ناطقہ سربہ گریباں ہے، اسے کیا کہیے

مقتدا منصور  جمعرات 29 جون 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

عید سے قبل سانحات کا تسلسل۔ پہلے پارا چنار میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے، جن میں سو سے زائد افراد جاں بحق اور ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ کراچی اور کوئٹہ میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں نصف درجن جانوں کا زیاں۔ پھر احمد پورشرقیہ میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد لقمہ اجل۔ یہ سانحات اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر ان کے اسباب میں بہرحال ایک مشترک سبب حکومتی نااہلی اور بے حسی ہے۔

مذہبی جنون پرستی اور متشدد فرقہ واریت اس وقت ایک بین الاقوامی مسئلہ کی شکل اختیار کرچکی ہے جس میں پاکستان کی حکومتوں اور منصوبہ سازوں کی غلط حکمت عملیوں اور ریاست کے منطقی جواز کے بارے میںتہذیبی نرگسیت پر مبنی حکومتی بیانیہ ہے جس نے گذشتہ ستر برسوں کے دوران وطن عزیز کو سوائے مسائل کی گرداب میں پھنسانے کے کچھ اور نہیں دیا ہے۔ اسی بیانیہ کی وجہ سے یہ ملک ایک فلاحی ریاست بننے کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل ہوا۔

مشرقی پاکستان جدا ہوا اور باقی ملک میں مسلسل بے چینی ہے۔ مگر “زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد “کے مصداق حکومت اپنے بیانیہ پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔کیونکہ یہ بیانیہ حکمران اشرافیہ کے اقتدار واختیار پر مضبوط کنٹرول کا باعث ہے۔ مگر احمد پور شرقیہ جیسے واقعات ریاستی منتظمہ کی نااہلی، کوتاہ بینی اور بدانتظامی کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔

اعداد شمار بتاتے ہیں کہ جتنے پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں، اس سے دگنی تعداد ٹریفک حادثات کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن جاتی ہے۔ پھر آتش زدگی اور قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی اموات اس کے علاوہ ہیں۔ ہم 2005کے قیامت خیز زلزلہ اور 2010کے سیلاب میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی، بے بسی اور لاچارگی کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ اسی طرح سانحہ گڈانی اور بلدیہ ٹاؤن (کراچی) بھی زیادہ پرانا واقعہ نہیں ہے۔

تسلسل کے ساتھ ہونے والے یہ سانحات اس بات کے غماز ہیں کہ حکمران اشرافیہ کی نظر میں عام پاکستانی شہری کی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ وہ اس طرح کے واقعات کے سدباب یا قدرتی آفات میں نقصانات کی شرح کم سے کم کرنے میں یا تو دلچسپی نہیں رکھتی یا پھر اس میں اہلیت کا فقدان ہے۔ مگر شاید اس سے بڑھ کر یہ حکمران اشرافیہ کی موقع پرستی اور بدعنوان ذہنیت کا اظہار ہے کہ وہ عوام کی حالت زار بہتر بنانے کے بجائے ان بڑے بڑے منصوبوں پر توجہ مرکوز رکھتی ہے، جن میں بھاری کک بیکس اور کمیشن ملتا ہے جب کہ بعض صوبائی حکومتیں، جن میں سندھ کی صوبائی حکومت سرفہرست ہے، اسے یہ توفیق بھی حاصل نہیں ہے کہ بڑے منصوبے بنا سکے۔ ہر سال ترقیاتی بجٹ کے بڑے حصے کا ضایع ہوجانا اس کی نااہلی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔

ستر برسوں کے دوران کسی بھی حکومت (سیاسی یا غیر سیاسی) نے عوام کوتعلیم، صحت اور سماجی سہولیات مہیا کرنے کے لیے کبھی کوئی ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات نہیں کیے  جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام میں خواندگی کی شرح پورے جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ جس ملک میں 80فیصد عوام کوپینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، وہاں صحت کی دیگرسہولیات تک عام شہری کی رسائی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا حالانکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے بانی وائس چانسلر اورصدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین بہت پہلے کہہ گئے ہیں کہ ملکوں کی ترقی کا اندازہ ان کے بازاروں میں نظر آنے والی چہل پہل سے نہیں، مضبوط نظام تعلیم سے لگایا جاتا ہے۔مگر یہاں کسے فرصت کہ اہل دانش کی باتوں پر توجہ دے۔

کتنی عجب بات ہے کہ وہ ریاست بہاولپور جس نے قیام پاکستان کے بعد تین برس تک اس ملک کے بیشتر اخراجات برداشت کیے اس کے اسپتال جدید سہولیات کے فقدان کا شکار ہیں۔ معاملہ صرف بہاولپور تک محدود نہیں  ہے، پوری سرائیکی بیلٹ پنجاب کی صوبائی حکومت کی عدم توجہی کا  شکار ہے ۔ حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ پنجاب صرف جی ٹی روڈ تک محدود نہیں ہے اور پاکستان صرف ایک صوبے کا نام نہیں ہے۔

آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ سات سمندر پار سے آنے والے نوآبادیاتی حکمرانوں نے اس خطے میں تعلیم اور صحت کے لیے کیا خدمات سرانجام دیں جن کا عقیدہ، ثقافت اور نسلی و لسانی کوئی تعلق اس خطے کے باسیوں کے ساتھ نہیں تھا۔ انھوں نے دہلی پر مکمل قبضے کے بعد صرف 20ہزار برطانوی سویلین اور فوجی اہلکاروں کے ساتھ اس وقت کے 30 کروڑ آبادی والے ہندوستان کو کنٹرول کیا۔

لارڈ میکالے نے 1848میں ہندوستان کے لیے جدید تعلیم کا جو تصور پیش کیا،اس کے نتیجے میں برٹش انڈیا اس قابل ہوا کہ آزادی کی جدوجہد کرسکے۔ یہ جدید تعلیم یافتہ قیادت تھی، جس کی وجہ سے ہندوستان کی آزادی ممکن ہوسکی۔ جولارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی کے سبب پیدا ہوسکی۔

1881سے 1947کے دوران تاج برطانیہ میں ہندوستان میں ایک لاکھ 34ہزار8سو66پرائمری اور سیکنڈری اسکول قائم کیے۔1947میں جب ہندوستان آزاد ہوا تو 21جامعات اور496 کالج قائم کیے جاچکے تھے۔ شرح خواندگی (جدید تعلیم) میں اضافے کا جائزہ لیں، تو1881میں پورے ہندوستان میںیہ شرح 3.2فیصد تھی۔ 1931میں 7.2اور1947میں 12.2فیصد ہوگئی۔ 1922میں سرکاری اسکولوں کی مانیٹرنگ مقامی حکومت (بلدیاتی نظام) کے تحت دیدی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسکولوں میں تدریسی عمل میں بہتری کے ساتھ اسکولوں میں ضروری سہولیات کی فوری فراہمی ممکن ہوسکی۔

جدید میڈیکل سہولیات ہندوستان میں جہانگیر کے دور میں متعارف ہوئیں، جب بر طانوی سفیر نے ایک شہزادی کا علاج کیا۔ 1757میں بنگال میں کمپنی کی حکومت کے بعد اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔1902تک پورے ہندوستان میں اس وقت کی جدید سہولیات سے آراستہ ڈھائی ہزار اسپتال اور ساڑھے چھ ہزار ڈسپنسریاں قائم ہوچکی تھیں۔ 1880سے1902کے دوران مریضوں کی تعداد میں دو کروڑ کا اضافہ ہوا۔

1881 میں ہیلتھ کئیر کے لیے بجٹ 36لاکھ مختص تھا، جو 1902 میں 81لاکھ کردیا گیا۔ جس میں سال بہ سال مسلسل اضافہ کیا جاتا رہا حالانکہ برطانیہ کو ہم سے زیادہ سیکیورٹی مسائل کا سامنا تھا۔ مگر اس نے سماجی ترقی سے آنکھیں نہیں موندیں۔

اب ذرا کوئی بتائے کہ ستر برسوں کے دوران آزاد مملکت میں تعلیم اور صحت کو کتنی اہمیت دی گئی؟ اس عرصہ میں پبلک سیکٹر میں کتنے نئے اسپتال اور تعلیمی ادارے قائم ہوئے؟ برٹش دورمیں قائم ہونے والے اسپتالوں اور اسکولوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے پر کتنی توجہ دی گئی؟نئے اضلاع کے قیام کے ساتھ ہر ضلع میں جدید سہولیات سے آراستہ کتنے اسپتال قائم کیے گئے؟ ان سوالات کا جواب مایوس کن آئے گا۔

پورے ملک کے ثانوی تعلیمی بورڈز کے میٹرک کے نتائج کا جائزہ لیں، تو 1980تک اول دس پوزیشنیں سرکاری اسکولوں سے ہوا کرتی تھیں۔ مگر اس کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوئی جس کی کئی اندرونی کہانیاں ہیں جو ایک علیحدہ اظہارئیے کی متقاضی ہیں۔

آج سرکاری تعلیمی ادارے جس حالت میں ہیں، اس کی پوری ذمے داری حکمرانوں کی کوتاہ بینی، بدعنوانی اور مفاد پرستی پر عائد ہوتی ہے۔ یہی کچھ حال سرکاری اسپتالوں کا ہے، جہاں کرپشن، بدعنوانیوں اور بدانتظامی کا بازار گرم ہے۔ ان میں غریب مریضوں کو ٹھوکروں اور دھتکار کے سوا کچھ نہیں ملتا جب کہ نجی شعبہ کے اسپتال شفاخانوں کے بجائے مذبح خانے بنے ہوئے ہیں۔ جہاں مریضوں کو کند چھری سے ذبح کیا جاتا ہے۔

دراصل یہ ملک ایک ایسے سفاکانہ اور بدترین نظام حکمرانی کا شکار ہے۔ جس کی حکمران اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) کو عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ جسے عوام کے مفادات سے زیادہ اپنے طبقاتی اور ادارہ جاتی مفادات عزیز ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عام پاکستانی چاہے قدرتی آفات کا شکار ہوں، ٹریفک حادثات کی نذر ہوں یا ریل سے کٹ کے مریں۔ بم دھماکوں میں مارے جائیں یا ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنیں، حکمران اشرافیہ اپنی جیب سے نہیں قومی خزانے سے لاکھ دو لاکھ دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار دیتی ہے۔ مگر عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے اور انھیں تعلیم، صحت اور سماجی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی فرصت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اب یہ سمجھنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ اس آزادی سے نوآبادیاتی دور بدرجہا بہتر تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔