JIT کے بعد

جاوید قاضی  ہفتہ 1 جولائی 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

JITاپنی تفتیش مکمل کرنے کو ہے ، اِس پورے پاناما کیس کا مرکزی کردار’’مریم نواز‘‘ بطورِ آخری گواہ 5 جولائی کو JITکے سامنے حاضرہوں گی۔ بات بہت مختصر ہے، پیسے کہاں سے آئے؟جواب بہت آسان ہے مگر جواب ہو تو دیا جائے کہ پیسے کہاں سے آئے؟ اس بات کا جواب نہ دینا خود دعوت دینا ہے کورٹ کو کہ بصورتِ دیگر وہ نتیجہ اخذ کریں اور وہ نتیجہ بالآخراخذ کرے گی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے۔کچھ اِس انداز میں کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود انصاف ہوتا کیا ہے؟ اس سے پہلے کہ میں بات کو آگے بڑھاؤں ذرا سقراط کے ٹرائل کیس کا ذکرکرتا چلوں۔ سقراط پر جو الزامات تھے کہ وہ یونان کے نوجوانوں کے ذہنوں کوکرپٹ کررہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے لیے سیکڑوں لوگوں پر مبنی (Jury)بٹھائی گئی۔

خود جیوری(Jury)کیا ہوتی ہے اس پر بھی دو باتیں کرتے چلیں کہ قدیم یونان سے لے کر آج تک اینگلو سیکسن لاء میں جج اور جیوری الگ الگ ہیں۔جیوری جج کی ہدایات پر Point of Fact کا تعین کرتی ہے اور جب(Jury)جیوری Point of Factکا تعین کرلیتی ہے’’ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ میںمثال کے طورپر یہ کہ دن ہے یا رات ہے؟جیوری کو یہ سب عام آدمی کی آنکھ سے دیکھنا ہوتا ہے۔ جب جیوری ایسے سوالات کو ہاں یا ناں میں مکمل کرتی ہے، جب فورینسک ایویڈنسز(شواہد) سامنے آجاتے ہیں اور خود اِن شواہدات کی جہاں Corroboration کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہوجاتی ہیں، جب Ocular Evidences وغیرہ یا جنہوں نے حلفیہ بیان دیا ہوا ہوتا ہے اْن کو Witness Boxمیں کھڑا کر کے Cross Examine کیا جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ سارا شواہدی پروسیجر مکمل ہو جاتا ہے تو یہ وہ وقت ہوتاہے جہاں سے Point of Law کا کام شروع ہو جاتا ہے اور یہ وہ کام ہے جوکہ ججزکوکرنا ہوتا ہے۔ اْن مخصوص حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے۔اور اس طرح سے وہ قانون کی تشریح کرتے جاتے ہیں۔پھر اْس تشریح سے کوئی بری ہوتا ہے اور کوئی مجرم طے پاتا ہے۔ بہرکیف سقراط کا ٹرائلMiscarriage of Justiceکے زْمرے میں آتا ہے خود ذوالفقار علی بھٹوکا ٹرائل بھی ۔

یسوع سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک اور بہادر شاہ ظفر سے لے کر آج تک سیکڑوں ٹرائلز ایسے ہیں جو اِسی زْمرے میں آتے ہیں۔ لیکن سْقراط نے جو بات کی وہ بنیاد بنی Rule of Law کی، کہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑے گا۔

ہوا یوں کہ جیوری سقراط کے کیس میں بٹ گئی ۔ آدھے سے کچھ زیادہ ممبران نے سقراط کو مجرم ٹھہرایا اورآدھے سے کچھ کم نے اْسے بے قصورکہا ۔ ججوں نے جیوری کی اکثریتی رائے پر فیصلہ سْنایا ۔ سقراط کو زہرکا پیالہ پینے کے مروج طریقے سے سزائے موت سْنائی۔ اب ہوا کیا جس جیل میں سقراط کو رکھا گیا وہاں سے مفرور ہونا بہت آسان تھا۔ غالباً ریاست یہ چاہتی تھی کہ سْقراط مفرور ہو اور یونان کے نوجوان اِس عظیم دانشورکے فرار ہونے سے شرمسار ہوں۔

Crito سقراط کے محبوب شاگرد تھے جس رات سقراط کو زہرکا پیالہ پینا تھا کرائٹو اْس رات ،اْس عمل سے بہت پہلے سقراط کے پاس جیل کی دیواریں پھلانگ کر پہنچا ، سقراط کو دھیرے سے کان میں کہا’’سقراط بھاگ جاؤ میں نے آپ کے لیے سارے انتظامات مکمل کرلیے ہیں‘‘ سقراط نے جواب میں کہا’’کرائٹو نہیں میں بھاگ تو جاؤں گا مگر یونان کے ستون جْھک جائیں گے۔ کہاں میں چھوٹا سا ادنیٰ آدمی، کہاں یونان کی عظیم عدالت، عظیم ریاست، عظیم قانون ۔ میں اْس کے تابع ہوں، اس سے بڑا نہیں۔ کرائٹو تم واپس چلے جاؤ‘‘ بلآخر سقراط نے اْس رات زہرکا پیالہ پی کر عدالت کے فیصلے کا بھرم رکھا۔

آج تاریخ میں سقراط اپنا مقدمہ جیت چْکا ہے۔ وہ یسوع ہوں یا ہمارے ذوالفقارعلی بھٹو، تاریخ میں سرخْرو ہیں، اگر سقراط جیل سے بھاگ جاتا تو آج تاریخ میں سقراط کا مقام کیا ہوتا ۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی تو وہ لوگوں کے راجا تھے۔اْس نے کبھی یہ نہ کہا کورٹ کے فیصلے پر عوام کی عدالت بیٹھے گی۔ انھوں نے اپنا فیصلہ تاریخ پر چھوڑا اور تاریخ میں ذوالفقارعلی بھٹوکا مقام کیا ہے اس کا فیصلہ آپ ہی کیجیے۔ میاں نوازشریف کا فیصلہ فرض کرلیجیے کہ اْن کی خواہشات کے برعکس آتا ہے، تو وہ فیصلہ تاریخ میںکہاں ٹھہرے گا۔ شاید کہیں بھی نہیں۔

نہ ہی میاں نواز شریف ذوالفقارعلی بھٹو ہیں جن کے مرنے کے بعد کْل مِلاکر وہ ہی دوگھر نکلے جو اِن کے والد نے اْن کو دیے تھے ، نہ وہ دس کروڑکی گھڑی پہنتے تھے، نہ نیلسن نامی گْم نام کمپنی تھی نہ بے نامی جائیدادیں۔ نہ شوگرملز، نہ سریے کا کاروبار کرتے تھے۔

ذوالفقارعلی بھٹوکا کیس حقیقتاً ً Miscarriage of Justice  تھا مگر میاں صاحب کا منی لانڈرنگ کا کیس اْس زمرے میں نہیں آتا ۔وہ اس لیے کہ دنیا کے مانے ہوئے Criminal Investigative Journalism کے ماہرین اور اْن کی ٹیم نے تحقیق کی اْن کاغذات کی جو موزیک فانزیکا لاء فرم کے دفتر سے ملے، کہ کس طرح نیلسن جیسی بے نامی کمپنیز جس کو پسِ پردہ چلایا جا رہا تھا۔ اس دنیا میں غریب ملکوںکا لوٹا ہوا پیسہ فرضی ناموں سے ٹرانزیکٹ کیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ میاں صاحب JITکے اوپر ایک اور JIT چاہتے ہیں ، عوام کی JIT۔

مگر لوگوں کو کوئی بھی مائل بہ کرم نہ کر سکا ۔ سوال عدالت کی ساکھ کا ہے۔ سوال عدالت کی ساکھ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کورٹ کے فیصلے کو تاریخ میں Document ہونا ہے۔ ضروری نہیں کہ کورٹ کے تمام فیصلے صحیح بھی ہوں جو بنیادی بات ہے وہ یہ ہے کہ کورٹ کے فیصلے کو ہر صورت تسلیم کرنا ہوگا اور ضروری یہ بھی نہیں کہ عدالت کے فیصلے پاپولر ہوں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ ستر سال کا طویل سفر طے کرچکی ہے۔ بڑے نشیب و فراز سے گزری ہے۔ نظریہ ضرورت سے لے کر قانون کی بالادستی کی جنگ تک، مگر ہماری جمہوریت ہے جو بیچاری چالیس سال کے اِس سفر میں ابھی تک صرف چند خاندانوں کے گِرد ہی گھوم رہی ہے، پھربھی مجھے یہ جمہوریت عزیز ہے۔ جمہوریت اور آئین کی بالادستی یا قانون کی بالادستی ایک ہی حقیقت کے مختلف زاویے ہیں۔

آنیوالے دو تین ہفتے پاکستان کی تاریخ کے بہت اہم دن ہیں۔ ہمیں آگے جانا ہے یہ راہیں اور بھی وسیع ہونی چاہئیں ایسا نہیں کہ جہاں انصاف صرف امیروں کے لیے ہے۔ جہاں جمہوریت صرف شرفاؤں کے لیے اور غریبوں کے لیے لوڈ شیڈنگ، وبائی بیماریاں، خوراک کی قلت ، مقفل اسکول اور اسپتال، بہاول پور جیسے سانحے اور پارہ چنار میں بربریت۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔