بھارت کااگلا صدر دَلت ہوگا؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 30 جون 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

یہ ایک درد ناک واقعہ ہے کہ بھارت میں تمام اقلیتیں اور نچلی ذات کے ہندو(دَلت) مسلسل ظلم، استحصال اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہیں۔ بھارتی بالادست اور نام نہاد اعلیٰ ذاتی ہندوؤں یعنی برہمنوں کے نزدیک اگر تمام بھارتی مسلمان ’’دہشت گرد‘‘ ہیں تو تمام دَلت’’جانور‘‘ قرار دیے جاتے ہیں۔ اِنہی برہمنوں کے نزدیک اگر تمام بھارتی سِکھ’’خالصتانی‘‘ ہیں تو سارے بھارتی مسیحیوں کو’’خون چُوسنے والے‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اِن بے بنیاد الزامات کے تحت بھارتی برہمنی مقتدر طبقات متذکرہ پِسے طبقات کو مزید پاؤں تلے رگیدنے اور مسمار کرنے پر تُلے نظر آتے ہیں۔

ساری دنیا کو معلوم ہے کہ بھارتی مسلمانوں اور بھارتی دَلتوں کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں۔ بھارتی دَلت تو برہمنوں کے مظالم سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ وہ جولائی2017ء کے وسط میں تیرہ بھارتی صوبوں میں ہندوؤں کے خلاف ’’فریڈم مارچ‘‘ کرنے والے ہیں۔ دنیا کو دکھانے کے لیے اوّل اوّل بھارت میں مسلمان کو صدر بھی بنایا گیااور نائب صدر بھی(مثال کے طور پر ذاکر حسین،محمد ہدائیت اللہ، فخرالدین علی احمد،عبدالکلام)مگر اِس کے باوصف بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ہندو مظالم بند ہُوئے نہ رُک سکے۔ جب سے جناب نریندر مودی اور بی جے پی کے ہاتھ میں اقتدار آیا ہے،بھارتی مسلمانوں اور بھارتی دَلتوں کے مسائل اور مصائب میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔اِن زیادتیوں کی بازگشت ساری دنیا میں بھی سنائی دی جا رہی ہے۔

مودی صاحب بھی اِس بدنامی سے آگاہ اور آشنا ہیں؛چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کا اگلا صدر بھارت کی نچلی ذات سے یعنی دَلت ہوگا۔ اِس فیصلے میں بی جے پی،آر ایس ایس ،بجرنگ دَل ایسی دَلت دشمن جماعتیں بھی شامل ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ مل کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے اور یہ ثابت کیا جاسکے کہ بھارت اتنا ’’مہان‘‘ ملک ہے کہ وہاں اگر کبھی مسلمانوں اور سِکھوں(مثلاً گیانی ذیل سنگھ) کو صدر بنایا گیا تھا تواَب دَلتوں کے ایک فرد کو بھی سربراہِ مملکت منتخب کیا جا رہا ہے۔

25جولائی2017ء کو موجودہ بھارتی صدر  (پرنب مُکھر جی)کی ٹرم پوری ہو رہی ہے۔انھوں نے پیشکش کے باوجود دوبارہ صدر بننے سے معذرت کر لی تھی۔وہ بھارتی ایوانِ صدر (راشٹرپتی بھون)سے رخصت ہونے سے پہلے بھارت کے تمام گورنروں سے الوداعی ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔ اپنی مدتِ صدارت کے خاتمے سے تین ماہ قبل ہی اصولی طور پر انھوں نے اعلان کر دیا تھا کہ اب وہ کسی بھی غیر ملکی دَورے پر بھی نہیں جائیں گے۔ تب سے ہی بھارتی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف نے اگلے بھارتی صدر کے چناؤ کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی تھی۔

بھارتی پارلیمنٹ کمپلیکس کی دوسری منزل پر اِسی غرض کے لیے دو کمرے مختص کر دیے گئے تھے تاکہ متعلقہ اگلے بھارتی صدر کے انتخاب کے لیے ضروری تیاریاں کر لے۔ اِس ایک اقدام سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کو رواں دواں رکھنے کے لیے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کس قدر مستعد واقع ہُوئی ہے۔پہلے تو اِس خیال کو سامنے لایا گیا کہ موجودہ نائب بھارتی صدر  (جناب حامد انصاری)ہی کو صدر چُن لیا جائے ۔

انصاری صاحب چونکہ دوسری بار بھارتی نائب صدارت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں،اس لیے بھی ان کا نام ڈراپ کر دیا گیا۔پھر اِس خیال کو فلوٹ کیا گیا کہ موجودہ لوک سبھا (بھاری قومی اسمبلی) کی سپیکر(سمریتا مہاجن) کوپرنب مکھر جی کی جگہ صدر بنا لیا جائے لیکن مقتدر بی جے پی نے اس خیال کو بھی مسترد کر دیا ،یہ کہہ کر کہ پرتیبھا پٹیل(سابق بھارتی صدر) کے بعد کسی خاتون کو صدر بنانا ’’مناسب‘‘ نہیں ہوگا۔اپوزیشن والے RJD(راشٹریہ جنتا دَل) کے سربراہ اور مشہور بھارتی سیاستدان ، لالو پرشاد، کو صدر بنانے کا اشارہ دے رہے تھے کہ وہ معروف دَلت سیاستدان بھی ہیں اور بھارت بھر کے اچھوتوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ اِس تجویز کو بھی مگر مسترد کر دیا گیا، یہ کہہ کر کہ لالو صاحب تو عدالت کی طرف سے (چارہ اسکینڈل میں)سزا یافتہ ہیںاور اگر اپوزیشن نے اُن کا نام آگے بڑھایا تو حزبِ اقتدار کی طرف سے سخت پروپیگنڈہ ہو گا؛ چنانچہ دو بزرگ اور کہنہ مشق سیاستدانوں( شرد پوار اور شرد یادیو) کے نام سامنے لائے گئے۔ یہ نام بھی بوجوہ مسترد کر دیے گئے کہ اپوزیشن دراصل ایسے امیدوار کی متلاشی تھی کہ کوئی ایسا بندہ سامنے لایا جائے جو نریندر مودی کے امیدوار کے مقابل بھی ہو، ہم پلّہ بھی اور جس کے خلاف مقتدر پارٹیوںکو کمزوری کا کوئی پہلو بھی نہ مل سکے۔

بھارتی وزیر اعظم مودی اور اُن کے تمام اتحادی شروع میں یہ چاہتے تھے کہ ایل کے ایڈوانی کو ،پرنب مکھر جی کی رخصتی کے بعد، بھارتی صدارت کے سنگھاسن پر بٹھا دیا جائے۔ ایڈوانی صاحب، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے خاصے ’’مشہور‘‘ ہیں، بی جے پی کے پلیٹ فارم سے وزیر اعظم بننے کے خواب بھی دیکھتے رہے ہیں لیکن اُن کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا ۔ اس سے اُن کے دل پر گہرا زخم بھی لگا تھا۔ بی جے پی کے بعض بڑوں کا خیال تھا کہ اُنہیں اب بھارتی صدر منتخب کر کے اُن کے ’’زخموں‘‘ کا اندمال کیا جا سکتا ہے لیکن جب یہ دیکھا گیا کہ نریندر مودی اور ایڈوانی کے درمیان باطنی طور پر گہری شخصی چپقلش پائی جاتی ہے تو فیصلہ سازوں نے اس تجویز کو فائنل کرنے سے انکار کر دیا؛ چنانچہ ایک بار پھر ایل کے ایڈوانی صاحب، جنہوں نے بابری مسجد کو شہید کرکے تشدد پسند ہندوؤں میں بڑا ’’نام‘‘ کمایا تھا، ایک بار پھر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔اب مودی جی اور اُن کی اتحادی حکومت (NDA) نے بھارت کے اگلے صدر کے لیے رام ناتھ کووند کا نام چُنا ہے۔

اِس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا جا چکا ہے اور بی جے پی کے صدر، بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی وزیر داخلہ اس بارے میں ٹویٹ بھی کر چکے ہیں اور ذاتی طور پر انھوں نے کووند صاحب کو مبارک باد بھی دی ہے۔ مودی حکومت کی طرف سے اپنے اس صدارتی امیدوار کو ’’زی کیٹگری‘‘ کی سیکیورٹی(جس میں36افراد کو حفاظت کے لیے مامور کیا جاتا ہے) بھی فراہم کی جا چکی ہے۔اکہتر سالہ رام ناتھ کووند صوبہ بہار کے گورنر ہیں(صدارتی امیدوار بنائے جانے کے بعد اب گورنری سے مستعفی ہو گئے ہیں) اُن کے والد اُتر پردیش ریاست کے ایک غریب کسان تھے اور ذات کے دَلت۔ بھارت میں دَلتوں کو سماجی، سیاسی اور معاشی اعتبار سے جس رسوائی اور ذلت کے مراحل سے روزانہ اور قدم قدم پر گزرنا پڑتا ہے، رام ناتھ کووند اپنے بچپن ہی میں ان سارے مناظر اور تجربات سے گزر چکے ہیں۔اگرچہ بعد ازاں انھوں نے اپنی محنت اور ذاتی لیاقت سے بھارتی قانون دان اورسیاسی حلقوں میں بڑا نام کمایا اور وہ بہار کے گورنر بھی بنا دیے گئے۔ دَلت ہونے کے طنز سے وہ ابھی تک مگر محفوظ نہیں رہ سکے ہیں۔ مودی حکومت اُن کے دَلت پس منظر ہی کو کیش کرانا چاہتی ہے تاکہ دنیا میں یہ چرچا کیا جاسکے کہ بھارتی نچلی ذات (دَلت)کا ہندو بھی ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ‘‘ کا صدر بن سکتا ہے۔

چالاکی سے اگر نریندر مودی نے ایک دَلت کو اپنا صدارتی امیدوار بنایا ہے تو بھارت کی 17 اپوزیشن پارٹیوں نے بھی متحدہ اور متفقہ طور پر ایک دَلت ہی کو اپنا صدارتی امیدوار بنا لیا ہے۔دہلی میں منعقد ہونے والے جس اہم ترین اور ہنگامی اجلاس میں یہ حیرت خیز فیصلہ کیا گیا، اس کی صدارت سونیا گاندھی کر رہی تھیں۔اِس خوش قسمت امیدوار کا نام میرا کمار ہے۔ وہ بھی صوبہ بہار کے دَلت خاندان کی فرد ہیں اور اُن کی عمر بھی ستر سال سے متجاوز ہے۔اُنہیں بھی حکومت کی طرف سے ’’زی کیٹگری‘‘ کی سیکیورٹی فراہم کی جا چکی ہے۔

الیکٹرول کالج کے اعتبار سے کووند کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے مگر تجربے اور شخصیت کے لحاظ سے میرا کمار ’’وزنی‘‘ ہیں۔وہ بھارت کے ممتاز ترین سیاستدان(سابق نائب وزیر اعظم اور سابق مرکزی وزیر)آنجہانی جگ جیون رام کی صاحبزادی ہیں، کئی ملکوں میں سفارتی فرائض انجام دے چکی ہیں، پانچ بار لوک سبھا(قومی اسمبلی) کی رکن منتخب ہو چکی ہیں، مرکزی وزیر رہ چکی ہیں اور سب سے بڑھ کر بھارتی لوک سبھا کی اسپیکر کا نازک عہدہ بھی نبھا چکی ہیں۔ اُن کی والدہ(اندرانی دیوی) گاندھی اور نہرو کے ساتھ اہم فیصلوں میں شریک رہی تھیں۔ میرا کمار خود بھی قانون دان ہیں اور اُن کے شوہر(منجول کمار) بھی بھارتی سپریم کورٹ کا ایک اہم نام ہے۔نئے بھارتی صدر کا انتخاب 15جولائی 2017ء سے پہلے پہلے تکمیل کو پہنچنا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دو دَلتوں میں سے قسمت کی دیوی کس پر مہربان ہوتی ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔