عیدالفطر؛ خوشی و مسرتوں کا تہوار

 پير 26 جون 2017
ناراضیاں دور کریں، غرباء اور ناداروں کو بھی یاد رکھیں۔ فوٹو : فائل

ناراضیاں دور کریں، غرباء اور ناداروں کو بھی یاد رکھیں۔ فوٹو : فائل

اسلام دین فطرت ہے۔ اس کی ہر عبادت میں کوئی نہ کوئی حکمت اور رمز ہے۔ یہی حکمت اور رمز اس کے تہواروں میں بھی نظر آتا ہے۔

عید الفطر جو ماہ صیام کے اختتام پر منائی جاتی ہے، امت مسلمہ کا اہم مذہبی تہوار ہے۔ یہ عید انعام ہے، ان تمام مسلمانوں کے لیے جو پورے ایک ماہ تک اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ رضائے الٰہی کے تحت گزارتے ہیں اور تزکیہ نفس کرتے ہیں۔

عید کے لفظی معنی مسرت و انبساط کے ہیں۔ چوںکہ اس روز اہل ایمان دل کھول کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اس لیے اس موقع کو عید کہا گیا ہے۔ عیدالفطر مسرت اور شادمانی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ اس روز ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق خوشی مناتا ہے۔ خوشی و مسرت کے اس موقع پر ضروری ہے کہ ہم اپنے رشتے داروں، پڑوسیوں اور نادار لوگوں کے چہروں پر بھی خوشیوں کے سچے رنگ بکھیرنے کی کوشش کریں کیوںکہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔

عید کی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنے سے آپ کو جس مسرت روحانی کا احساس ہوگا اور جو آسودگی ملے گی اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ اس لیے عید کی حقیقی خوشیاں، قیمتی ملبوسات، زیورات، سیر و تفریح اور دیگر ذرائع میں تلاش کرنے کے بجائے اپنے آس پاس ڈھونڈیں۔ یہ تو عموماً اپنے قدموںہی میں پڑی ملتی ہیں، بس اک ذرا جھک کر جھولی میں بھرلینے کی دیر ہے۔ سب سے پہلے تو اپنے ان رشتوں کو اہمیت دیجیے جوخوشیوں میں شریک ہوکر خوشیاں بڑھاتے ہیں۔ یہ ہمارے بزرگ ہیں جن کا دم شجر سایہ دارکی مانند ہے جو مسائل اور تکالیف میں ہمیں حوصلہ دیتے ہیں۔ بزرگ، بچوں کو دعاؤں سے نوازتے ہیں، انھیں سچا پیار دیتے ہیں۔ کیا یہ اہمیت کم نہیں ہے؟

موقع عید کا ہو تو بزرگوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دادا، دادی، نانا، نانی، جب اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ ان کے زمانے میں عید منانے کے انداز کیا تھے تو آج کی نسل حیرت اور دل چسپی سے پرانے زمانے کی باتیں سنتی ہے۔ بزرگ انھیں بڑے مزے سے گزرے زمانے میں عید منانے کی روایات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ کل کیا تھیں اور آج کی مشینی زندگی اور عہد حاضر کے تقاضوں نے ان روایات کو اپنے اندر کس طرح چھپالیا ہے۔ لیکن بزرگوں کی شفقت اور محبت میں آج بھی کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ جب بچے اپنے بزرگوں کو عید کی مبارک باد دینے آتے ہیں تو وہ بڑی شفقت اور محبت سے انھیں گلے لگاتے ہیں، پیار کرتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں اور ہاں! عیدی بھی بچوں کو اپنے بزرگوں سے ملتی ہے۔

عید کے موقع پر دعوت کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے، خاص طور پر جن گھروں میں بزرگ ہوتے ہیں وہاں بیٹے، بہوئیں، بیٹیاں، داماد وغیرہ خوشی کے موقع پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہی خوب صورت، خوشیوں بھرے لمحات ہوتے ہیں جو دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت و خلوص کے رشتوں کو مزید مضبوط کردیتے ہیں۔ عید کا دن روٹھے ہوئے لوگوں کو منانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر کسی سے کوئی ناراضگی ہے، گلہ شکوہ ہے تو یہ ایک اچھا مواقع ہے روٹھے ہوؤں کو منالیں گلے شکوے دور کرلیں کہ یہی عید الفطر کا پیغام بھی ہے۔

آپس میں اختلافات اور ناراضی ہو ہی جایا کرتی ہے۔ اکثر میاں بیوی میں ناراضی ہوجاتی ہے، اگر بیوی ناراض ہے اور روٹھ کر میکے میں جا بیٹھی ہے تو عید کا مزا ادھورا رہ جائے گا۔ بیوی کو مناکر ے لیے گھر کے یا خاندان کے بزرگوں سے بات کریں۔ انھیں ساتھ لیں اور اپنی شریک حیات کو عزت و محبت کے ساتھ گھر لے آئیں۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ بھی آج کے دن انا کی دیوارگرادے، تمام گلے شکوے بھلاکر عید کے دن سے محبت بھری زندگی گزارنے کا آغاز کرے۔ چوٹھی موٹی لڑائیاں تو میاں بیوی کے رشتے اور ان کے پیار کو مزید مضبوط کرتی ہیں اور یوں بھی پیا بن عید ادھوری ہے۔ چاہے بے شمار رشتے آس پاس ہوں لیکن پیا نہیں تو کچھ نہیں۔

بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں جن کے پیارے پردیس میں مقیم ہیں۔ وہ اس موقع پر فون کرکے عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔ جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے وہاں ویب کیم کے ذریعے براہ راست اپنے پیاروں کو دیکھ کر عید کی مبارک باد دی جاتی ہے۔ ان خوشیوں بھرے لمحات میں اپنوںؓسے دوری کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے اور آنکھوں کو نم کردیتا ہے۔ خصوصاً ایسے والدین جن کے بچے دیارِ غیر میں مقیم ہوں، عید کے دن ان کی تنہائی کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے۔ ایسے والدین کے عزیز و اقارب، دوست احباب اور پڑوسی انھیں اپنے گھر مدعو کرلیں یا کچھ وقت ان کے ساتھ ان کے گھر میں گزار لیں۔ تاکہ ان کی تنہائی کا احساس کسی حد تک کم ہوسکے۔

اسی طرح جو لوگ بے اولاد ہیں یا اولاد کے ہوتے ہوئے بھی بہت سے والدین گھروں میں تنہا مجسم انتظار ہوتے ہیںکہ بھلا اپنے پیاروں کی دید کے بغیر عید کہاں ہوتی ہے۔ آپ کوشش کریں، اگر تنہائی کا شکار ایسے لوگوں سے واقف ہیں تو ان کے پاس کچھ ضرورت کی چیزیں لے جائیں، کھانا پکاکر بھی لے جائیں، تو ان کی دلی دعائیں بھی حاصل ہوںگی اور عید تو خوشیاں بانٹنے کا نام ہے، یقینا خوشیاں بانٹ کر روحانی آسودگی ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔