جہادی تنظیموں کے 278 مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ

ساجد رؤف  پير 26 جون 2017
سینٹرل جیل سے قیدیوں کے فرارکی تحقیقات جیل کے نقائص اور کمزوریاں سامنے آگئیں۔ فوٹو: فائل

سینٹرل جیل سے قیدیوں کے فرارکی تحقیقات جیل کے نقائص اور کمزوریاں سامنے آگئیں۔ فوٹو: فائل

کراچی: سینٹرل جیل کراچی میں موجود جہادی تنظیموں کے 278 قیدیوں کے کیسز فوجی عدالتوں میں بھیجنے کافیصلہ کرلیا گیا ہے، قیدی کئی کئی سال سے جیل میں موجود ہیں لیکن انھیں سزا نہیں دی جا رہی۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ سائٹ میں دہشتگردی کے واقعے میں 4 پولیس اہلکاروں کے قتل کا مقدمے درج کر کے تفتیش کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے اور سی ٹی ڈی کی ٹیم فارنسک شواہد، سی سی ٹی وی فوٹیجز اور دیگر شواہد اکٹھا کر رہی ہے جبکہ جائے وقوع سے ملنے والے پمفلٹ کا فارنسک اور اس کا فارنسک آڈٹ بھی کرایا جائے گا اس موقع پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا کہ سی ٹی ڈی کس نتیجے پر پہنچی اور ہم نے کیا پایا ابھی واقعے سے متعلق تفتیش جاری ہے۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے کہا کہ جمعے کو ملک کے کئی شہریوں میں دہشت گردی کے واقعات رو نما ہوئے اگر ان واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات ملک دشمن کی ہدایت پر کیے گئے ہیں اور یہ واقعات ملک کی سلامتی کے خلاف ایک سازش تھی جس پر پوے ملک میں عمل درآمد کیا گیا اور اسی وجہ سے قومی سطح پر ان واقعات پر سیاسی و فوجی قیادت کی جانب سے مذمت بھی کی گئی ہے۔

ثنا اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ ضلع جنوبی میں دہشت گردی کے ہونے والے تمام واقعات حل کر لیے گئے ہیں کالعدم لشکر جھنگوی العالمی عاصم کیپری اور اسحاق بوبی کی گرفتاری کے بعد 85 مقدمات تھے کو کامیابی سے حل کر لیا گیا، ابھی دہشت گردوں کا ایک گروپ ہے جواب تک گرفتار نہیں ہوسکا اور اس گروپ کا سراغ لگانا باقی ہے اور سی ٹی ڈی اس گروپ کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ بہادر آباد میں پولیس اہلکاروں کے حملے، شاہراہ فیصل کے علاقے پولیس فاؤنڈیشن کے گارڈ کے قتل ، ٹیپو سلطان کے علاقے میں رٹائرڈ کرنل کے قتل اور سائٹ ایریا میں 4 پولیس اہلکاروں کا قتل ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہوں، جمعے کو ہونے والے دہشت گردی کے واقع سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی میں کالعدم تنظیم کے گروپ موجود ہیں ، دہشت گردی دہشت گردوں کو گرفتار کرنے سے ختم نہیں ہوگی قومی سطح پر اقدامات کیے جانا ضروری ہیں۔

ثنا اللہ انھوں نے بتایا کہ دہشت گرد سافٹ ٹار گٹ کو نشانہ بنا رہے ہیں یہ فوج ، رینجرز، پولیس اور حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ دہشت گرد ہائی سیکیورٹی زون میں ٹارگٹ پرہٹ نہیں کر رہے سائٹ میں پولیس اہلکار بھی سافٹ ٹارگٹ تھے افطار کے وقت انھیں نشانہ بنایا گیا، انھوں نے اپنی جیکٹس اور اسلحہ بھی گاڑی میں رکھا ہوا تھا اور بہادرآباد میں بھی یہی ہوا اس لیے وہ سافٹ ٹارگٹ بن گئے پولیس میں نچلی سطح پرکچھ کمزوریاں ہیں اس پر کوشش کی جا رہی ہے اسے ختم کیا جا سکے۔ اس پر غور ہو رہا ہے کہ اگر کچھ لوگ کھانا کھا رہے ہوں تو ایک دو لوگوں کو حفاظتی ڈیوٹی کرنی چاہیے ایک اور آپشن یہ بھی ہے رینجرز یے ساتھ مل کر پٹرولنگ اور پکٹکنگ کی جائے۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک میں اگر کچھ ہوتا ہے تو اس کے اثرات براہ راست کراچی میں پڑتے ہیں اور یہاں دہشت گردی ردعمل کرتے ہیں اور کارروائیاں کرتے ہیں جو ایک عالمی گیم کاحصہ ہے جسے دیکھنے، سمجھنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کی جنگ سائبر اسپیس پر منتقل ہو گئی ہے اور اس پر بھی سی ٹی ڈی نے متعلقہ حکام کو لکھ کر بھیجا ہے کہ دہشت گردی پھیلانے والی جتنی بھی ویب سائٹس ہیں انھیں فوری طور پر بند کیا جائے، سی ٹی ڈی کئی ایسے واقعات کو روکتی ہے جو عام عوام کو نظر نہیں آتے۔

ثنا اللہ کا مزید کہنا تھا کہ سائٹ واقعے میں دہشت گردوں نے ڈکلیئر کردیا ہے اس میں انصار شریعہ پاکستان ملوث ہے اور انھوں نے پمفلٹس بھی پھینکا ہے دو باتیں ہو سکتی ہیں یہ پمفلٹس گمراہ کرنے کے لیے پھینکا ہے یا پھراس واقعے میں انصار شریعہ ملوث ہے، کالعدم تنظیم انصار شریعہ2001 اور2002میں قائم ہوئی تھی ،جو اب دوبارہ کراچی میں فعال ہوئی ہے تاہم سی ٹی ڈی سمجھتی ہے کہ اس واقعے میں انصار شریعہ ہی ملوث ہے تاہم پولیس دونوں پہلوؤں پر تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔