تبدیلی ہم سے۔۔۔۔۔۔۔۔

عثمان احمد  پير 4 فروری 2013
ہم نوجوان کسی بھی قسم کے جوش اور عزم سے محروم ہیں۔ فوٹو: فائل

ہم نوجوان کسی بھی قسم کے جوش اور عزم سے محروم ہیں۔ فوٹو: فائل

یوں تو اکثر سننے میں ملتا ہے کہ ہم نوجوان ہی ہیں جو اس ملک میں اصل تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔۔۔

ہم نوجوان ہی ہیں جو اس ملک کو آگے لے کر چلیں گے۔۔۔۔

ہم نوجوان ہی ہیں جو اس ملک کا مستقبل سنواریں گے۔۔۔۔

ہم نوجوان ہی ہیں جن کے ہاتھ میں اس ملک کی تقدیر ہے۔۔۔

ہم نوجوان ہی ہیں جو اس ملک کو پوری دنیا کے سامنے لا کر کھڑا کر دیں گے کہ آئو کرو ہم سے مقابلہ۔۔

مگر جناب یہ سب باتیں اور کہانیاں سننے میں تو شاید بہت بھلی لگتی ہیں اور شاید ہم سننا بھی یہی پسند کرتے ہیں، تبھی ہمیں ہر جگہ یہی سننے کو ملتا ہے اور ہم اپنے دل کو تسلیاں دیتے گھر کو لوٹ آتے ہیں، دلوں میں ولولہ لیے کہ ’’وقت آنے دو، میں بھی دکھا دوں گا کہ میں اس ملک کے لیے کیا کر سکتا ہوں، آخر نوجوان ہوں اس ملک کا، کوئی مذاق تھوڑی ہوں۔‘‘

مگر مجھ سے غلطی سرزرد ہو گئی کہ اس خواب خرگوش سے اٹھ بیٹھا اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اگر اس ملک کا نوجوان واقعی اتنا طاقتور اور توانا ہے، اگر وہ اتنا ہی با شعور ہے، اور اگر اوپر درج تمام باتیں حقیقت پر مبنی ہیں، تو میرے ملک کے اتنے برے حالات کیوں ہیں اور ابھی تک اس میں بہتری کے آثار کیوں نظر نہیں آ رہے؟ میرا ملک مسلسل ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف کیوں جا رہا ہے؟ میرا ملک کھربوں ڈالروں کے قرضوں میں کیوں جکڑا ہوا ہے؟ میرا ملک دہشت گردی اور افرا تفری کا کیوں شکار ہے؟ میرے ملک میں فسادات روز بروز بڑھتے کیوں جا رہے ہیں؟

یہ سب وہ سوالات تھے، جنہوں نے مجھے مجبور کیا کہ رات کہ اس پہر میں اپنے گرم بستر سے اٹھوں  اور حقیقتاً ان مسائل پر سوچوں۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرا بوڑھا باپ اپنی چارپائی کے اوپر لیٹا ہوا کراہ رہا ہے، اور اس نے اس حالت میں بھی صبح روزگار کی تلاش میں جانا ہے، گھر میں جوان بیٹے کے ہونے کے باوجود، مجھے لگا کے جیسے اتنے قرضوں کا بوجھ میرے ملک پر نہیں، میرے اس بوڑھے باپ پر ہے، جس کا جوان سہارا گھر میں موجود ہونے کے باوجود، اس سہارے کو اپنے باپ کی ذرا پروا نہیں۔ جس نے اس کی پرورش کی، اس کو اپنی گود میں کھلایا پلایا بڑا کیا، اور آج جب اس پر کڑا وقت آیا تو میں کیا کر رہا ہوں؟ کیا میں اس کا سہارا بن پا رہا ہوں؟ یا اس پر  اور بوجھ ڈال رہا ہوں؟ کیوں کہ میرا باپ کبھی شکایت نہیں کر سکتا مجھ سے، وہ کبھی طعنہ نہیں دے گا، بس حسرت بھری نگاہوں سے دیکھے گا اور اپنی نظریں جھکا لے گا۔

مجھے اپنے ملک کی حالت اس بے چارے، لاچار مجبور باپ جیسی لگی، جو حسرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا ہے اور مجھ سے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھ رہا ہے کہ ’’بیٹا میرا سہارا کب بنو گے؟ کیا ایسے ہی رہنے دو گے اپنے بوڑھے باپ کو بے سہارا؟ ‘‘ میں اس وقت اپنی نگاہیں جھکانے پر مجبور ہو گیا، کیوں کہ میں اپنے باپ کا سہارا نہیں بن پا رہا تھا، میرے اعضاء میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے، میرے اعضاء تقسیم ہو چکے تھے۔ میں اپنے اس بوڑھے ملک کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر کیسے دیکھ سکتا تھا، جب میرے اپنے اعضاء ہی میرا ساتھ دینے سے انکار کر رہے تھے۔ میرے اعضاء جن کو ایک کان ہونا چاہئیے تھا، وہ ساتھ نہیں تھے۔ وہ کہیں سنی، شیعہ اور وہابی میں تقسیم تھے تو کہیں پنجابی ، بلوچی، سندھی یا پٹھان میں تقسیم تھے۔ غرض میں بکھرا بکھرا سا اپنے باپ کے سامنے کھڑا تھا اور میرا لاچار باپ جس کا مجھے سہارا بننا تھا ، وہ گیلی آنکھوں کے ساتھ میرے ٹکڑوں کے جڑنے کے انتظار میں تھا، مگر ان بھیگی پلکوں میں امید ضرور تھی کہ ایک دن اس بیٹے کو باپ کی حالت پر ترس آ ہی جائے گا، کوئی دن ضرور آئے گا جب یہی بیٹا اس کا سہارا بنے گا۔ انشاء اللہ۔

ہم نوجوان کسی بھی قسم کے جوش اور عزم سے محروم ہیں۔ ملک کی فکر اور اصلاح احوال تو دور کی بات، ہمیں ذاتی زندگی کے خوابوں کے قلعے تعمیر کرنے سے فرصت نہیں ہے۔ ہمارے فکری افلاس کا یہ عالم ہے  کہ ہم نہ تو اس سے آگے سوچتے ہیں، جہاں تک ہمیں دکھایا جاتا ہے اور نہ ہی ہم سوچنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ہم سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ ہم  اپنے آپ کو اس کے سپرد کر بیٹھے ہیں، جو ہماری گلی پکی کروا جاتا ہے، جو ہمیں گیس کا کنکشن لگوا دیتا ہے، جو ہمارے بندے کو تھانے سے چھڑوا لاتا ہے، غرض جو ہمیں اچھا یا بہتر کمپنی کا لالی پاپ لے کے دیتا ہے، ہم اس کے ساتھ ہو لیتے ہیں۔ ایک بند کنویں کے اندر سے اگر کوئی مینڈک آسمان کو دیکھنا چاہے تو وہ اوپر دیکھ کر یہی سوچے گا کہ جتنا آسمان اسے نظر آرہا ہے، آسمان اصل میں ہے ہی اتنا۔ وہ یہ سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ اس کنوئیں کے باہر بھی ایک دنیا ہے جو میری دنیا سے کہیں بڑی ہے، اور وہاں سے آسمان اور بھی بڑا نظر آتا ہے، مگر چونکہ اس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہوتی یا وہ سوچنا پسند ہی نہیں کرتا کہ میں باہر جا کر بھی دیکھوںـ ۔

بد قسمتی سے آج ہماری سوچ بھی اسی طرح محدود ہو چکی ہے، ہم آج بھی فرقہ واریت، برادری، صوبائیت، لسانیت اور قومیت کی بنا پر لڑتے ہیں، اور پھر کہتے ہیں کہ ہم قائد کے سپاہی ہیں۔ ارے ہمارے قائد تو ہمیں اتحاد، ایمان اور تنظیم کا سبق پڑھاتے پڑھاتے چلے گئے، مگر ایک طرف ہم ہیں جنہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور آکھڑے ہوئے میدان میں ایک دوسرے کے ہی خلاف۔ قائد نے تو نوجوانوں کے متعلق فرمایا تھا،

’ ’پاکستان اپنی نوجوان نسل پر فخر کرتا ہے، خاص طور پر ان طالب علموں پر جو ہمیشہ مشکل وقت میں اور ضرورت کے وقت ثابت قدم رہے ہیں۔ آپ آنے والے وقت کے لیڈر ہیں۔ آپ کو اپنے آپ کو مکمل طور پرتیار رکھنا ہو گا، نظم و ضبط، تعلیم اور ٹرینینگ کی بنیاد پر۔ آپ کو اپنی اہمیت کا اندازہ کرنا پڑے گا اور اپنی ذمے داری کو سمجھنا پڑے گا۔‘‘

یہ تھے ہمارے عظیم قائداعظم کے خیالات ہماری نو جوان نسل کے بارے میں، مگر یہاں پر تو شاید ہم الٹا ہی چل پڑے ہیں۔ ہم نہ تو نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، نہ ہی تعلیم کی اور اپنی اہمیت کا اندازہ کر پاتے ہیں، بس کنوئیں کے مینڈک کی طرح آسمان ناپتے پھرتے ہیں۔ یہ باتیں کڑوی ضرور ہیں، مگر خود احتسابی کے لئے ان پر سوچنا ضروری ہے۔ بحیثیت نوجوان ہمیں اپنی کمزوریوں اور طاقت کا پورا پورا احساس ہونا چاہیے۔

UN (United Nations)  کے سروے کے مطابق ہماری  65%  آبادی  25  سال یا اس سے کم عمر کی ہے، مجھے تو یہ پڑھ کر فخر سے اپنا سر اونچا کر کے چلنا چاہئے کہ میرے ملک کی بیشتر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، مگر میرا غرور اگلے ہی لمحے ملیا میٹ ہو جاتا ہے، جب میں پڑھتا ہوں کہ اس 65% سے، جن کی عمر15سے 24 سال ہے،  32%  ناخواندہ ہیں۔ اس نوجوان نے جس نے ہمیں پستیوں سے نکال کر بلندیوں تک پہنچانا تھا، وہ خود پستیوں کا شکار ہے۔

ان ناخواندہ جوانوں میں سے صرف 6% ٹیکنیکل Skills رکھنے والا نوجوان ہیں، اور صرف 2.5% کو کسی بھی قسم کی ٹرینینگ دی جا رہی ہے، باقی نوجوان اپنی افرادی قوت یا تو دہشت گردی کی نظر کر رہے ہیں، یا دوسری غلط جگہوں پر ان کا استعمال ہو رہا ہے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق  ہمارے دیہی علاقوں سے ہے۔

ایک اور جائزے، جو کہ UNDP( United Nation Development Program) نے کروایا ہے، کے مطابق ہمارے ملک کی آبادی جو کہ 25 سال سے کم کی ہے 63% بتائی گئی ہے، جس میں سے 53% ناخواندہ ہیں، اور جن میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے، جن کی ناخواندگی کی شرح 42% ہے۔ اس قوم کی نئی آنے والی نسل کی تربیت جس نے کرنا ہے وہ خود تعلیم سے محروم ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان ملک کی حالت تبھی بہتر بنا سکتے ہیں، جب ان کی اپنی حالت بہتر ہو گی۔ بہتری کے لئے نوجوانوں کو اپنی سوچ اجتماعی بنانی پڑے گی اور خالی خولی باتوں سے نکل کر میدان عمل میں آگے آنا ہو گا۔ ارباب اختیار کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ ملک کو درپیش مسائل حل کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔ ان کی تعلیم پر پوری توجہ دی جائے اور آگے آنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ محض لیپ ٹاپ بانٹنے سے نہ تو نوجوانوں کی حالت بہتر ہو گی اور نہ ان کے مسائل حل ہوں گے۔ اس کے بجائے ان کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہیں تاکہ وہ ایسے کئی لیپ ٹاپ اپنی جیب سے خریدنے کے قابل ہوں اور اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔

موجودہ صورتحال میں گھبرانے کی ضرورت ہے اور نہ مایوسی کی کوئی گنجائش۔ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدلنا ہو گا، سوچ کا دھارا بدلنا ہو گا، پھر حالات کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ آج کا نوجوان بیدار ہو رہا ہے، وہ با شعور ہے اور چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اب امید کی جا سکتی ہے کے اس ملک کا نوجوان اپنے بکھرے ہوئے اجزاء جلد اکھٹے کرے گا اور آگے بڑھ کر اپنے بوڑھے باپ کا سہارا ضرور بنے گا۔ انشاء اللہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔