اللہ کی تلوار۔۔۔۔ خالد بن ولیدؓ

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 30 جون 2017

لیفٹیننٹ جنرل آغا ابراہیم اکرم شروع 1964میں کوئٹہ میں اسٹاف کالج کے چیف انسٹرکٹر تھے، فوجی تاریخ ان کا موضوع تھا، یہی فوجی افسروں کو پڑھاتے تھے۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اسلام کی فوجی تاریخ بہت شاندار ہے لیکن دنیا کو اس کے بارے میں علم بہت کم ہے۔ خاص طور پر کوئی کتاب ایسی نہیں ملتی جو کسی فوجی نے باقاعدہ تحقیق اور میدان جنگ کے مشاہدے کے بعد لکھی ہو۔ انھوں نے ارادہ کیا کہ وہ اس کمی کو پورا کرنے کی خود کوشش کریں گے۔ پھر اس کام کی ابتدا انھوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی زندگی اور فوجی مہمات کے ذکر سے کی۔ ان کی کتاب Sword of Allah کے عنوان سے شایع ہوئی اور بعد میں اس کا اردو میں ترجمہ بھی شایع ہوگیا۔

جنرل ابراہیم اکرم نے جب اس کتاب پر کام شروع کیا تو سب سے پہلے عربی زبان سیکھی کیونکہ اسلام کی ابتدائی جنگوں کے بارے میں سارے کا سارا مواد عربی میں تھا جس کا ترجمہ نہیں ہوا تھا اور اگر ہوا تھا تو غلط اور بددیانتی پر مبنی تھا۔ پھر ان تصانیف کا حاصل کرنا بھی آسان نہ تھا۔ اس معاملے میں ان کے عرب دوستوں نے جوکوئٹہ میں ان کے شاگرد رہ چکے تھے ان کی مدد کی۔ جغرافیائی مواد کی فراہمی میں بھی ان سے مدد ملی۔ لکھتے ہیں ’’خوش قسمتی سے میرے پاس ابتدائی اسلامی دور کے دو بہترین جغرافیائی ماخذ ابن رستا کی ’’العلاق النفیہ‘‘ اور یعقوبی کی ’’البلدان‘‘ موجود تھے جن میں اس وقت کے طبعی اور سیاسی جغرافیہ کا خاصی تفصیل سے ذکر ہے۔‘‘

کتابوں کے مطالعے سے فارغ ہونے اور اپنی کتاب کا پہلا مسودہ تیار کرنے کے بعد جنرل ابراہیم اکرم نے فوج سے چھٹی لی اور پاکستان سے روانہ ہوگئے سب سے پہلے لندن پہنچے اور برٹش میوزیم میں بازنطینی حکومت کے خلاف مسلمانوں کے معرکوں کے بارے میں مواد جمع کیا۔ وہاں سے بیروت گئے اور خالد بن ولیدؓ کے جنگی میدانوں کا دورہ کیا۔ وہ جگہیں دیکھیں جہاں سے خالدؓ کا لشکرگزرا تھا اور جہاں انھوں نے لڑائیاں لڑی تھیں۔

پھر جنرل ابراہیم اکرم شام گئے۔ ہر اس شہر میں قیام کیا جسے حضرت خالدؓ نے فتح کیا تھا مثلاً دمشق، حمص، حلب اور ہر اس جگہ کو دیکھا جہاں حضرت خالدؓ نے جنگیں لڑی تھیں۔ دمشق میں قلعہ کی دیواریں دیکھیں جس کے نشانات اب بھی باقی ہیں۔ حمص میں خالد بن ولید کی مسجد کی زیارت کی، ان کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ جنرل ابراہیم لکھتے ہیں ’’میں ایک گھنٹے تک حضرت خالدؓ کے مقبرے سے متصل مسجد میں خاموش بیٹھا رہا، پھر میں اٹھا اور دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ سے دعا مانگی کہ وہ آج کے مسلمانوں کو بھی ویسی ہی فتوحات نصیب کرے جیسی اس نے خالدؓ کو عطا کی تھیں گوکہ آج کے مسلمان اس کے کم ہی حقدار ہیں۔‘‘

شام کے جنگی میدانوں میں سب سے اہم یرموک کا سفر تھا۔ شام کی حکومت نے جنرل ابراہیم کے لیے سہولتیں فراہم کردیں، شامی فوج کا ایک رہبر بھی ان کے ساتھ کردیا گیا۔ یہ عمان گئے اور وادیٔ اردن کا وہ علاقہ دیکھا جہاں مخل کی جنگ لڑی گئی تھی۔ یہ گاڑی میں موتہ تک گئے اور پیدل چل کر اس جگہ سے گزرے جہاں موتہ کی جنگ ہوئی تھی۔ پھر قریب ہی ان تین مسلمان سپہ سالاروں کی قبروں پر حاضری دی جو جنگ موتہ میں شہید ہوئے تھے۔

اردن سے نکل کر جب جنرل ابراہیم اکرم بغداد پہنچے تو پتا چلا کہ پاکستان کے فوجی اتاشی کرنل امین نے حکومت عراق کے تعاون سے ان کے دورۂ عراق کے تمام انتظامات پہلے ہی سے مکمل کر رکھے ہیں۔ یہاں سے بہت کچھ مفید معلومات حاصل کرنے کے بعد انھوں نے بغداد اور پھر کوفہ میں سیکڑوں میل صحرا اور ریتیلے ٹیلوں پر گاڑی میں سفر کرکے حضرت خالد بن ولید کی جنگوں کے تقریباً سارے میدانوں کا پتا لگا لیا، یہ بصرہ بھی گئے اور کویت میں کاظمیہ کا پتا چلا کر وہاں بھی پہنچے۔

اس کے بعد جنرل ابراہیم اکرم نے پاکستان واپس آکر کچھ وقت اس معلومات کو قلم بند کرنے میں گزارا جو اب تک حاصل ہوئی تھیں اور پھر دوبارہ صحرائے عرب کا رخ کیا۔ وہ جدہ پہنچے یہاں پاکستان کے ملٹری اتاشی کرنل نور الحق اور سعودی عرب کی فوج کے نمایندوں نے ان کا استقبال کیا۔ کرنل نورالحق نے سعودی حکومت کو جب ان کے سفر کے مقصد سے آگاہ کیا تھا تو سعودی حکومت نے ان کو اپنا مہمان بنالیا تھا۔ جنرل ابراہیم کے لیے یہ مہمان نوازی بڑی مددگار ثابت ہوئی کیونکہ اس کے بغیر سعودی عرب کے وسیع و عریض علاقوں، ریتیلے راستوں اور لق و دق صحرا کا سفر ممکن نہ ہوتا۔

جنرل ابراہیم جدہ پہنچ کر سب پہلے مکہ گئے، عمرہ ادا کیا اور پھر ریاض روانہ ہوگئے۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں نے پہلے عرب کے شمالی حصے میں جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ مجھے یہاں وسیع علاقے میں سفر کرنا تھا اور میں نے سوچا کہ پہلے اس سے فارغ ہو لوں تو بہتر ہوگا تاکہ بعد میں میرے لیے صرف مدینہ کے علاقے کی آسان اور نسبتاً زیادہ مشہور جنگیں باقی رہ جائیں۔ اسی طرح میں پہلے ان مقامات کو دیکھوں گا جہاں حضرت خالدؓ کی مرتدوں سے لڑائیاں ہوئیں۔‘‘

ریاض میں جنرل ابراہیم نے تین دن قیام کیا۔ ایک صبح یمامہ کے میدان جنگ کا جائزہ لینے میں گزاری۔ بریدہ سے بناح اور نطاح گئے۔ پھر ہوائی جہاز سے حائل گئے۔ یہاں بھی انھوں نے تین دن قیام کیا جس کا زیادہ تر حصہ صحرائی سفر میں گزرا اور کئی ایسے مقامات دیکھے جہاں حضرت خالدؓ کی مرتدوں سے جنگیں ہوئی تھیں۔

اس کے بعد جنرل ابراہیم کے دورے کا دوسرا دورہ شروع ہوا جس میں مکہ شامل تھا۔ یہ ایک دن اور ایک رات کے لیے طائف گئے، اس مسجد کو دیکھا جہاں طائف کے محاصرے کے وقت مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ انھوں نے چند مقامات اس راستے کے دیکھے جس سے حضورؐ طائف تشریف لے گئے تھے۔ انھوں نے جنگ حنین کے مقام پر ایک دن گزارا اور اس وادی کا اچھی طرح معائنہ کیا جس میں یہ جنگ ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک دن انھوں نے خود مکہ کی چھان بین میں گزارا۔ لکھتے ہیں ’’میں نے ان تمام مقامات کو دیکھا جو فتح مکہ کے زمانے میں تھے اور اب بھی موجود ہیں۔ میں کدا کی پہاڑی پر بھی چڑھا جو کعبہ سے دو میل جنوب کی جانب واقع ہے۔ یہاں سے میں نے جنوبی علاقوں کا خوب نظارہ کیا۔‘‘

اب حج کرنے کا وقت آگیا تھا۔ جنرل ابراہیم اکرم نے حج کیا اور پھر مدینہ روانہ ہوگئے تاکہ مسلمانوں کے جنگی میدانوں کے دورے کا آخری حصہ پورا ہو۔ مدینہ میں انھوں نے احد اورخندق کی جنگوں کا تنقیدی جائزہ لیا۔ انھوں نے گرد و پیش کی پہاڑیوں وغیرہ کے کچھ مناظر بنائے جو ان کی کتاب ’’اللہ کی تلوار‘‘ کے نقشوں میں دیے گئے ہیں۔ وہ مدینہ سے ستر میل دور ابرق کے مقام پر گئے جہاں حضرت صدیق اکبرؓ نے مرتدوں کی سرکوبی کی تھی۔

اب جنرل ابراہیم اکرم کا صحرائے عرب میں مشن پورا ہوگیا۔ وہ پاکستان واپس آئے۔ لکھتے ہیں ’’عرب کے سفر کی تکان جب اتر گئی تو میں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی جنگوں کے میدانوں کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا شروع کیا۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اس دورے کا کام میں نے تن تنہا کس طرح کرلیا۔ میں خدائے تعالیٰ کی مدد کا دل سے شکرگزار ہوں کہ اس نے میرے اس منصوبے کو کامیاب بنایا۔ گو مجھے وقت، بھاگ دوڑ اور روپے پیسے کی شکل میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی لیکن میں خوش تھا کہ میں نے بغیر کسی کی مالی مدد کے یہ کام کرلیا۔

یہ اسلام کی خدمت اور اسلامی ادب میں میرا یہ حصہ ایک مومن کی حیثیت سے کار عبادت کے طور پر تھا۔ ’’سورڈ آف اسلام‘‘ ایک تاریخ اور بالخصوص مسلم فوجی تاریخ ہے اسلام کے ایک عظیم سپہ سالار خالد بن ولیدؓ کی زندگی اور ان کے جنگی معرکوں کے حوالے سے۔ ایک ایسے ہیرو کی داستان جو نہیں جانتا تھا کہ فوجی شکست کسے کہتے ہیں۔ اس کتاب میں لکھی گئی بہت سی باتوں کا عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہے لیکن ہر واقعہ اور پس منظر تاریخی اعتبار سے درست ہے اور قدیم مورخوں کی تحریروں سے لیا گیا ہے۔ حالات اور واقعات کی ترجمانی میں بعض اوقات مجھے اپنی سمجھ سے کام لینا پڑا ہے۔‘‘

جنرل آغا ابراہیم اکرم کی یہ تصنیف اسلام کی جنگی تاریخ میں ایک بیش بہا اضافہ ہے جس کی تیاری میں ابتدائی مواد جمع کرنے سے لے کر چھپائی تک پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔