آزمائش کا دور

زمرد نقوی  اتوار 3 فروری 2013

ترکی کے صدر نے کہا ہے کہ مصر میں اور شام میں جاری پر تشدد کاروائیوں اور بحران کی وجہ سے خطے کی صورت حال تشویشناک ہے۔ خطے کو ان مسائل سے باہر نکالنے میں تہران اور انقرہ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ادھر مصر کی صورتحال یہ ہے کہ جب سے صدر محمد مرسی کی حکومت بنی ہے، پر تشدد مظاہرے جاری ہیں۔ ان مظاہروں میں پیش پیش لبرل سیکولر مسلمان اور عیسائی اقلیت ہیں۔ یہ لوگ حال ہی میں منظور کیے جانے والے آئین پر اعتراض کر رہے ہیں ۔

گزشتہ جمعہ کو صدر مرسی کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ دارالحکومت قاہرہ میں مظاہرین نے التحریر اسکوائر سے صدارتی محل تک مارچ کیا۔ جب کہ سکندریہ اور ساحلی شہر پورٹ سعید میں بھی مظاہرے ہونے کی اطلاعات ہیں۔مظاہروں سے ایک دن پہلے جامعہ الازہر میں ہونے والے اجلاس میں بڑے اپوزیشن گروپ نیشنل سالویشن فرنٹ اور حکمران جماعت اخوان المسلمون کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے لیکن لبرل اور بائیں بازو کے گروپوں کے اتحاد نے قومی اتفاق رائے کی حکومت کے قیام اور آئین میں ترمیم کے لیے اگلے روز پھر مظاہروں کی کال دے دی۔ فوج اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔

سبکدوش امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے روس اور ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ شامی حکومت کی حمایت سے باز رہیں۔ محکمہ خارجہ میں صحافیوں کو الوداعی بریفنگ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایران اور روس کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں۔ ایران کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے خاتمہ سے اس کی سالمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ شام میں جنگ کا دائرہ کس طرح وسیع ہو رہا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند دن پیشتر اسرائیلی جنگی طیاروں نے شام کے فوجی تحقیقاتی مرکز پر بمباری کی ہے۔

دوسری طرف شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی مندوب لخدر براہیمی نے سلامتی کونسل کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام سب کی آنکھوں کے سامنے تباہ ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ ٹکڑے ہو رہا ہے اور اس سانحے کا کوئی اختتام نظر نہیں آ رہا۔ یہ ایسا وقت ہے کہ سلامتی کونسل شامی بحران کے خاتمے کے لیے فوری ایکشن لے۔ انھوں نے کہا کہ اب صرف بین الاقوامی برادری ہی کوئی مدد کر سکتی ہے۔ لخدر براہیمی کا کہنا ہے کہ شام میں تباہی پوری خطے کو ایک ایسی صورت حال میں دھکیل رہی ہے جو انتہائی خوفناک ہے۔ شام کی موجودہ صورتحال سے القاعدہ فائدہ اٹھا کر اپنے اثر و رسوخ کو پھیلا رہی ہے۔ اور امریکا کی وہ پالیسی ناکام نظر آتی ہے کہ القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے اخوان المسلمین کی جگہ موڈریٹ طبقے کو متعارف کرایا جائے۔

ہو سکتا ہے کہ پاکستانی یہ سمجھتے ہوں کہ شام تو ہم سے بہت دور ہے۔ ملک شام باقی رہے یا اس کے ٹکڑے ہو جائیں ہمیں اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ایسا نہیں ہے کیونکہ شام کی صورت حال سے ہم براہ راست متاثر ہوں گے۔ پورے مشرق وسطیٰ میں کہیں بھی کچھ ہوتا ہے، اس کا پاکستان سے براہ راست تعلق ہے۔ امریکا اپنی تمام تر سازشوں جس میں ترکی اور عرب بادشاہتیں شریک ہیں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ اب براہ راست فوجی مداخلت کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس تمام صورتحال پر فرانسیسی وزیر خارجہ اور اردن کے شاہ عبداللہ بھی اپنی مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ اردن کے شاہ نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بشار الاسد حکومت ختم ہونے والی ہے تو ایسی کوئی بات نہیں ہے جب کہ سعودی وزیر خارجہ نے تجویز پیش کی کہ بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے لیے باغیوں کو ٹینک اور توپ فراہم کیے جائیں کیونکہ باغی بشارالاسد حکومت کو گرانے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔

شام کے حوالے سے ترکی امریکا کا اسٹرٹیجک اتحادی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ عرب بادشاہتیں اور مسلمان ممالک مل کر شام پر امریکی قبضہ کرانے جا رہے ہیں۔ اگر یہ سانحہ ہو جاتا ہے جس کے ہونے کے امکانات زیادہ نظر آ رہے ہیں تو یہ مزید سانحات کو جنم دے گا اور پاکستان بھی اس کے اثرات کی لپیٹ میں آنے سے بچ نہیں پائے گا۔ مصر میں جمہوریت کا تجربہ ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مصری لبرل سیکولر مسلمان اور عیسائی اقلیت آئین میں ترامیم کرانا چاہتی ہیں۔ جب کہ مغرب کی بھی یہی خواہش ہے۔ مڈل ایسٹ میدان جنگ بنتا نظر آ رہا ہے۔ اس سے پاکستان بھی بچ نہیں پائے گا جو دہشت گردی کے الائو میں پہلے ہی سے جل رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل بشار الاسد حکومت کا خاتمہ کیوں چاہتے ہیں۔ آخر بشارالاسد حکومت کا جرم کیا ہے؟ شامی حکومت کا امریکا اور اسرائیل کی نظر میں اس سے بڑا جرم اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ فلسطینی تنظیم حماس، حزب اللہ اور فلسطینی مسلمانوں کی ہر طرح کی فوجی و مالی مدد کر رہی ہے اور شام میں ان کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ شامی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکا اور اسرائیل کا مشرق وسطیٰ پر قبضہ مکمل ہو جائے گا کیونکہ ان مزاحمتی تنظیموں کا خاتمہ ہو چکا ہو گا۔ دوسرا یہ نتیجہ نکلے گا کہ ایران گھیرے میں آ جائے گا اور امریکا اور اسرائیل بغیر کسی خوف و خطر کے ایران کی سرحدوں پر پہنچ جائیں گے۔

ایران کی کمزوری پاکستان کی کمزوری ہو گی کیونکہ ایران ایک دیوار ہے پاکستان کی طرف بڑھنے میں۔ مشرق وسطیٰ پر امریکی قبضہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ایٹمی پاکستان پر قبضہ نہ ہو جائے۔ شامی اور ایرانی حکومتوں کے خاتمہ کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کا علاقہ امریکا کے لیے ایک کھلا میدان بن جائے گا جہاں اسے اپنی من مانی کرنے کا وہ تاریخی موقعہ میسر آئے گا جس کا جواز طالبان نے پیدا کیا ہے ۔ یوں مشرق وسطیٰ پر قبضے سے امریکا انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ پوری دنیا کا بادشاہ بن جائے گا۔ یوں وہ امریکی ایجنڈہ مکمل ہو جائے گا جس کا آغاز افغانستان میں سوویت افواج کے داخلے اور اس سے بھی بہت پہلے 1917ء کے انقلاب روس کے بعد شروع ہو گیا تھا …… رہے نام اللہ کا ……

ہم جس دور میں داخل ہو گئے ہیں، وہ آسان نہیں کم از کم اگلے دو سال مزید تباہ کن بدتر حالات لاسکتے ہیں ،اگلے دو سال پورے خطے کے لیے آزمائش اور امتحان کے ہیں۔ آنے والا وقت پورے خطے اور پاکستان کے لیے آزمائشی انقلابی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔

٭… شام میں بشار الاسد کا اقتدار رہے گا یا نہیں اس حوالے سے فیصلہ کن وقت کا آغاز مارچ سے جون 2013ء کے درمیان شروع ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔