جیلیں یا جرائم کی آماجگاہیں

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  ہفتہ 1 جولائی 2017
advo786@yahoo.com

[email protected]

سزا کا مقصد مجرم کی اصلاح، متاثرہ شخص یا خاندان کے جذبہ انتقام کی تسکین اور عبرت عامہ ہوتا ہے، جب کہ دوران قید مجرم کی اصلاح، تعلیم و تربیت کی کوششیں کی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے جرم کی سزا کاٹنے کے بعد معاشرے کے ایک اچھے فرد کی طرح زندگی گزار سکیں۔ اس مقصد کے لیے قانون کے تحت قیدیوں کو جیلوں میں تعلیم و تربیت، ہنرمندی، کھیلوں، کتب خانہ، مساجد، طبی اور صحت وصفائی کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن ہماری جیلیں اصلاح کے بجائے اسلحہ و منشیات خانے بنے ہوئے ہیں جن میں جرائم کی ایک الگ دنیا آباد ہے جیلیں بااثر، پیشہ ور اور صاحب ثروت مجرموں کے لیے عشرت کدے اور غریبوں کے لیے عقوبت خانہ ہیں۔

مجرم جوکام جیل سے باہر رہ کر نہیں کرسکتے جیل کے اندر آرام سے کرتے ہیں اگر کوئی چھوٹا موٹا یا بے گناہ مجرم جیل پہنچ جائے تو اندر اس کو جرائم کے تمام گر بتا دیے جاتے ہیں کہ جرائم کے محفوظ طریقے کون سے ہیں،کہاں سے باآسانی سستا یا کرایہ پر اسلحہ یا منشیات حاصل کی جاسکتی ہیں کس کس علاقے میں کون کون سے گینگ کام کررہے ہیں،کون کون سے علاقے کن جرائم کے لیے نسبتاً آسان ومحفوظ ہیں۔ جیل کے اندر ہی ان قیدیوں کے ایسے گینگز سے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ان کے ساتھ منسلک ہوکر جرائم کی دنیا میں چلے جاتے ہیں یا پھر انھیں اس پر مجبورکردیا جاتا ہے یہ تمام کام پیشہ ور اور عادی مجرم، جیل اہلکار اور پولیس میں موجود کالی بھیڑیں کراتی ہیں۔

شہر میں ہونے والی بہت سی وارداتوں کی کڑیاں جیل سے ملتی ہیں جیل کے اندر مختلف سیاسی ومذہبی اور کالعدم تنظیموں کی مختص بیرکوں میں ان جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت یا مجرمانہ قسم کی غفلت کے باعث عدالتوں اور جیلوں سے قیدیوں کا فرار یا انھیں پولیس پارٹی پر حملہ کرکے رہا کرا کے لے جانے اور بعض مرتبہ فرارقیدیوں کے پولیس مقابلے میں ہلاکت کے مشکوک واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں کئی مرتبہ جیل توڑنے کے بڑے بڑے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔ چند سال پیشتر ایک جیل سے ملحقہ مکان سے سرنگ کھود کر قیدیوں کو فرارکرانے کی سازش بھی پکڑی گئی تھی۔ جیل کے قیدیوں کی طرف سے انتظامیہ کی ناروا کارروائیوں کی وجہ سے جیلوں میں کئی مرتبہ شدید ہنگامے ہوتے رہے ہیں جن سے قیدی بیرکوں کی چھتوں پر چڑھ کر احتجاج اور ہنگامہ آرائی کرتے رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں کراچی جیل سے دو خطرناک قیدیوں کے فرار کا واقعہ پیش آیا جنھیں پیشی پر کورٹ لایا گیا تھا انھیں ہتھکڑیاں بھی نہیں لگائی گئی تھیں حیرت انگیز طور پر یہ قیدی کورٹ روم کی سلاخیں کاٹ کر فرار ہوگئے ۔اس بڑی واردات سے جیل حکام لاعلم رہے ۔ اس واردات کے بعد سندھ حکومت کی ہدایت پر پولیس نے صوبے بھرکی جیلوں میں قید مختلف کالعدم جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 2 ہزار سے زائد دہشت گردوں کی مکمل تفصیلات اکٹھا کرنا شروع کردی ہیں۔ رینجرز اورقانون نافذ کرنے والے اداروں نے جیل میں مشترکہ سرچ آپریشن کیا۔

جیل کی لائبریریوں اور کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کی بیرکوں کی تلاشی لی گئی جس کے دوران ہزاروں کی تعداد میں موبائل فونز، LED، ٹی وی، مائیکرو ویو اوون، فریج، ڈیپ فریزر، واٹر ڈسپنسرز، DVD پلیئرز، میموری کارڈز، چھریاں، چاقو، موبائل فون جیمرکو ناکارہ بنانے والی ڈیوائس، منشیات اور ہزاروں من غذائی اشیا، سیکڑوں گیس سلینڈرز اور دس نجی کچن سمیت لاتعداد اشیا برآمد کی گئیں جب کہ کیش کی صورت میں بھی 35 لاکھ سے زائد کی رقم برآمد کی گئی۔ آپریشن کے بعد قیدیوں کو غیرقانونی طور پر سہولیات فراہم کرنے کے الزام میں جیل سپرنٹنڈنٹ و ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت 12 پولیس اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات درج کرلیے گئے لیکن اس سب کے باوجود ان ملزمان کو وی آئی پی پروٹوکول دینے کے لیے لانڈھی جیل شفٹ کردیا گیا ہے۔ ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے سوال اٹھایا ہے کہ سینٹرل جیل کراچی جیل ہے یا ریسٹ ہاؤس؟

جیل کی سیکیورٹی کے لیے جیل کے اطراف میں متصل دہری دیواریں اور ریت کی بوریوں کا حصار قائم ہے رات کو جیل کے اطراف کی مین شاہراہیں بند کردی جاتی ہیں جس کی وجہ سے عوام خاص طور پر نئے گزرنے والے پریشانی و خوف و ہراس کا شکار ہوتے ہیں موبائل فونز جیمر کی وجہ سے اطراف کی آبادیوں میں موبائل فون کمپنیوں کے سگنلز نہیں مل پاتے جس کی وجہ سے شہری اذیت سے دوچار ہوتے ہیں ان سب اقدامات کے باوجود ملزمان کیونکر فرار ہوجاتے ہیں اس کا جواب جیل حکام ہی دے سکتے ہیں۔

قیدیوں کے فرار کے واقعہ کے بعد حکام کی روایتی پھرتیوں ، جیل کے دوروں اور پروٹوکول وغیرہ کی وجہ سے جیل کا سارا نظام چوپٹ ہوکر رہ گیا ملزمان کو تاریخوں پر عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا وکالت نامہ دستخط نہیں ہوسکے ، اچانک عدالتوں میں ہفتے کی چھٹی کے اعلان کے سبب ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں قیدیوں کو عید جیل میں گزارنا پڑی، جیل میں قیدیوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی تعطل کا شکار رہا۔ رمضان اور عید کے موقعے پر قیدیوں کے عزیزو رشتے دار ان تک سامان نہیں پہنچا پائے جنھیں کافی انتظارکرانے کے بعد واپس کردیا گیا تھا جب کہ بیرکوں میں قیدیوں کے پاس جو سامان اور برتن وغیرہ تھے، سرچ آپریشن کے دوران انتظامیہ نے اپنی تحویل میں لے لیے تھے۔

افطار سے قبل برتن و دیگر اشیا نہ ملنے پر قیدی اپنی بیرکوں سے باہر نکل آئے اور جیل انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے احتجاج کے باعث جیل کے اندر ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی، ایمرجنسی سائرن بجاتے ہوئے پولیس و رینجرز کی مدد طلب کرلی گئی۔ آئی جی جیل خانہ جات موقعے پر پہنچے تمام قیدیوں کے مسائل سننے کے بعد ان کے فوری حل کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد قیدی اپنی بیرکوں میں واپس چلے گئے۔ قیدیوں میں شدید اشتعال پایا جاتا تھا ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے شدید گرمی سے بچنے کے لیے پنکھے لگا کر رکھے تھے جو بیرکوں سے نکال لیے گئے ہیں جس کے باعث گرمی و تعفن سے قیدیوں کی حالت غیر ہوگئی ہے ان کا راشن بھی تحویل میں لے لیا گیا ہے وہ اپنا کھانا خود پکاتے تھے جس کی جیل انتظامیہ نے اجازت دے رکھی تھی کیونکہ انتظامیہ تمام قیدیوں کو معیاری کھانا فراہم نہیں کرتی ہے جیل میں گنجائش سے کئی گنا زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔

قیدیوں کے عزیزواقارب کے ہفتے بھر سے جیل میں قید ان کے عزیزوں سے ملاقات نہیں کرنے دی جا رہی ہے۔ جیل آپریشن سے یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر سامنے آئی ہے کہ اس میں حکومتی سطح سے لے کر جیل انتظامیہ اور اہلکاروں کی بے حسی، نااہلی ولاپرواہی اورکرپشن شامل ہیں جیلوں میں گنجائش سے کئی گنا زائد قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ مطلوبہ بجٹ نہ ملنے اور اس میں بھی کرپشن کی بھرمار کی وجہ سے قیدیوں کو قانونی سہولیات نہیں مل پاتیں۔ وہ برتن، راشن، پنکھے ودیگر اشیا تک اپنے گھروں سے منگواتے ہیں کھانا خود تیار کرتے ہیں جیل انتظامیہ اس بات کی اجازت بخوشی دے دیتی ہے کیونکہ ان کا قیدیوں پر خرچہ بچ جاتا ہے جب کہ صاحب ثروت، پیشہ ور مجرم اور گینگز فریج، ڈیپ فریزر، مائیکرواوون، واٹر ڈسپنسرز ، LED، DVD پلیئرز و منشیات سمیت ہر قسم کی خرافات اور تعیشات حاصل کرلیتے ہیں جس کے عوض جیل اہلکاروں کو بڑی بخشیش بھی مل جاتی ہیں۔ گوکہ ججز شیڈول کے مطابق جیلوں کے دورے اور معائنے کرتے ہیں قیدیوں کی شکایات سنتے اور احکامات جاری کرتے ہیں۔ این جی اوز بھی جیلوں کے دورے کرتی رہتی ہیں لیکن قیدیوں کے انسانی حقوق اور قانون محض کتابوں تک محدود رہتا ہے، پولیس عدالتی نظام، وکلا اور این جی اوز ان کی عملداری پر اصرار نہیں کرتے جو انھیں کرنا چاہیے۔

جیل سے قیدیوں کے حالیہ فرار کے پیچھے یقینا ایک جامع منصوبہ بندی ہوگی ان کے باہر سے مستقل اور لمحہ بہ لمحہ رابطے ہوں گے اندر سے معاونت حاصل ہوگی اس کے بغیر ان کا فرار ناممکن تھا۔ فرار کے اس واقعے کو جواز بناکر خطرناک قیدیوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے اور قیدیوں کے دیگر شہروں کی جیل میں تبادلے کا عندیہ دیا گیا ہے جس سے مزید قباحتیں اور پریشانیاں پیدا ہوں گی تبادلہ رکوانے کے لیے رشوتوں کا بازار گرم ہوگا اور قیدیوں کے عزیز و اقارب بے جا پریشانیوں اور مالی مسائل کا شکار ہوں گے جب تک حکومت جیلوں کے معاملات پر بھرپور توجہ اور بجٹ مہیا نہیں کرے گی جیلوں سے کالی بھیڑوں کی تطہیر کرکے کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گی جو آج تک نہیں کیا گیا کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا اور ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور ان کے نتیجے میں ظلم و بربریت، ناانصافیوں، پریشانیوں اور کرپشن کے نئے باب کھلتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔