خریداری سے تیاری اور مہمان داری تک

منیرہ عادل  پير 26 جون 2017
مختلف ممالک میں خواتین عید کیسے مناتی ہیں؟۔ فوٹو: ایکسپریس

مختلف ممالک میں خواتین عید کیسے مناتی ہیں؟۔ فوٹو: ایکسپریس

عید کے موقع پر خوشیوں کے رنگ ہر سو بکھر جاتے ہیں۔ نماز عید کی ادائیگی کے بعد گھروں میں بچوں کا بزرگوں سے عیدی کا مطالبہ کرنا، خواتین کا اس موقع کی مناسبت سے پکوانوں کی تیاری میں مصروف ہوجانا، کیک یا مٹھائی وغیرہ کے ساتھ عزیزوں سے عید ملنے کے لیے جانا، ظہرانے اور عشایئے میں خاندان بھر کا جمع ہونا اور ساتھ بیٹھ کر کھانا جیسے خوب صورت مناظر پاکستان کے ہر گھر میں نظر آتے ہیں۔ کسی گھر میں دعوت کا اہتمام ہے تو کہیں مہمان داری کا سلسلہ جاری ہے۔

چوڑیوں بھرے حنائی ہاتھوں سے مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے کہیں مختلف پکوان اور میٹھے تیار کیے جاتے ہیں تو کہیں سہیلیوں کو عید کی مبارک باد دی جارہی ہوتی ہے۔ کبھی اپنی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جاتی ہے تو کوئی سسرال سے آئی عیدی کی تصاویر واٹس ایپ پر سہیلیوں اور کزنز کو بھیج رہی ہوتی ہیں۔ خواتین کا بیشتر وقت روایتی کھانوں مثلاً بریانی، قورمے، کھیر، کباب وغیرہ پکانے اور مہمان داری میں گزرتا ہے۔ دیگر ممالک میں عیدالفطر منانے کے انداز میں مقامی روایات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ یہ جاننا قارئین کے لیے دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ دوسرے ملکوں میں ان کے ہم مذہب خاص طور سے خواتین یہ عید کس طرح مناتی ہیں۔

سعودی عرب:

عید کے دن مرد و خواتین سب تیار ہوکر نماز عید مسجد جاکر ادا کرتے ہیں۔ اس موقع پر بہت سے افراد عمرہ کی ادائیگی کے لیے چلے جاتے ہیں اور عید مکہ یا مدینہ منورہ میں گزارتے ہی۔ کچھ لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سیروتفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ عیدالفطر پر چاکلیٹ اور کھجور سے بنی مٹھائیاں وہاں شوق سے کھائی جاتی ہیں جنھیں حلویات کہا جاتا ہے۔ ہر کھانے کے بعد، ہر محفل میں قہوہ اورکھجور لازمی پیش کیا جاتا ہے۔ خبسہ اور کُنافہ نامی ڈشیں اس موقع کے کی من پسند پکوان ہیں۔ خبسہ جس کو مکبوس بھی کہا جاتا ہے،چاولوں کی ڈش ہوتی ہے اس پر مرغ مسلم یا آدھا مرغ ہوتا ہے۔ کنافہ سویوں کی طرح کی ڈش ہوتی ہے۔ اس پر چینی کا شیرہ بناکر ڈالا جاتا ہے۔ عید کے موقع پر نئے ملبوسات زیب تن کرنا، خوشبو لگانا، روایتی مٹھائیاں یا روایتی میٹھے پکوان کھانا، خاندان بھر کا جمع ہونا اور تحائف کا تبادلہ اس قوم کی خوب صورت روایت ہے۔ عید کے موقع پر چار سے پانچ دن کی تعطیلات ہوتی ہیں۔ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق بچوں کو عیدی دیتا ہے۔

یوگنڈا:

عید کے دن قومی تعطیل ہوتی ہے۔ مرد و خواتین مسجد میں عید کی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ یوگنڈا میں مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان آباد ہیں۔ لہٰذا تمام افراد اپنے روایتی لباس پہن کر مسجد جاتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنے حلقۂ احباب میں کسی کے گھر یا میدان میں ون ڈش پارٹی کا اہتمام کرتے ہیں ۔ تمام افراد ایک ڈش بناکر لے جاتے ہیں اور پھر ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یوگنڈا کی مقامی خواتین کچے کیلے کی ایک خاص ڈش بناتی ہیں جس کو ‘‘مٹوکی‘‘ کہا جاتا ہے۔ کچے کیلے کو چھیل کر کیلے کے پتوں میں لپیٹ کر دیگچے میں تھوڑا پانی ڈال کر اس میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس پر دوسرا دیگچا الٹا کرکے ڈھک دیا جاتا ہے۔ دو سے ڈھائی گھنٹے یہ دھیمی آنچ پر بھاپ میں پکتا ہے پھر اسے نکال کر کیلے کے پتوں کو ہاتھ سے دباکر اندر موجود کیلے کو مسلا یا کچلا جاتا ہے۔ پھر اس کو بڑے لال لوبیا کے سالن یا چکن اسٹویا بیف اسٹو کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔

آسٹریلیا:

چاند رات کو خواتین کسی ایک سہیلی کے گھر پر مہندی لگانے کا اہتمام کرتی ہیں۔ اس موقع پر ہر خاتون گھر سے کچھ نہ کچھ بناکر لاتی ہے۔ آسٹریلیا میں چوں کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان آباد ہیں۔ اسی مناسبت سے ہر عورت اپنے روایتی پکوان بناکر لاتی ہے۔ یوں چاند رات کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ آسٹریلیا میں ہفتے یا اتوار کے دن کے علاوہ اگر کسی دن عید پڑجائے تو اس روز عام تعطیل نہ ہونے کے باعث عید روایتی انداز سے منانا ممکن نہیں ہوتا۔ تمام اہل خانہ (مرد و خواتین) عید کی نماز پڑھنے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد ملازمت پیشہ مرد و خواتین اپنی ملازمت پر اور بچے اسکول چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ بچوں کو اسکول کی چھٹی کرالیتے ہیں۔ پھر ملازمت سے واپسی پر رات کو کہیں ڈنر پر چلے جاتے ہیں۔ ہفتے کے اختتام پر تعطیل والے دنوں میں عید منائی جاتی ہے۔ البتہ جب ہفتے یا اتوار کو عید ہوتی ہے تو میل ملاپ کے ساتھ دعوتوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ مثلاً کسی کے گھر ناشتے کی دعوت ہے، کہیں ظہرانہ توکہیں عشائیے پر مدعو ہیں۔ کچھ افراد اپنے گھروں میں دعوتوں کا انتظام کرتے ہیں۔ مہمانوں کی تعداد زیادہ ہو تو ہال میں انتظام کیا جاتا ہے۔البتہ وہاں مہمان تمام کاموں میں میزبان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کھانے میں بھیڑ کا گوشت بہت کھایا جاتا ہے۔ بھیڑ کے گوشت کی کڑاہی یا بریانی وغیرہ دعوتوں میں پیش کی جاتی ہے۔ملازمہ رکھنے کا تصور محال ہے۔ لہٰذا دعوتوں کے اہتمام میں بھی مہمان خواتین میزبانوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ مثلاً کوئی سالن بناکر لے آتی ہے۔کسی نے برتن دھولیے، تو کسی نے گھر کی صفائی میں مدد کرادی۔ وہاں دعوتوں میں ڈسپوزایبل برتن استعمال کرنے کا رواج ہے۔ پلیٹیں، گلاس، چمچے ، شیں، سبھی استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں۔

فرانس:

فرانس میں مسلمانوں کے مذہبی تہوار اور رمضان المبارک میں حکومت کی جانب سے خصوصی سہولیات دی جاتی ہیں۔ یکم رمضان المبارک سے اشیائے خور و نوش پر قیمتیں پچاس فی صد کم کردی جاتی ہیں۔ پہلا عشرہ گزرنے کے بعد قیمتوں میں پچھتر فی صد اور تیسرے اور آخری عشرے میں ستاسی فی صد کم کردی جاتی ہیں۔ یہ رعایت صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہوتی بلکہ سبھی کے لیے ہوتی ہے۔ چاند رات کو جب آخری دو گھنٹے رہ جاتے ہیں تو ان دو گھنٹوں میں ہر چیز پانچ یورو کی کردی جاتی ہے تاکہ ہر کوئی نیا لباس زیب تن کرسکے، نئے جوتے پہن سکے۔ صاحب حیثیت افراد اس سیل میں سے کچھ نہیں اٹھاتے کہ یہ رعایت مستحق افراد کے لیے ہوتی ہے۔

عید کے موقع پر رشتے داروں کے گھر جانا اور انھیں اپنے گھر پر مدعو کرنا عید کے دن کا خاصا ہے۔ البتہ تمام مہمان خواتین ایک ایک ڈش بناکر لاتی ہیں اور دعوت کے اختتام پر خواتین ساتھ مل کر برتن دھوتی ہیں اور باورچی خانے کی صفائی کرتی ہیں تاکہ میزبان پر بھی کام کا بوجھ نہ پڑے۔ اس موقع کے لیے خواتین خاص طور پر تیاری کرتی ہیں۔ پاکستان کی طرح وہاں بھی مہندی لگانے کی روایت موجود ہے۔ خواتین چاہے وہ پاکستانی ہوں، مقامی ہوں یا کسی اور مسلم ملک سے تعلق رکھتی ہوں، اپنے ہاتھوں کو حنا سے ضرور رنگتی ہیں۔ عید کے روز زرق برق کپڑے زیب تن کرتی اور بناؤسنگھار کرتی ہیں۔ البتہ ہر خطے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ملبوسات اور بناؤ سنگھار میں مقامی رنگ ضرور جھلکتا ہے۔ نماز عید سے فراغت کے بعد خواتین حسب روایت میٹھے پکوان بنانے میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ بعض گھروں میں میٹھی ڈشیں خرید کر بھی لائی جاتی ہیں۔

اس موقع پر رشتے دار خواتین اور سہیلیوں کے درمیان تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ امیر طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین زیورات، نقدی، کرسٹل سے بنی قیمتی اشیاء، برانڈڈ ملبوسات وغیرہ ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیتی ہیں۔ عام محنت کش طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین روزمرّہ استعمال کی اشیاء یا اجناس تحفے میں دیتی ہیں۔

امریکا:

عید کے دن چھٹی نہیں ہوتی، مسلمان چھٹی کرلیتے ہیں۔ عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے تمام مرد و خواتین مسجد جاتے ہیں۔ عید کا روایتی اہتمام کیا جاتا ہے۔ عید کے دن عموماً دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دن میں خاندان بھر کے دعوت ہوتی ہے، تاکہ تمام خاندان ایک ساتھ مل کر عید منائے اور شام میں دوستوں کی دعوت ہوتی ہے۔ تمام چاچا، ماموں، خالہ وغیرہ عیدی دیتے ہیں۔ عیدی عموماً پانچ ڈالر سے دس ڈالر تک دی جاتی ہے۔ تمام افراد اپنے روایتی ملبوسات زیب تن کرتے ہیں۔ البتہ کچھ افراد لمبے عربی لباس بھی زیب تن کرتے ہیں۔

برطانیہ:

عید کا دن اگر ہفتے اور اتوار کو نہ ہو تو اسکول یا دفاتر میں تحریری درخواست دے کر ایک دن کی چھٹی لے لی جاتی ہے۔ مرد حضرات اور لڑکے عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں تو خواتین گھر میں خصوصی ناشتے کا اہتمام کرتی ہیں۔ جس میں روایتی کھانے شامل ہوتے ہیں۔ ناشتے کے بعد بچے عید کے تحائف کھولتے ہیں اور دیگر اہل خانہ ان خوب صورت لمحات کو تصاویر میں قید کرلیتے ہیں۔ کھانے اور میٹھے میں روایتی کھانوں کے ساتھ روسٹ، کیک، چیز کیک وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔