانات رکھنے والی عسکریت پسند تنظیمیں اٹھارہی ہیں، جو خیرات وعطیات کی رقم سے اسلحہ خرید کر اسے عقیدے کی بنیاد پر انسانوں کے قتل کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

عام آدمی اپنی سادہ لوحی کے سبب یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ جس تنظیم کو وہ اپنے عطیات وصدقات اور زکوٰۃ وغیرہ دے رہا ہے، وہ کہیں اس کا منفی استعمال تو نہیں کررہی۔ حکومت بعض تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر اپنی ذمے داریوں سے مبرا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تشہیر کے لیے تو اخبارات کا پورا ایک صفحہ خرید سکتی ہے، ٹیلی ویژن پر طویل دورانیہ کے اشتہارات چلاسکتی ہے، مگر صدقات اور خیرات کے بارے میں عوام کی رہنمائی کرنے کے لیے اس کے خزانے میں رقم نہیں ہوتی۔

اس برس کا رمضان چلا  گیا، عید بھی آج اور کل ختم ہوجائے گی۔ لیکن رمضانوں اور عیدین کی آمد کا سلسلہ انشااللہ جاری رہے گا۔ اس لیے کیا ہی بہتر ہوکہ آنے والے برسوں کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرلی جائے۔ ویسے بھی اگلا رمضان اور عید عام انتخابات کے بعد ہی آئیں گے۔ لہٰذا سماجی تنظیموں اور ٹریڈیونینوں کے سرگرم کارکنان سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور محنت کش دوست منشور بناکر تمام سیاسی جماعتوں سے شیئر کریں۔ جو جماعت اس منشور پر مکمل عملدرآمد کا یقینی وعدہ کرے، تمام محنت کش اور غریب عوام اسے ووٹ دے کر کامیاب بنائیں، تاکہ غریب اور مفلوک الحال شہریوں کے مسائل کے حل کی کوئی سبیل ہوسکے اور ان کے بچے بھی عید کی خوشیوں میں باعزت طریقے سے شریک ہوسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔